ٹام اینڈ جیری کارٹون اور ان جیسے دوسرے کارٹون
تخریبی پروگرام ھیں جو ھماری نسلوں کو ھر وقت کی بےمقصد کی لڑائی کی تربیت
دے رھے ھیں اور درحقیقت اسطرح ان کی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں کو ختم
کرنے کی کوشش کی جا رھی ھے۔ اس معاملے میں ھم سے اچھے جاپانی نکلے جب انھون
نے دیکھا کہ ٹام اینڈ جیری جیسے کارٹوںوں کے ذریعے نسلوں کو خراب کرنے کا
سامان کر دیا گیا ھے تو انھوں نے اپنی نسلوں کے تحفظ کیلئے ڈورے مون کارٹون
بنا ڈالے۔ ڈورے مون کارٹون بچوں کو لڑائی جھگڑا سکھانے کی بجائے امن و
سلامتی، بڑوں کے احترام اور تعمیری سرگرمیوں کا ذھن دیتے ھیں اور ان کی
تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کرنے کی بجائے چمکانے کا کام کرتے ھیں۔
جبکہ ٹام اینڈ جیری اور ان جیسے دوسرے کارٹون بچوں کو لڑائی جھگڑے کی طرف
راغب کرتے ھیں اور ایسی سوچوں کا عادی بناتے ھیں کہ بچہ اگر پڑھائی کرے بھی
تو اس میں کسی قسم کی قابلیت پیدا نہ ھو اور وہ تمام زندگی ھر کسی کے ساتھ
بے مقصد لڑائی لڑتا رھے۔ بھولے ذھنوں کی تباھی کیلئے یہ بنیادیں کافی ھیں۔
جیسی بنیاد ویسی عمارت ھو گی۔ مثالیں بہت ھیں ،لیکن چند مثالیں پیش خدمت
ھیں۔
ایک اعلی تعلیم یافتہ بھائی کا اپنی جوان بہن پر ھاتھ اٹھانا معمول ھے۔ ماں
کو گالیاں دیتا ھے اور امید یہی ھے کہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی بہن والا سلوک
ھی کرے گا۔
ایک گھر میں کارٹون زدہ بچے اعلی تعلیم تو حاصل کر گئے لیکن بیٹوں کے
بیویوں کے ساتھ جھگڑے معمول ھیں۔ بیویوں کے علاوہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ
عیاشی معمول ھے۔ دفتر کے ملازم بیٹوں کے یعنی اپنے صاحبوں کے خوف سے سہمے
رھتے ھیں اور پیٹھ پیچھے دل کھول کر برا کہتے ھیں۔ ان کے والدین ان کے سلوک
سے انتہائی تنگ اور لوگوں سے ان کے لئے دعائیں کرواتے پھرتے ھیں۔
ایک اعلی تعلیم یافتہ بیٹی کو بھی طلاق ھو گئی،خاوند کا کہنا تھا کہ اسے
بولنے کی تمیز ھی ںہیں ھے۔
ایک کھاتے پیتے گھر کا اکلوتا چشم و چراغ سارا دن کمرے میں بیٹھا ایکشن
فلمیں دیکھتا اور گیمیں کھیلتا رھتا ھے۔ بات بات پر ماں باپ بیوی کے ساتھ
جھگڑا معمول ھے۔ ماں باپ اپنے بیٹے کی ھر جگہ برائیاں کر کر کے تھک چکے ھیں
لیکن جو بویا تھا وہ کاٹنا تو پڑے گا۔ شادی ھو گئی،بچے ھو گئے لیکن معمولات
میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔
ایک بچے نے اپنے سے کچھ سال چھوٹے بھائی کی زندگی عذاب بنائی ھوئی ھے۔ اسے
بے مقصد مارتا رھتا ھے اور اپنے ماں باپ کو گالی دینا اس کا معمول ھے۔
تعلیم موجود ھے لیکن تربیت نہیں ھو سکی۔
جاری ھے،اگلی قسط پڑھیں۔ |