پانچ جوتے اور اصلاح کا عمل

کچھ مسائل تو ہمیں حالات کی طرف سے ملتے ہیں، مگر بہت سے مسائل ہم اپنے لئے خود پیدا کرتے ہیں۔ مہینے کے ابتدائی دنوں میں مجھے پنشن لینے بنک جانا ہوتا ہے۔ حسب معمول آج بھی پنشن لینے بنک جا رہا تھا۔ ایک ٹریکٹر ٹرالی خراماں خراماں سڑک پر جا رہی تھی اور دائیں طرف کا سڑک کا پورا حصہ اس کی لپیٹ میں تھا۔ ساری گاڑیاں دائیں طرف سے اسے غلط کراس کر کے آگے بڑھ رہی تھیں۔اچانک میر ی نظر اگلی گاڑی پر پڑی تو سانس اوپر نیچے ہونے لگی۔ ایک ڈھائی تین سال کی بچی عجیب صورتحال میں تھی۔ گاڑی کا پچھلا شیشہ آدھا کھلا تھا اور وہ بچی آدھی اس شیشے سے باہر تھی۔ ٹرالی بمشکل چند انچ کے فاصلے پر تھی اور بچی کی کوشش تھی کہ اچھل کر ٹرالی کو چھو لے۔ ٹرالی اور گاڑی کا درمیانی فاصلہ تھوڑا سا کم ہو جائے یا بچی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے تو کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر ہی میں لرزگیا۔ میں نے گاڑی کے شیشے سے دائیں طرف پیچھے دیکھا، کوئی گاڑی نہیں آرہی تھی۔ میں نے بہت تیزی سے گاڑی بائیں طرف سے آگے بڑھائی اور اس گاڑی کے بالکل ساتھ پہنچ گیا۔ گاڑی کی اگلی سیٹوں پر دو مرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ پچھلی سیٹ پر ایک عورت اُونگھ رہی تھی اور دو، تین بچے کھیل رہے تھے۔ جن میں وہ بچی بھی تھی جو ایک خطرے سے کھیل رہی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا ’’بچی کو اندر کر لیں‘‘۔ ماں نے آنکھ کھول کر دائیں دیکھا، خطرے کو محسوس کیا اور تیزی سے بچی کوٹانگ سے کھینچ کر گاڑی میں گرا دیا اور شیشہ پوری طرح اوپر کر لیا۔ اب وہ سارے میری طرف تشکر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ اسی اثنا میں ٹریکٹر ٹرالی پیچھے رہ گئی تھی اور میں آگے بڑھ آیا۔

ایسے ماں باپ بھی عجیب ہیں۔ گاڑی میں بچوں کو بٹھا کر خود سو جاتے ہیں اور کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو قصور دوسروں کا۔ حالانکہ اس نقصان کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔ ماں باپ کو پہلے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ بچے کو چوٹ لگنے یا نقصان پہنچنے کی صورت میں سب سے زیادہ چوٹ ماں باپ کو محسوس ہوتی ہے اور سب سے زیادہ نقصان بھی انہی کا ہوتا ہے۔ بچے تو انسان کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ہم اپنی لاپرواہی سے اپنے اثاثے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لئے بعد میں رونے سے بہتر ہے کہ گاڑی میں بیٹھتے وقت انسان بچوں کی موجودگی کا احساس کرے۔ گاڑی کے شیشے بند کرے۔ چلڈرن لاک لگائے اور سفر کے دوران بچوں پر نظر رکھے۔ چھوٹے بچے فطرتاً شرارتی ہوتے ہیں مگر ماں باپ کی ذات ان کے لئے حفاظتی حصار کا کام کرتی ہے۔ اس حصار کو ہر ہال میں مضبوط اور محفوظ ہونا چاہئے۔
بے جا ٹیکسوں اور مہنگائی نے درمیانے طبقے کے لوگوں کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ بچت کریں۔ مہینے کے آخری دنوں کو کاٹنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ اس لئے سبھی اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ فوری پنشن حاصل کر لیں، سو ابتدائی دنوں میں بنک میں رش بھی بہت ہوتا ہے۔ پنشن لینے کے لئے آپ کو دو مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلے میں آپ کو اس ماہ کی پنشن کا اندراج پنشن بک میں کرانا ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں پنشن فارم کیشئر کو دے کر رقم وصول کرنا ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں اندرج کرنے والا شخص اگر ڈھیلا اور سست ہو تو آپ کی باری عام طور پر فقط تین چار گھنٹوں میں آتی ہے اور اگر کوئی پھرتیلا اور مستعد آدمی ہو تو یہ کام تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ آج کل کام کرنے والا آدمی گو تیز مزاج ہے مگر مستعد اور پھرتیلا ہے، سو ایک گھنٹے میں یہ مرحلہ طے ہو جاتا ہے۔

آج دوسرے مرحلے کی صورت حال عجیب تھی۔ یہ مرحلہ جو عموماً پانچ منٹ کا ہوتا ہے۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت لے رہا تھا۔ لمبی قطار میں کھڑے ہونے کے بعد پتہ چلا کہ یہ صورت حال اس وجہ سے ہے کہ ایک کیشئر صاحب چھٹی پر ہیں۔ اب ا یک اکیلے آدمی پر حد سے زیادہ بوجھ ہے۔ اس لئے باری آنے میں آدھ، پون گھنٹہ لگ رہا تھا۔ میں نے وہاں کھڑے لوگوں کو کہا کہ صبح سے یہ عذاب ہے تو آپ لوگوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ ضروری نہیں کہ نعرے بازی کی جائے، توڑ پھوڑ کی جائے۔ صرف اتنا کریں کہ مینجر کو جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ اسے کہیں کہ اس مشکل کا سد باب کرے۔ لوگ میرا منہ دیکھ رہے تھے کہ کیسی باتیں کر رہا ہوں۔ ایک بزرگ فرمانے لگے، بھائی وقت ضائع کر رہے ہو۔ کسی پر کچھ اثر نہیں ہوگا۔ یہ لوگ اس قوم کے باشندوں کی طرح ہیں کہ جن کا بادشاہ بہت ظالم تھا اور رعایا پر اس نے لگان اور دوسری قسم کے ٹیکسوں کی یلغار کی ہوئی تھی۔ مگر کوئی بھی اس ظلم کے خلاف نہیں بولتا تھا۔ بادشاہ ٹیکس بڑھاتا اور اپنے وزیر سے پوچھتا کہ کسی نے احتجاج تو نہیں کیا، کوئی بولا تو نہیں۔ وزیر نہیں میں جواب دیتا۔ اگلے دن بادشاہ اور ٹیکس بڑھا دیتا۔ مگر وزیر پھر بھی پوچھنے پر نفی میں جواب دیتا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آگیا کہ اس قدر بے شرم قوم کہ اب بھی نہیں بولتی۔ کوئی نیا طریقہ نکالا جائے۔ بادشاہ نے اہلکاروں کو کہا کہ ہر گزرگاہ پر ایک ناکہ لگا دو۔ جو کوئی وہاں سے گزرے اسے پانچ جوتے لگائے جائیں۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ شاید اب کوئی کچھ کہے گا۔ احتجاج کرے گا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ وزیر سے پوچھا تو حسب معمول اس کا جواب بھی نفی میں تھا۔

بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جا کر صورت حال کا جائزہ لے تا کہ اندازہ ہو کہ سچ کیا ہے۔ کہیں اس کے مصاحب جھوٹ تو نہیں بول رہے۔ بادشاہ ایک ناکے پر پہنچا۔ لوگ خوشی خوشی جوتے کھا رہے تھے۔ بادشاہ کو دیکھ کر خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ بادشاہ نے پوچھا کوئی مطالبہ، کوئی بات، کوئی مشکل، کہیں میری مدد کی ضرورت؟ کوئی کچھ نہیں بولا بلکہ سب بادشاہ کی تعریف کرتے رہے۔ آخر بادشاہ کے پرزور اصرار پر ایک شخص بولا۔ جناب جوتیاں مارنے والے کم ہیں۔ باری آنے میں کافی دیر لگتی ہے۔ اگر ان کی تعدا دبڑھا دی جائے تو عوام آپ کے لئے مزید دعا گو ہوں گے۔ یہ کہانی سنانے کے بعد اس بزرگ نے مجھے کہا کہ اگر میں انفرادی حیثیت سے کچھ کر سکتا ہوں تو ضرور کروں۔ مگر دوسروں کو احتجاج کی دعوت نہ دوں تو بہتر ہے۔ اس لئے کہ کوئی ساتھ دینے کی جرأت نہیں کرے گا۔

میں قطار سے باہر نکلا الور مینجر کے کمرے میں جا پہنچا۔ ایک خاتون مینجر تھیں۔ میں نے انہیں بوڑھے لوگوں، پنشن لینے والے سینئر سیٹیزن کی حالت زار بتائی اور درخواست کی کہ کچھ کریں۔ پہلے تو انہوں نے انکار کیا کہ ممکن ہی نہیں۔ ہیڈ آفس سے کیشئر کو بلانے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ آج ممکن نہیں۔ کوئی بھی بندہ بھیجنے میں وہ بھی ایک، دو دن لیتے ہیں۔ میرے بار بار کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ اچھا کچھ کرتی ہوں۔ ان کی مہربانی کہ میری درخواست پر خود اٹھ کر آئیں۔ کچھ لوگوں کو دائیں بائیں کیا اور کیشئر ایک کی بجائے دو ہو جانے سے صورت حال میں بہتری ہونے لگی۔

قطار میں کھڑے لوگوں میں بھی نفسانفسی کا عالم تھا۔ کوئی ترتیب، کوئی تہذیب، کوئی قطار، کوئی پابندی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پہلے لمبی لمبی دو قطاریں تھیں۔ ایک مردوں کی ایک خواتین کی۔ اچانک دو تین آدمی آگے بڑھے کہ ہم پنشن والے نہیں ہمیں تو چیک کیش کرانا ہے۔ ہم بنک کے مستقل گاہک ہیں۔ ہمارا استحقاق آپ پنشن والوں سے بہت الگ ہے۔ اس لئے ہم الگ قطار بنا رہے ہیں۔ چند منٹ میں کئی لوگ ان کے پیچھے تھے۔ قطار بناتے وقت جس تفریق کا نعرہ لگایا گیا وہ تفریق ختم ہو گئی اور ایک لمبی سی تیسری لائن بھی لگ گئی۔ اسی دوران ایک درمیانے قد کی سانولی سی بزرگ خاتون کالی عینک لگائے، چمک دمک لباس پہنے آگے آکر کھڑی ہو گئیں۔ عورتوں نے احتجاج کیا تو بولیں میں پنشن نہیں لے رہی ویسے کھڑی ہوں۔ ہجوم مطمئن ہو گیا تو دو منٹ میں انہوں نے کیشئر کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنا تعارف کسی سکول کی ہیڈ مسٹریس کے طور پر کرایا۔ اس دوران ان کے پیچھے ایک چوتھی لمبی لائن لگ گئی۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے فارم ہاتھ میں لے کر ہاتھ کھڑکی میں رکھ دیا۔ عورت کی مسکراہٹ تو عورت کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ہیڈ مسٹرس صاحبہ کی مسکراہٹ بھی کمال دکھا گئیاور وہ پنشن لے کر یہ جا وہ جا۔دائیں طرف کھڑے ایک صاحب شور مچانے لگے کہ چونکہ جو آدمی اس وقت چیک کیش کرانے سب سے آگے کھڑا ہے اس کا نمبر 400 ہے اور میرا نمبر 405 ہے۔ بیچ میں کوئی نہیں اس لئے اس کے بعد میری باری ہے۔ اسی جھگڑے کے دوران ان کی حمایت میں کچھ لوگ میدان میں آگئے اور ان سب نے پانچویں لائن دائیں طرف زبردستی بنا لی۔ دو کیشئر ہونے کے سبب وقت تو کم لگ رہا تھا مگر میں سوچ رہا تھا کہ ہر پیسے لینے والے کو بھی قطار میں صحیح طرح کھڑا ہونے اور اپنی باری پر آگے بڑھنا سکھانے کے لئے پانچ جوتے مارنے کا عمل بہت ضروری ہے۔ ورنہ اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500596 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More