بندئے کا اپنے رب سے تعلق بہار کی طرح کا ہوتا ہے پھول جب
تک بہار کے مزئے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے ہی خزاں وارد ہوتی
ہے پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب سے امید باندھے رکھتا
ہے تب تک اُس کے من کی دنیا آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ اپنے رب سے ناامید
ہوتا ہے اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس لمحے بھی بندئے کے دل
میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا یہ کام نہیں ہونا تو گویا وہ اپنے رب
کی ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے یوں پھر امید کی
کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُسکے یقین کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ
پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے بلکل
اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو امید بَر آتی ہے اور نہ
وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔عبادت گاہوں میں خاص اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا صرف
وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں دفتر میں کیا ایمان کا کام نہیں ہوتا
ہے یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا دم بھر بھر کے عبادت کی رسم ادا
ہوتی ہے علم و عمل سے رشتہ محال ہے زر کی ہوس نے اندھا کیا ہوا۔پاکستان میں
مروجہ خانقاہی نظام ملوکیت میں ڈھل چکا ہے؟ آستانے روپے پیسے کی ریل پیل
میں اور مرید بھوک کے مارئے ہوئے غلام ابنِ غلام ایک رب پر ایمان کی بجائے
ناسمجھی میں کم علمی کی وجہ مرید بھی استحصال شکار ہیں اور اُن کے نذرانے
ایسے جگہ جاتے ہیں کہ کاروباری انداز میں چلائی جانے والی خانقاہیں پرائیوٹ
لمیٹیڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرئے کے ساتھ
نام نہاد پیر بھی اُس دائرئے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں پیسہ ہی ایمان، لوٹ
مار استحصال کے لیے نام نہاد پیر بھی روایتی سیاست میں حصہ لے کر اپنے
کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں خانقاہی نظام کی تباہی کی وجہ ہی یہ ہے کہ
خود کو سوادِاعظم کہنے والوں کی آواز کہیں بھی نہیں۔ اگر کسی پیر یا مذہبی
رہنماء نے رویتی سیاست کا ہی حصہ بننا ہے تو پھر سات دہائیوں سے جو چلا
آرہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔آستانے محبت و الفت کے گہوارئے ہوا کرتے تھے
لوگ بلاتخصیص اپنے دکھ درد کے حل کے لیے خانقاہ میں بیٹھے اﷲ کے نیک بندئے
سے رہنمائی لیتے تھے۔ اِن خانقاہوں میں ہر آنے جانے والے کو روٹی ملتی اور
روحانیت کی منازل بھی طے ہوتیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ داتا علی ہجویریؒ کو لاہور
میں دفن ہوئے ایک ہزارسال ہونے کو ہے ۔لیکن اﷲ پاک کا فضل ہر ساعت اُن کے
دربار پہ جاری و ساری ہے اور اﷲ پاک کی خاص رحمتیں نازل ہو تی ہیں۔ لیکن وہ
خانقاہیں جہاں باقاعدہ پیری مریدی کا نظام چل رہا ہے وہاں بالکل صورتحال
عجیب ہو چکی ہے۔ دین سے محبت رواج و روایات کی نذر ہوچکی ہے۔ عظیم صوفی
بزرگوں کی درگاہوں پہ ا یسی ایسی خرافات ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اﷲ کا
نیک بندہ جہان دفن ہوتا ہے وہاں اﷲ پاک کی رحمتوں کا نزول بہت زیاد ہوتا ہے
لیکن ہندوانہ رسم رواج عجیب و غریب انداز میں جاری ہے۔دین کی روح کو
خانقاہی نظام نے ہی ترویج دی اور برصغیر میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا
اور پاکستان کو تو اولیا کا ہی فیضان کہا جاتا ہے لیکن اِن اولیاء اکرام کی
خانقاہوں کو جس انداز میں کاروبار بنا دیا گیا ہے یہ سلسلہ بہت تکلیف دہ ہے
جن درگاہوں سے رسمِ شبیری ادا ہونا تھی وہاں گدیوں کی لڑائیاں جاری ہیں۔اِن
حالات میں کہ اُمت کو جہاں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور پوری امت مسلمہ
ہمہ گیر زوال و انحطاط کا شکار ہے اِن خانقاہوں سے تو علم وہدائت کے سرچشمے
پھوٹنے چاہیےں کیلن عملی طور پر ایسا نہیں پارہا۔ جس کی وجہ سے پیٹرو اسلام
کی حامل جماعتیں عوام الناس میں فلاحی کاموں کے ذریعے یا دیگر انداز میں
نفوس پزیری حاصل کر گئی ہیں۔ گویا پاکستان میں نام نہاد طالبان کی جانب سے
دہشت گردی بھی درحقیقت ہمارئے خانقاہی نظام کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہی
ہے۔ رُشد و ہدایت کا منبع و مرکز جب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو پھر
لازمی طور پر خلاء پیدا ہوگا اور اِس خلاء نے ہی ہمارئے معاشرئے کو نفرتوں
کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ فرقہ واریت، مذہب ، زبان، علاقہ کی بنیاد پر
گردنیں کا ٹنے کا سلسلہ چلا نکلا ۔ |