14 اگست 2015ء کو 68 واں یوم آزادی روایتی جوش وجذبہ سے
منایا گیا ۔ اپنی آزادی کی یاد میں جشن منانا زندہ قوموں کا حق ہے ،
مناناچاہیے ۔ مگر خود احتسابی کے ساتھ ۔ یہ حساب رکھنا بھی ضروری ہے کہ
ہماری منزل کہاں ہے اور ہم جاکہاں رہے ہیں ؟۔آیا جن مقاصد کے حصول کے لیے
یہ قطعۂ زمین حاصل کیا گیاتھاوہ پورے ہوئے کہ نہیں؟۔ کہیں ہم شہداء کے خون
سے غداری تو نہیں کررہے ؟ ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’ تم اپنا
محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے ‘‘ ۔(ترمذی)
اگر ہم اپنا محاسبہ کرسکیں تو بحیثیت قوم یہ ہمارے زندہ ہونے کی دلیل ہوگی
ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ ہم فکر وعمل کے اعتبار سے مُردہ ہیں اور مردہ قوموں
کو محاسبہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان سے حساب لیا جاتا ہے ۔ لہٰذا محاسبہ
ضروری ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی تاریخ کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جہاں سے ہم
چلے تھے اور اپنی منزل کا تعین کیا تھا ۔
بحیثیت مسلم ہمارے اوپر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کی بناء پر اُمت
مسلمہ کو خیر الاُمت کہا گیا ۔ جب تک مسلمانوں نے اس عظیم مقصد کو اپنا نصب
العین بنائے رکھا ، اﷲ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں غلبہ و حکمرانی عطا کی ۔یہاں
تک کہ برصغیر جو کہ کفر وشرک ، بُت پرستی او ر طاغوت کا گڑھ تھا، محمد بن
قاسم ، سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری نے ضربِ توحید سے طاغوت کا
طلسم توڑا اور مظلوم و استحصال زدہ انسانیت کو طاغوت کے نرغے سے نکال کر
ایک اﷲ کی راہ دکھائی ۔ نتیجہ میں اسی خطہ میں جہاں آج بھارت کے دم سے
مسلمانوں کا جینا حرام ہوچکا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک
ہزار سال سے بھی زائد عرصہ تک بلاشرکت غیرے بالادستی و حکمرانی عطا کی۔لیکن
جب اپنے بنیادی نصب العین کو بھلا کر ہمارے حکمران محض کرسی و اقتدار کے
نشہ میں اندھے ہوگئے اور اقتدار کی خاطر غیروں کو خوش کرنے کے لیے دین کا
اصل چہرہ مسخ کرنا شروع کردیا تواﷲ کا کوڑا جس طرح یہود پر برسا تھا ۔
برصغیرکے مسلمانوں پر بھی برس کر رہا اوراگلے ایک سو سال تک ہنود و نصاریٰ
کی ذلت آمیز غلامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم شاہ اسمعیل شہیداور سید احمد
شہید جیسے لوگوں کی غلبہ دین کے لیے جدو جہد اور قربانیوں کے طفیل اﷲ نے
دوبارہ موقع دیا اور پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت
وجود میں آگئی۔ شکران نعمت کے طور پراگر اس دھرتی پر رب کا نظام قائم کیا
جاتا توعین ممکن تھا کہ اﷲ تعالیٰ برصغیر میں مسلمانوں کی بالادستی دوبارہ
قائم کردیتا مگر ہم نے انتہائی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اﷲ کے دین کی
بجائے طاغوتی نظام کو ترجیح دی اور انگریز کے قانون کو اپنا آئین بنایا ،اقامت
دین کی بجائے اقتدارکی رسہ کشی ہمارے حکمرانوں کا مطمع نظر ٹھہری ۔ نتیجہ
میں دوبارہ قانون قدرت حرکت میں آیا اور سب سے بڑی اسلامی مملکت دو ٹکڑے
ہوگئی ۔ وہ بنگال جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جو قیام پاکستان میں صف
اول کا کردار تھا ، پاکستان کے ہاتھ سے نکل کر پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت
کی جھولی جاگرا اور بھارت کو خطہ پر اجارہ داری کا دوبارہ موقع مل گیا ۔ آج
اسی بنگلہ دیش میں ایک طرف پاکستان کے حمایتیوں کو چن چن کر پھانسیاں دی
جارہی ہیں اور دوسری طرف بھارتی لیڈر پاکستان توڑنے پر ایوارڈ وصول کررہے
ہیں اوراس کے خلاف زہر بھی اُگل رہے ہیں ۔
اس عظیم سانحہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اﷲ کے
ہاں توبہ تائب ہوتے ہوئے ملک کے آئین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال کر
قرارداد مقاصد کو عملی شکل دیتے ۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے نظام مصطفی کے
نعرہ کومحض سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور مقصد پورا ہوجانے کے بعد
وعدے سے پھر گئے ۔ لیکن جن لوگوں نے نظام مصطفی کے لیے لاٹھیاں اور گولیاں
کھائیں تھیں اور جیلیں کاٹی تھیں وہ بے گناہ اور مخلص تھے ۔ ان کے طفیل اور
روس کے بے دین کمیونزم نظام کے خلاف جہاد کی برکت سے اﷲ نے پھر موقع دیا ،
پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا اور افغانستان جو ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف
بھارت کے ہاتھوں استعمال ہورہا تھا اب پاکستان کا دائیاں بازو بن گیا اور
پاکستان کو خطہ میں دوبارہ قدرے مستحکم پوزیشن حاصل ہوگئی ۔طاغوتی طاقتوں
کو ہماری یہ مستحکم پورزیشن کہاں منظور تھی لیکن ہمارے میر جعفروں اور میر
صادقوں کو بھی راس نہ آئی۔ کہاں قیام پاکستان کا مقصد پاکستان کو اسلام کا
قلعہ بنانا تھا اور کہاں پرویز مشرف نے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے پاکستان
کو اسلام کے خلاف طاغوتی طاقتوں کا قلعہ بنا ڈالا ، ایکطرف دھرتی پہ قائم
اﷲ کے دین کا واحد نظام افغانستان سے ملیا میٹ کرنے کے لیے اتحادیوں سے بھی
دو قدم آگے نکل گیا تو دوسری طرف اپنے ملک میں ’’ روشن خیال پاکستان ‘‘ کے
نام پر اسلامی اقدار کے درپے ہوا ۔ اﷲ سے سرکشی اور بغاوت پر مبنی یہ اس
قدر سنگین جرم تھا جس کی سز ا پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے اور نہ جانے
مزید کب تک بھگتے گی؟ ، یہ اﷲ ہی جانتا ہے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ آزادی کا
جشن منانے کے ساتھ ساتھ اﷲ سے استغفار بھی کریں کہ شاید وہ ہمیں کسی بڑے
عذاب سے بچا لے ۔
ہمارے بنیادی نصب العین کا تقاضا تھا کہ ہم بحیثیت مسلم خطہ میں متحد و
منظم ہوکر دجالی و طاغوتی قوتوں کا مقابلہ اس طور پر کرتے کہ اﷲ کا نظام
خطہ میں غالب ہوکر رہتا اور اﷲ کے دین کی سربلندی و بالادستی قائم ہوجاتی ۔
لیکن اس کے برعکس ہماری ان نا دانیوں سے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچا اسی
قدر خطہ میں طاغوتی جال مضبوط ہوتا چلا گیا ۔ پہلے تو بنگلہ دیش بھارت کی
مٹھی میں گیا تھا اب افغانستان بھی پاکستان کے خلاف بھارت کا اہم ترین
مورچہ بن چکا ہے ۔ کشمیر کے مسئلہ پر بھی شروع دن سے پسپائی کا رویہ اختیار
کیا گیا ۔پہلے تو فوج بھیجنے کے معاملے پر انگریز کمانڈر انچیف ڈگلس گریسی
نے قائداعظم کا حکم نہ مان کر کشمیر کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔
پھر جب کشمیری مجاہدین قبائلیوں کی مدد سے کشمیر کی مکمل آزادی کی طرف سے
تیزی سے بڑھ رہے تھے ، یہاں تک کہ بھارت بھاگ کر اقوام متحدہ کے پروں تلے
پناہ لینے پر مجبور ہوا ۔ قریب تھا کہ کشمیر مکمل طور پر آزاد ہوجاتا مگر
پاکستان کی جانب سے جنگ بندی قبول کرلی گئی حالانکہ اس وقت کے مسلمان فوجی
ماہرین جنگ بندی کے سخت خلاف تھے ۔بعد ازاں معائدہ تاشقند اور شملہ معائدہ
میں پاکستانی حکمرانون کی جانب سے مزید پسپائی اختیار کی گئی ۔ رہی سہی کسر
پرویز مشرف کے 4نکاتی فارمولے نے پوری کردی۔ جب کہ کشمیری آج بھی سبز ہلالی
پرچم لہرا کر پاکستان کے ساتھ شمولیت کا مطالبہ کررہے ہیں ، کرکٹ میچ ہویا
حریت کا میدان جنگ کشمیری آج بھی پاکستان کی حمایت میں اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔جبکہ اڑھائی لاکھ کشمیری شہدا ء کا خون آج بھی حساب
مانگ رہا ہے۔
ہم نے ہندو اجارہ داری سے آزادی اس لیے چاہی تھی تاکہ اس کی شرپسندیوں اور
دجالی ہتھکنڈوں سے نجات پاسکیں اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے سنہری اُصولوں
کے مطابق ڈھال کر اپنے معاشرے کو امن و سلامتی کا گہوارہ بناسکیں ۔ مگر
ہمارے حکمرانوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ہم آج اپنے ہی ملک میں ہندو شر
سے محفوظ نہیں رہے ۔ ایک طرف بم دھماکوں ، قتل وغارت گری اور خون ریزی میں
بھارت کا مکروہ ہاتھ کھل کر سامنے آگیا تو دوسری طرف کشمیر آزاد نہ ہونے کی
وجہ سے اہم دریاؤں پر بھارت کا قبضہ و کنٹرول ہے ۔ جب چاہے پانی روک کر
پاکستان کی معیشت کو مفلوج بنا دے اور جب چاہیے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر
سیلاب سے تباہی مچادے ۔
اﷲ کی طرف سے ہم پر عائد عظیم ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ ہم خطہ میں طاغوت
کو شکست فاش دیکر اﷲ کے دین کی سربلندی قائم کرتے مگر اس کے برعکس ہمارے
حکمران ہندوپاک معاشرے اور تہذیب میں کوئی فرق نہیں سمجھتے ۔ انڈین گانوں ،
فلموں اور ڈراموں پر کوئی پابندی نہیں ۔ اونچی آواز میں فحش اور بے حیائی
پر منبی گانے سُنے جاسکتے ہیں مگر دین ِ اسلام کی تبلیغ منع ہے ، سینما
ہاوس جگہ جگہ کھلے ہیں مگر مذہبی اجتماعات پر پابندی ہے۔شادی بیا ہ سے لیکر
عام رسوم و رواج تک ہندو کلچر اور تہذیب کا رنگ چھایا ہوا ہے ۔ فحاشی ،
عریانی اور بے حیائی کے ثمرات جہاں بھارت خود بھگت رہا ہے وہیں پر یہ بے
ہودگی پاکستان میں انڈیل کر پاکستانی قوم کوکردار و عمل کے لحاظ مفلوج کیا
جارہا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ سود حرام ہے اور اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کے
خلا کھلا اعلان جنگ ہے ۔ یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ’’ سود کے
گناہ کے ستر حصے ہیں اور سب سے ہلکا گناہ اس کے مساوی ہے کہ کوئی شخص اپنی
ماں کے ساتھ زنا کرے‘‘ ۔علامہ اقبال نے سود کو اُم الحبائث قرار دیا ۔
قائداعظم نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اب آپ
کو اسلام کا نظام معیشت تیار کرنا ہے ، مغربی نظام معیشت نے انسان کو کوئی
خیر اور بھلائی عطا نہیں کی ۔لیکن اس کے باوجود ہماری معیشت کا دارومدار
سود پر ہے ۔ ہم نے روس کے بے دین نظام کے خلاف جہاد کیا ۔ لیکن مغربی تہذیب
اور مغرب ساختہ سیکولر نظام کو اپنے اوپر خود مسلط کر رکھا ہے ۔
اﷲ کی طرف سے عائد عظیم ذمہ داری اور اپنے بنیادی نصب العین سے دانستہ
انحراف اور سرکشی و بغاوت کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری معیشت ورلڈبنک کی محتاج
ہے ، ہمارا نظام تعلیم مغربی پالیسی سازوں کے نظرکرم پر ہے ، ہماری سیاست
اور حکومت امریکہ کی غلامی پر منحصر ہے ۔ ہمارے اعداوشمار کے جادوگر بتاتے
ہیں کہ معیشت روز افزوں ترقی کررہی ہے مگر دوسری طرف غریب کا چولہا بُجھ
رہا ہے ، غربت ، افلاس اور بھوک پیاس سے تنگ مائیں اپنے لخت جگروں کا گلا
گھونٹ رہی ہیں ۔ آئے روزاس وجہ سے خودکشیوں اور خود سوزیوں کے واقعات بڑھ
رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ میں کروڑوں روپے ملک سے باہر جارہے ہیں مگر تھر میں
بچے بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر اور سسک سسک کر مررہے ہیں ۔ جاگیر دار ،
زمیندار اور سرمایہ دار مزدور و کسان کے خون پسینے کی کمائی پر عیش کررہا
ہے ، اُس کے اپنے بچے انگلینڈ اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم
حاصل کرتے ہیں جبکہ مزدور وکسان کے بچے کو نہ دوا ملتی ہے اور نہ تعلیم کی
سہولت میسر ہے ۔
غلامی در غلامی ، محرومیاں ،بے یقینی ، افراتفری ، انتشار ، نفرتیں ،
کدورتیں ، تعصبات اور بغاوتیں اور ان حالات میں جشن آزادی ۔ ضروری ہے کہ
جشن کی بجائے ہم اپنے حکمرانوں کی عقلوں پر ماتم کریں اور اپنے رب کے حضور
توبہ تائب ہوکر سچے دل سے معافی مانگیں اور از سرنو اپنی سمت کا تعین کرتے
ہوئے حقیقی نصب العین کو زندگیوں کا مقصد بنالیں ۔ اگر ہمیں حقیقی آزادی
اور بقا و سلامتی مطلوب ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم ملک میں
اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم کریں ۔ |