قربان جائیں صحابہ کرام کے عشق رسول پر کہ وہ جنت کے نہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے طالب ہیں
(پیرآف اوگالی شریف, khushab)
قربان جائیں صحابہ کرام کے عشق
رسول پر کہ وہ جنت کے نہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے طالب
ہیں
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
وَ مَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ
اللّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء
وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا ذَلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّہِ
وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیمًا۔ النسآء 4
ترجمہ۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے
تو یہی لوگ (قیامت کے دن) ان (مقرب ہستیوں) کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے (خصوصی)
انعام کیا ہے جو کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صدیقین اور شہداء اور
صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ یہ (انکی رفاقت) اللہ کی طرف سے فضل
ہے اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔
ربط و خلاصہ
سابقہ آیات میں (بشر نامی) ایک منافق کا ذکر تھا جس نے رسول اللہ صلّی اللہ
علیہ وسلم کے کیے گئے فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے اپنا مقدمہ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے پاس پیش کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے مدعی یہودی اور مدعیٰ علیہ
منافق (بظاہرمسلمان) سے ان کے بیانات اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے
کیے ہوئے فیصلہ کا احوال سنا اور گھر تشریف لے گئے جہاں سے تلوار اٹھا لائے
اور آتے ہی منافق کا کام تمام کردیا۔ اس پر منافق کے رشتہ داروں نے قتل
ناحق کا شور بلند کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلّی اللہ علیہ
وسلم کے فیصلے کو نہ ماننے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ”فلا و ربک لا
یؤمنون حتیٰ یحکموک فی ما شجر بینہم۔“ ترجمہ۔ پس آپ کے رب کی قسم یہ لوگ
مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف
میں آپ کو حاکم بنالیں۔ ساتھ ہی اللہ اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم
کے فرمان کے مطابق جان و وطن قربان کرنے والوں کے لیے خیر، استقامت، اجر
عظیم اور صراط مستقیم کا وعدہ فرمایا اور اس کے بعد ان دو آیات میں اللہ
تعالیٰ نے ایک عاشق رسول صحابی رضی اللہ عنہ کا (نام لیے بغیر) واقعہ بیان
فرمایا، لیکن ایک قاعدہ کلیہ کے انداز میں کہ جو لوگ دل و جان سے اللہ
تعالیٰ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام کو مانیں گے تو ان
کو جنت میں انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین، شہداء کرام اور اولیاء اللہ
کی رفاقت مرحمت ہوگی، بلاشبہ یہ حضرات بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔
شان نزول
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور
اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا یا
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں آپ کی محبت اپنی جان، بیوی اور
اولاد سے بھی زیادہ ہے، جب کبھی گھر میں بے چین ہوجاتا ہوں تو آپ کی خدمت
میں حاضر ہوکر زیارت کرلیتا ہوں تو سکون آجاتا ہے، اب مجھے فکر یہ دامن گیر
ہے کہ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے اور مجھے بھی موت آجائے گی تو مجھے
یقین ہے کہ آپ جنت کے اعلیٰ درجات میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ
ہوں گے اور میں نہ معلوم جنت میں پہنچوں گا یا نہیں۔ اگر جنت میں پہنچا بھی
تو میرا درجہ آپ سے بہت نیچے ہوگا اور میں وہاں آپ کی زیارت نہ کرسکوں گا
تو مجھے کیسے صبر آئے گا۔ (قربان جائیں صحابہ کرام کے عشق رسول پر کہ وہ
جنت کے نہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے طالب ہیں)۔ حضور
اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کلام سن کر کوئی جواب نہ فرمایا یہاں تک
کہ آیت مذکورہ و من یطع اللہ۔۔۔۔۔ الخ نازل ہوئی اور آپ نے اسی وقت انہیں
بشارت سنا دی کہ اطاعت کرنے والوں کو جنت میں بھی انبیاء، صدیقین، شہداء
اور صالحین کی رفاقت و ملاقات کا شرف حاصل ہوگا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں اس صحابی رضی
اللہ عنہ کا نام مذکور نہیں لیکن امام بغوی نے لکھا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ
صلّی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کے حق میں
نازل ہوئی جسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی اورآپ
صلّی اللہ علیہ وسلم سے جدا رہنے کی ان میں ہمت نہ تھی۔ ایک مرتبہ انہیں
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے پریشان حال دیکھ کر اس کی وجہ دریافت کی
تو انہوں نے مذکورہ بالا احوال (جو سیدہ کی روایت میں مذکور ہوا) عرض کیا۔
اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں کسی فرد یا علاقہ یا رنگ و نسل کی
تخصیص کیے بغیر عام اعلان فرمایا گیا کہ جو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب
صلّی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اسے جنت میں انبیاء کرام علیہم
السلام، صدیقین (نبیوں کے بعد سب سے مقرب ترین ہستیاں صدیقین ہیں)، شہداء
(جو راہ خدا میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں) اور صالحین (امت
محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے اولیاء اللہ اور علماء ربانین) رضی
اللہ عنہم کی رفاقت و زیارت حاصل ہوگی۔
خوش قسمت حبشی
امام طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے لکھا ہے کہ
ایک حبشی سیاہ فام حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور
ادب سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ شکل و صورت میں بھی ممتاز ہیں اور نبوت و
رسالت میں بھی، اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آؤں جس پر آپ ایمان لائے
اور اعمال بھی وہ کروں جو آپ کرتے ہیں تو کیا میں بھی جنت میں آپ کے ساتھ
ہوسکتا ہوں۔ اس کے جواب میں نبی رحمت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں
ضرور قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ جنت میں کالے رنگ
(سیاہ فام حبشی)، سفید رنگ حسین و جمیل ہوجائیں گے۔ (تفصیلی حدیث کے آخر
میں ہے)۔ اس حبشی نے حیرت سے سوال کیا یا رسول اللہ میری آنکھیں بھی ان
نعمتوں کو دیکھیں گی جن کو آپ کی مبارک آنکھیں دیکھیں گی؟ حضور صلّی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ضرور۔ یہ سن کر نو مسلم حبشی رضی اللہ عنہ نے رونا
شروع کیا یہاں تک کہ روتے روتے ان کی روح پرواز کرگئی۔ (انا للہ و انا الیہ
راجعون) اور حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسکی
تجہیز و تکفین کا انتظام فرمایا۔ (معارف القرآن)
نکل جائے دم انکے قدموں کے آگے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اطاعۃ کے صدقہ میں رفاقت
قران مجید کی بہت سی آیات مبارکہ میں مخصوص اعمال صالحہ کے نتیجہ میں جنت
کا وعدہ فرمایا گیا ہے لیکن یہاں پر کسی مخصوص عمل کا ذکر کئے بغیر مطلق
اطاعۃ کا ذکر کرنے اس کے صلہ میں چار قسم کے مقربان الٰہی کی معیت و رفاقت
کا اعلان کیا گیا (جوکہ یقینا جنت اور اسکی نعمتوں سے بدرجہا بلند ہے)۔ اس
میں اس جانب اشارہ ہے کہ اس قرب و معیت کے حقدار صرف وہی ہوسکتے ہیں جو
زندگی کے ہر موڑ پر اللہ اور اس کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و
اتباع کرتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خواہ وہ عبادات ہوں یا معاملات،
مأمورات ہوں یا منہیات کسی بھی مقام پر وہ امر الٰہی اور سنت رسول اللہ
صلّی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ جنت کے بھی کسی مخصوص
طبقہ کے مستحق نہیں ٹھہرتے بلکہ وہ مراتب و مدارج میں تفاوت کے باوجود
بترتیب انبیاء علیہم السلام، صدیقین (جو بلاتردد اور جھجھک کے فوری طور پر
دعوت اسلام قبول کرکے جان و مال نچھاور کرتے ہیں)، شہداء (جو رضائے الٰہی
کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں) اور صالحین (بقیہ اولیاء اللہ
علماء ربانیین) کے ساتھ ہونگے۔
عمل نہیں محبت ہے
صحیح بخاری شریف میں خادم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص (ذو الخویصرۃ) رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضور
اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا متی الساعۃ (یارسول اللہ قیامت کب
قائم ہوگی)۔ جواب میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وما اعددت
لہا (تونے اسکے لیے کیا تیار کر رکھا ہے)۔ (جواب میں) عرض کیا لاشیٔ الا
انی احب اللہ و رسولہ صلّی اللہ علیہ وسلم، یعنی اور تو کچھ نہیں مگر یہ کہ
میں بلاشک و تردد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ (اس کا
یہ عاشقانہ جواب سن کر) رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انت
مع احببت (جسے تو محبوب رکھتا ہے (کل قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا)۔ راوی
حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فما فرحنا بشیٔ فرحنا بقول النبی
صلّی اللہ علیہ وسلم انت مع من احببت، قال انس فانا احب النبی صلّی اللہ
علیہ وسلم و ابابکر و عمر و ارجو ان اکون معہم بحبی ایا ہم وان لم اعمل
بمثل اعمالہم (صحیح بخاری شریف صفحہ 521 جلد ثانی)۔ ہمیں کسی بھی چیز سے
اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد انت
مع من احببت (یعنی جسے تو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا) سے حاصل ہوئی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں تو نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم اور
حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تینون سے محبت رکھتا ہوں، اس
لیے مجھے امید ہے کہ (جنت میں بھی) ان کے ساتھ ہونگا محض ان کی محبت کے
صدقہ میں اگرچہ میں نے ان کے اعمال جیسے اعمال نہیں کیے۔ اس روایت سے ثابت
ہوا کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی الفت و محبت کو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم بھی حصول جنت کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔
پیرآف اوگالی شریف |
|