بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماءِ سوء کا بھیانک کردار اور علماءِاسلام (علماءِ حق) کے فرائضِ منصبی
میں نے ایک شخص کو اپنا حاکم مانا ہے، اس کی اطاعت و اتباع ،تابعداری و
فرمانبرداری اور کامل پیروی کا حلف اٹھایا ہےاور اس کے ساتھ میں نےعہد کیا
ہے کہ اس کی نافرمانی نہیں کرونگا ، میں مانتا ہوں اور جانتا ہوں وہی میرا
سچا خیرخواہ، ہمدرد اور سب سے بڑھ کر محسن ہے، میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب
اسی کاعنایت کیا ہوا ہے، میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی بدولت ہوں۔
میرے اس مہربان و عظیم محسن شخص نے اپنے سارے احکامات مجھے بتا، سکھا اور
سمجھا دیئے ہیں اور تحریری طور پر یاداشت کے لئے کتابی صورت میں بھی مجھے
دے رکھے ہیں ، میرے اس عظیم ترین محسن شخص نے مجھے پچیس سال کے عرصے کےلئے
اپنی ایک جماعت کا امیر و امین بھی مقرر کیا ہے جس میں شامل تمام تر افراد
نے بھی میرے عظیم محسن و مہربان شخص کی کامل اطاعت و اتباع کا میری طرح ہی
حلف اٹھایا ہوا ہے اور وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے ۔ مجھے امیر اور اپنا
معتمد و امین مقرر کرنے والے میرے محسن و مربّی نے سختی کے ساتھ تاکید و
تلقین اور تنبیہ کی ہے کہ اس جماعت کو بہرحال متحد رکھنا ، کسی بھی قیمت پر
اس میں کوئی پھوٹ نہ پڑنے دینا، اس جماعت کے اندر کسی بھی بنیاد پر کوئی
گروہ مت بننے دینا اور نہ ہی تم خود اس جماعت کے اندر کوئی گروہ بنانا، سب
کو فقط میرے احکامات پر ہی چلانا ، اپنی طرف سے کچھ بھی کمی و بیشی یا ردّ
و بدل ہر گز مت کرنا اور اپنی طرف سے اس میں کچھ بھی شامل مت کرنا۔ یہ سب
آپس میں ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح متحد و منظم ہیں، ایک دوسرے کے ہر
دکھ درد کے ساجھی ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا ان میں کسی بھی
بنیاد پر باہمی منافرت پیدا نہ ہونے دینا۔ میرے محسن و مربّی نے کہا کہ جب
تک تم ان سب کو میرے احکامات و تعلیمات اور ہدایات پر چلاؤ گے ان میں کسی
بھی قسم کا تفرقہ نہیں ہو گا اور اگر تم نے میرے احکام و تعلیم اور ہدایات
سے ہٹ کر ان کو اپنے ذاتی افکار و نظریات پر چلانے کی کوشش کی تو اس متحد و
منظم جماعت میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔
مجھے یہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے مجھ کو کون کون سے کام بہرحال
سرانجام دینے اور کس کن کاموں سے ہر حال میں باز رہنے کی تاکید کی ہے۔ اس
نے مجھے یہ بھی بتا دیا ہے کہ فلاں آدمی تمہارا دشمن ہے اس کو پتا ہے کہ تم
نے اپنا عہد نبھایا، اپنے حلف کی پاسداری کی تو تمہیں بہت سارا انعام و
اکرام ملے گا ، وہ نہیں چاہتا کہ تم ان انعامات کو حاصل کر پاؤ، اسلئے وہ
تمہیں میری باتیں ماننے سے روکے گا ، تم اس کی باتوں میں مت آنا۔
میرے محسن و مہربان نے کہا کہ پچیس سال تک تمھاری اور اس جماعت میں شامل ہر
ایک فرد کی تمام تر ضروریات کی کفالت ہوتی رہے گی، ہر سہولت اور تمام
مراعات سب کو بدستور حاصل رہیں گی اور اس عرصہ میں کوئی مداخلت کی جائے گی
اور نہ کوئی محاسبہ کیا جائے گا۔ البتہ ہر طرف سی ۔سی۔ ٹی ۔وی کیمرے نصب کر
دیئے گئے ہیں جن میں آپ کا ہر قول و عمل ریکارڈ ہوتا رہے گا اور کسی لمحے
بھی تم ان کیمروں کی آنکھ اور ریکارڈنگ سے بچ نہیں پاؤ گے۔اس عرصے کے گزرنے
کے بعد پھر تمہاری کارکردگی کاجائزہ لیا جائے گا کہ تم نے اپنے فرائضِ
منصبی ہدایات کے عین مطابق سرانجام دیئے ہیں یا کہ نہیں۔ اگر پایا گیا کہ
تم نے میرے بجائے اس شخص کی باتوں پر عمل کیا ہے جس کی بات ماننے سے تم کو
روکا گیا تھا تو تمہیں تنگ و تاریک کنویں میں پھیکوما دیا جائے گا اور اگر
پایا گیا کہ تم نے دی گئی ہدایات پر پوری طرح سے عمل درآمد کیا ہے تو تمہیں
بے شمار انعامات و اعزازات سے نوازا جائے گا۔
اب مجھے کیا کرنا چاہئے ؟؟؟
جس دشمن سے خبردار کیا گیا تھا ، کیا مجھے اس کی باتوں میں آکر اپنے عظیم
مشفق و مہربان ، محسن و مربّی شخص کے ساتھ بے وفائی و غدّاری اور اس کی
نافرمانی کرنی چاہئے؟؟؟
کیا مجھے اپنے عظیم مشفق و مہربان ، محسن و مربّی شخص کی ہدایات و احکامات
اور تعلیمات کو بائے طاق رکھ کر ان کر صریحاً ً برعکس اپنے ذاتی افکار و
نظریات پر چلاکر،اس کی متحد و منظم جماعۃ میں تفرقہ ڈال کر ، اسےمتعدد
متحارب و متصادم گروہوں میں تقسیم کرکے ان گروہوں کو باہم دشمن بنا دینا
چاہئے؟؟؟
یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہی ہو گا
تو پھربھی اگرمیں نے ایسا ہی کیا ہو جیسا کہ مجھے کسی بھی صورت میں ہر گز
نہیں کرنا چاہئے تھا اور ساتھ ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کروں کہ میں نے اپنے
فرائضِ منصبی اپنے عظیم مشفق و مہربان ، محسن و مربّی شخص کی ہدایات و
احکامات اور تعلیمات کے عین مطابق سر انجام دئے ہیں تو کیا آپ سارے اصل
حقائق کو جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے ، مشاہدہ کرنے کے باوجودبھی میرے اس
مضحکہ خیز اور بالکل جھوٹے دعویٰ کو درست، صحیح اور سچا مان لیں گے؟؟؟
اسی مفروضے کی روشنی میں (بلا تمثیل) ہمارے آج کل کے فرقہ پرست (ملا،
مولویوں) علماءِ سوء کے گھناؤنے، مکروہ، قابلِ نفرت، بھیانک کردار کا جائزہ
لیجیئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیئے کہ کیا اسلام میں فرقوں کے وجود
کا کوئی جواز بنتا ہے؟؟؟
عاقبت نا اندیش، خود غرض، مفاد پرست، نام نہاد مذہبی عناصر اصل دین ِ اسلام
(اللہ تعالٰی کےکلام قرآن مجید، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی
سنّۃ و اسوۃ الحسنہ) کی تعلیمات و احکامات پہنچانے اور ان کی کی اطاعت و
اتباع کی دعوۃ دینے کے بجائے، ان کے صریحاً برعکس ، اپنے اپنے فرقوں کے
برانڈیڈ، من پسند و من گھڑت، خود ساختہ، بناوٹی و بناسپتی، گمراہ کن انسانی
و بشری افکار و نظریات کو عملاً قرآن و سنّۃ پر اوّلین ترجیح اور واضح
فوقیت دیتے ہیں اور اپنے نام نہاد اکابرین کے نام پر محض اپنے اپنے فرقوں
کے برانڈیڈ، من پسند و من گھڑت، خود ساختہ، بناوٹی و بناسپتی، گمراہ کن
انسانی و بشری افکار و نظریات کو ہی لوگوں کے سامنے اسلام کے طور پر پیش
کرتے ہیں اور ان ہی کی پیروی کی تلقین و تاکید اور تبلیغ کرنے میں لگے رہتے
ہیں ۔ انہوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر پیش کرنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے
جس کے نتیجے میں اسلام ناحق بدنام ہو رہا ہے اور امّۃِ رسول ﷺ کو فرقہ فرقہ
کر کے ہر فرقے کو دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا گیا ہے۔ اخوُۃ، اسلامی اور
وحدت، امّۃِ مسلمہ کا مکمّل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اللہ کے واسطے ذرا
سوچیئے!
فرقوں سے اپنی وفاداریوں اور ہر طرح کی وابستگیوں کو ختم کر کے رحمۃ
للعالین ﷺ کے دامنِ رحمت سے لپٹ جائیں ، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ
پرمتفق و متحد ہو جائیں اور اسی جماعۃ میں واپس لوٹ آئیں جو رسول اللہ ﷺ کی
جماعت ہے بلا شک و شبہ باقی تمام تر فرقوں کو رسول اللہ ﷺ نے جہنّمی بتایا
ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ
كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ
اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (سورۃ فاطر، آیۃ-28) ترجمہ: اور انسانوں
جانورں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں اللہ سے تو اس کے وہی
بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا) بلاشبہ اللہ نہایت ہی
زبردست بڑا ہی بخشنے والا ہے
جمادات کی طرح حیوانات کی بھی مختلف قسمیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف و
صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی
مختلف رنگ ہیں " ۔ سو یہ بھی اس قادر مطلق کی بےپایاں قدرت و عظمت کی ایک
بڑی نشانی ہے کہ اتنے لاتعداد اَفراد میں سے کوئی بھی دو فرد آپس میں ایک
جیسے نہیں ہیں - فَسُبْحَانَہ مَا اَعْظَمَ شَانُہ وَمَا اَجَلَّ
بُرْہَانُہ - بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جمادات کی طرح
انسانوں، جانداروں اور چوپایوں میں بھی قدرت کی ایسی ہی گوناگونی اور
بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان کی یہ رنگا رنگی صرف ظاہر تک محدود نہیں
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ بوقلمونی ان کی صورت سیرت، عادت و صفات،
اَطوار و خصوصیات اور مزاج ۔۔ تک میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ فرق و اختلاف ان
تمام اعتبارات سے ظاہر اور واضح ہے۔ سو جس طرح ہر جانور سے دودھ کی توقع
نہیں کی جاسکتی اسی طرح ہر انسان سے خوف و خشیتِ خداوندی کی توقع نہیں کی
جاسکتی۔ بہرکیف حضرت خالق - جل مجدہ - کی مخلوق کی یہ گوناگونی اور
بوقلمونی اپنے اندر عظیم الشان درسہائے عبرت وبصیرت رکھتی ہے ان لوگوں کے
لیے جو صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں - وباللہ التوفیق لما یحب
ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - بہرکیف مخلوق کی یہ
بوقلمونی خالق کی عظمت کی ایک کھلی دلیل ہے - سبحانہ وتعالیٰ -
علم حقیقی کا ثمرئہ و نتیجہ خوف وخشیتِ خداوندی سے سرفرازی : سو اس ارشاد
سے واضح فرما دیا گیا کہ علم حقیقی کا ثمرہ و نتیجہ خوف و خشیتِ خداوندی سے
سرفرازی ہے ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی
ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں " ۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالٰی سے ڈرتے
نہیں وہ عالم نہیں اگرچہ وہ کتنی ہی کچھ ڈگریاں اور کیسی ہی کچھ سندیں اپنے
پاس کیوں نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہاں " اِنَّما " کا کلمہ ٔحصر اختیار فرمایا
گیا ہے۔ اور " العلمائ " میں الف لام جو کہ مفیدِ عموم ہے۔ سو اس سے واضح
ہو گیا کہ جو اللہ سے ڈرتا نہیں وہ عالم نہیں - " اَفَادَ انَّہ مَنْ لم
یخش اللہ لم یکن عالما " - (جامع البیان : ج 2 ص 190) ۔ اسی لئے سلف سے
منقول ہے کہ علم کثرت کلام کا نام نہیں بلکہ وہ حقیقت میں عبارت ہے کثرت
خشیت سے۔ اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ انسان کے دل و دماغ کی دنیا اس وحدہ
لاشریک کی عظمتِ شان اور جلالتِ قدرکے تصور و احساس سے معمور و منور ہوں ۔
ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے - والحمد للہ
رب العالمین - سو علماء سے مراد وہی لوگ ہیں جو حق اور حقیقت کے علم سے
آگہی رکھتے ہوں کیونکہ جو لوگ مادہ اور مادیت ہی کے غلام اور بطن وفرج کی
خواہشات ہی کے پجاری بن جاتے ہیں ان کی نگاہیں مادیت اور مادی ظواہر و
مظاہر ہی میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اس سے آگے نہ ان کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ
ہی وہ اس کو دیکھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی الگ
ہے۔ لیکن دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس سے آگے سوچتے ہیں ۔ ان کا
معاملہ بطن و فرج کے تقاضوں کے ان غلاموں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ مادی ظواہرو
مظاہر میں الجھنے اور اٹکنے کی بجائے ان اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے
ہیں جو ان کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی حقیقت بیں اور حقیقت
رسا نگاہیں انہی مادی ظواہر و مظاہر کے ذریعے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتی
ہیں ۔ سو ایسے ہی لوگ اصل میں انسانیت کے گلِ سرِسبد ہوتے ہیں ۔ اور یہی
علماء کے لقب کے اصل مستحق ہوتے ہیں ۔ انہی کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس
کی خشیت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور انہی کو اللہ کے رسولوں کی دعوت اپیل
کرتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز و غفور کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادواتِ
تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی
درگزر فرمانے والا ہے " ۔ سو عزیز و زبردست ہونے کے اعتبار سے وہ جس کو جب
چاہے اور جیسے چاہے گرفتار کر سکتا ہے۔ مگر غفور ہونے کی بنا پر وہ بےمثال
عفو و درگزر سے کام لیتا ہے - فَلَہُ الْحَمْدُ وَلَہ الشُّکْرُ- سو اس میں
ایک طرف تو پیغمبر کیلئے تسلی کا سامان ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ
وسلم) کی دعوت کو رد کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے بچ نہیں
سکیں گے۔ اور دوسری طرف اس میں ان منکرین و معاندین کیلئے بخشش کی نوید بھی
ہے کہ اگر وہ اپنی روش تبدیل کرکے صدق دل سے حق کو اپنا لیں تو اللہ کی
رحمت و عنایت انکو اب بھی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے کہ اس کی رحمت و بخشش
اور اس کے کرم و عنایت کی کوئی حد نہیں - سبحانہ و تعالیٰ - سو اللہ پاک -
سبحانہ وتعالیٰ - کی صفات کریمہ بڑی انقلاب آفریں صفات ہیں ۔ |