واقعہ قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں
(Pervaiz Iqbal Arain, Karachi)
واقعہ قصور کے ہم سب ہی قصوروار
ہیں، اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود ہی کاٹنی پڑے گی، ہم میں سے کوئی بھی بری
الذِّمہ نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی فکر لیں ورنہ ایسے مظالم
برھتے جائیں گے۔۔
قصور کے واقعے پر دل دہلا دینے والی اس چشم کشا رپورٹ کو پڑھ کر یہ بندہء
ناچیز دنگ رہ گیا، حقائق کو جان کر تو جیسے سکتہ ہی طاری ہو گیا، دل خون کے
آنسو رونے لگا، رونگٹے کھڑے ہو گئے، شرم سےسر جھک گیا، ڈوب مر نے کی تمنّا
دل میں مچلنے لگی، ملک و معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے بھی گھن سی آنے
لگی، ایسا لگا کہ جیسے ہم سب پاکستانی بھی اس انسانیت سوز واقعے اور اس
جیسے نہ جانے کتنے ہی دیگر اندوہ ناک واقعات کے ذمہ دار ہوں، رحمٰن کے نہیں
شیطان کے بندے، اسی کے پجاری و پیروکار بن کر دینی احکامات و تعلیمات،
انسانی اخلاقیات اقدار کو فراموش کر کے بالکل بے حس، بے حیاء و بے غیرت اور
وحشی درندےبن چکے ہوں، اسلامی جمہوریہء پاکستان کا مسلم معاشرہ جیسے پستی،
تباہی و بربادی کی اس آخری اور حد وں کو چھو رہا ہوکہ اس وقت کرّہءارض پر
ایسی کسی نظیر کی تو بات ہی کیا،قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت میں بھی اس
کوئی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو۔۔۔۔ ورنہ ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا جو فی
زمانہ اس مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہء پاکستان کے مسلم معاشرے میں ہو رہا
ہے اور جس کی کہ ایک ہلکی سی جھلک واقعہء قصور میں نظر آتی ہے ؟؟؟
ظلم و بربریت کا ایسا بہیمانہ ، بے رحمانہ و وحشیانہ گندہ ترین مکروہ و
غلیظ ترین کھیل اس پاک دھرتی پر کھل کر کھیلا جا رہا رہا ، معاشرے میں ہر
طرف بے چینی ہے، نا انصافیوں حق تلفیوں، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری، رشوت
ستانی کا بازار گرم ہے۔ جان بچانے والی ادویات اور غذائی اجناس تک ہر چیز
میں ملاوٹ، ناقص ناپ تول ، عدل و انصاف اور امن و احساسِ تحفظ ناپید، کمزور
بیچارہ بے یارومددگار اور طاقتور کے ظلم کا شکار ہے۔ کہیں سے انصاف کی امید
نہ ہونے کے سبب سے واقعہء قصور کے سینکڑوں اور ان جیسے اور نہ جانے کتنے
مولےم و بے کس ہر وحشیانہ بربریت کا شکار ہو کر بھی چپ رہنے پر مجبورہے۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرتی بگاڑ کے مختلف پہلوؤں، اصل محرکات و اسباب اور ان کے در پردہ عوامل
پر تحقیق، گہرے غور و خوض، پھر ان کے تدارک، سدّباب ، ازالے اور تلافی کے
بغیر معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا، معاشرے کے ہر طبقے
اور حکومت کو کامل اخلاصِ قلبی اورصدقِ نیت کے ساتھ پوری فرض شناسی کا
مظاہرہ کرنا پڑے گا کیوں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، انتہائی مایوس کن
اور دردناک صورتِ حال ہے،ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے۔ کسی بھی طبقے نے اپنی
ذمّہ داریوں کو کما حقہ نہیں نبھایا، سب ہی نے لا پرواہی اور کوتاہی سے کام
لیا ہے بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، تمام اچھے اقدار اور اخلاقیات
کو اپنی اپنی مطلب پرستی،مفاد پرستی، مخصوص ناجائز مفادات، ذاتی اغراض و
مقاصد اور مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھا دیا ھے۔ جس کا جتنا بس چلا ہے اس نے
کوئی رعایت نہیں برتی۔ اب تو ایک منظم، مؤثر، مربوط اور فعّال تحریک کے
نتیجے میں ہی اصلاح کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے جس میں علماء و امراء ،
الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا، اساتذہء کرام سمیت معاشرے کے ہر ایک طبقے او ادارے
کو اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا جانا بھی ضروری
ہے۔ سب سے اہم کردار بہرحال ریاست اور اس کے ماتحت اداروں اور علماء کرام
کو ہی ادا کرنا ہے۔ وسیع تر اور بہترین قومی و ملّی مفاد میں مؤثر اقدامات
کا اب بھی وقت ہے۔ کاش کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں اور صالح مسلمان اور اپنی
ریاست اسلامی جمہوریہء پاکستان کے ذمّہ دار اور بہتر شہری بن سکیں۔ عوام کو
حقیقی معنٰی میں آزادی کی نعمت میسّر آسکے جو کہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے
یعنی معاشی، معاشرتی انصاف و مساوات انسانی و اخوّۃِ اسلامی، امن و عدل،
حصولِ تعلیم اور علاج و معالجے کے یکساں و مساوی مواقع،احساسِ تحفّظ،
وغیرہم جو کہ اللہ کے قانون کے نفاذ کے بغیر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور
ہے۔ اسوقت جو حالات درپیش ہیں ان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو صورتِ حال
کی عکاسی کچھ یوں ہوتی ہےکہ۔۔۔
عاقبت نا اندیش فرقہ پرست علماء سوء اور نام نہاد مذہبی پیشواء ، قرآن اور
رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق
علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ الحسنہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اپنے فرقہ کے
خود ساختہ انسانی افکار و نظریات ، احکامات و تعلیمات کے فروغ اور انہی کے
پرچار کو اپنی اوّلین ترجیح بنا کر اخوّۃِ اسلامی کے بجائے مذہبی منافرت،
معاشرتی انتشار و افتراق، مذہبی تعصبات، فرقہ پرستانہ فسادات، اپنے فرقے کے
نظریات و تصوّرات کےغلبے کی جدّ وجہد کے لئے مذہبی دہشت گردی کی تعلیم و
تربیت میں مست رہے، مسلم امراء نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے اپنے مال
و اسباب میں اضافہ کرنے کی جزّو جہد کو ہی اپنا مقصدِ حیات جانا، حکمرانوں
نے حرام و حلال کی پرواہ کئے بغیر مال بنانے، قومی خزانے کو مالِ غنیمت
سمجھ کر لوٹ مار مچانے کو ہی قومی خدمت جانا اور اپنے اپنے فرائض منصبی سے
مجرمانہ غفلت کے مرتکب، مفاد پرست، خود غرض، عاقبت نا اندیش لٹیروں اور
رہزن عناصر کو کو اپنا اپنا رہبر و راہنماء اور بڑے لوگ مانا انہی کی باتوں،
تعلیمات اور اقتداء کو ہم سن نے بھی صحیح اور درست جانا، اسی روش کے لازمی
و منطقی نتیجے میں تو آخر کار ایسے ہی وقت کو ہم پر ضروری تھا آنا، چاہئے
کہ کم از کم اب تو ہم ہوش کے ساتھ میدانِ عمل میں آئیں، ان خود مجرم اور
مجرموں کے سرپرست عناصر، رہزنوں اور لٹیروں کو مار بھگائیں ۔ فرقوں ،
جماعتوں، مسلکوں کی وفاداریوں پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم کی
اطاعت و اتباع کو اپنی ترجیح بنائیں۔ قرآن اور رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ
وسلّم کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ
الحسنہ کی پیروی میں ایک امّۃ بن جائیں، وظنِ عزیز میں عدل و انصاف ، ترقی
و خوشحالی، ان و استحکام، مساوات اور اخوّۃِ اسلامی کو بہرحال یقینی بنائیں،
طاقت وروں کے ظلم و ستم سے مظلوموں کی جان چھڑائیں، نا انصافیوں اور حق
تلفیوں کے آگے ڈھال بن جائیں، امدادِ باہمی اور بقائے باہمی کا اصول
اپنائیں ، امن و محبّت واپس لائیں۔
واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں، اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود ہی کاٹنی
پڑے گی، ہم میں سے کوئی بھی بری الذِّمہ نہیں، کیونکہ اصل مجرموں، ان
کےسرپرست بااثر حکومتی ، سرکاری یا دیگر عناصر ، مجرمانہ غفلت کے مرتکب
پولیس و سول حکام کے ساتھ پورا معاشرہ بھی اس واقعہ قصور کا قصور وار ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی فکر لیں ورنہ ایسے مظالم برھتے جائیں
گے۔
|
|