ایک آزاد کشمیر۔۔۔تین تحریکیں

 آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست کے آغاز سے ہی تین تحریکیوں نے جنم لے لیاتھا۔تحریک حصول اقتدار ، تحریک تحفظ اقتدار اور تحریک آزادی۔۔۔تحریک آزادی کشمیر در حقیقت آزاد کشمیر میں حکومتی ڈھانچے اور دیگر اداروں کے قیام کی بنیادی وجہ تھی لیکن دھیرے دھیرے یہ صرف انتخابی سیاست ونعروں کی حد تک باقی ر ہ گئی اور دیگر دو تحریکوں نے اسے پس منظر میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔ کے ایچ خورشید کی زندگی تک تو آزاد کشمیر میں ایک نظریاتی انتخابی سیاست دیکھنے کو ملی لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ باب بھی بند ہوگیا۔ صورتحال اس حد خر اب ہوگئی کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے جیسے وہاں سیاسی اکھاڑہ بنا لیا ہے۔دوسری طرف مسلم کانفرنس جو کہ لاکھ خامیوں کے باوجود ریاستی جماعت تھی اور سر دار قیوم میں جب تک دم خم رہا مسلم لیگ کو قائم نہ ہونے دیا اور مسلم کانفرنس کو بھی بکھرنے سے بچائے رکھا۔لیکن سردار عتیق مسلم کانفرنس کو نہ صرف بچانے میں ناکام رہے بلکہ مسلم لیگ کے قیام کو بھی نہ روک سکے۔اب صورتحال یہ ہے کہ کے ایچ خورشید صاحب کی لبریشن لیگ آخری صف میں کھڑی نظر آتی ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں جن کا محور و مقصدکم و بیش پاکستان سے الحاق ہی ہے آگے ہیں جس سے آزاد کشمیر کا سیاسی نقشہ ہی بدل گیا ہے اور جس کا براہ راست اثر تحریک آزادی پر پڑا ہے۔پاکستان کی بیوروکریسی ان اقدامات کی بھرپور سپورٹ کرتی رہی ہے اور آزاد کشمیر میں عوام کو سیاسی دھینگا مشتی میں مصروف کر کے ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے ریاست کی سالمیت و وحدت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ آزاد کشمیر میں جمہوریت اور انتخابات کے نام پرقائم سیاسی نظام لاحاصل اچھل کود جس میں نلکا ٹوٹی سے بڑھ کر کو ئی اختیار بھی نہیں ہے۔ بلیک میلنگ، اقرباء پروری، قبیلائی اور برادری ازم کا فروغ،اور بد عنوانی کا سرخیل ہے۔

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم ھیڈ جناب امان اﷲ خان صاحب نے 17جولائی1996کو انگریزی اخبار دی نیوز میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے آزاد کشمیر میں انقلابی کونسل کے قیام کی تجویز دی تھی۔ مضمون میں تجویز کا پس منظر تحریک آزادی اور آزاد کشمیر کے انتخابات کا اس پرپڑنے والے اثرا ت کا ہے اور جن حالات کا ذکر ہے وہ آج بھی ویسے ہی ہیں۔ اقتدار کی خاطر جس طرح کی ممبر ان اسمبلی اپنی بولیاں لگواتے ہیں ایسا لگتا ہے کسی منڈی میں کھڑے ہیں جہاں جانوروں کا بھاوٗ تاؤ ہوتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے جب آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کی تحریکیں چلیں تو وہ ممبران جو صبح ایک وزیر اعظم سے وفاداری کاوعدہ کرتے تو شام کو کسی اور کے ساتھ اپنا سودا کر رہے ہوتے۔ اس بے ہنگم اچھل کود نے آزاد کشمیر کو اس کے اصل مقصد سے ہی دور کردیا اور اس قسم کے اقدامات کا اس پار جاری جہد مسلسل پرمنفی اثر پڑا۔اس پارکے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے نام پر صرف اقتدار کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور زبانی بیان بازی کے سوا ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عملی ساتھ نہیں دیا جارہا۔ یقینی طور پر اس قسم کے تاثر سے نہ صرف تحریک ّزادی کمزور پڑتی ہے بلکہ تقسیم کشمیر کی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد جہاں بھی آزادی سے پہلے قومیں اقتدرا کی رسہ کشی میں شامل ہوئیں وہاں آزادی کی منزل دور ہوتی چلی گئی۔ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم پہلے آزادی اور پھر سیاست کے اصول کو اپنا رہنما بنائیں ۔
قائد تحریک امان اﷲ خان صاحب نے اپنے مضمون میں یہ تجویز دی تھی کہ ّّ
آزادی کے حصول تک آزاد کشمیر میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک انقلابی کونسل بنائی جائے جس میں گلگت بلتستان سے بھی لوگ شامل ہوں اور کشمیر سے باہر بھی با اثر کشمیری شخصیات بھی شامل ہوں جو کشمیر کو سیاسی اور سفارتی سطح پر اٹھائے اور بلدیاتی اداروں کی تشکیل کر کے ان کے ذمہ بنیادی عوامی مسائل و امور ان کے سپرد کر دئے جائیں۔انقلابی کونسل مختلف کمیٹیاں تشکیل کرے جو عسکری، سیاسی اور سفارتی سطح پر تحریک کو منظم کرے اوراس کی تشہیر کے حوالے سے الگ ایک شعبہ قائم کیا جائے اور اس کے لئے درکار فنڈز کا بندو بست کریں۔ ان کیمیٹیوں کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے مختلف شعبوں کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں جنہیں گوریلا اور نفسیاتی جنگ میں مہارت ہو اس کے علاوہ سفارتی اور میڈیا کی جنگ کے ماہرین کی خدمات بھی لی جائیں۔حریت کانفرنس کی ترتیب نو کی جائے اور اس میں ریاست کے تمام حصوں اور مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔حریت کانفرنس اور انقلابی کونسل میں مکمل آہنگی ہو اور ان کا رشتہ بہنوں جیسا ہو۔

حال ہی میں اعظم انقلابی صاحب نے بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی میں مصروف تنظیموں ، جماعتوں اور گروپوں پر زور دیا ہے کہ وہ مزاحمتی پارلیمنٹ کی تشکیل کے لئے تیار ہوجائیں۔انھوں نے مزید کہا کہ مجوزہ پارلیمنٹ کشمیر کو سہ فریقی ،مسئلہ کو طور پر اجاگر کریگی اور مسئلہ کشمیر پر ہونے والے ہند پاک مزاکرات میں کشمیریوں کے بہ طور اصل فریق کے شامل ہونے کے لئے ایک خاکہ بھی تیار کریگی جس سے مسئلہ کشمیر کے پر امن حل میں مدد ملے گی۔

امان اﷲ خان صاحب نے بیلجم کے شہر برسلز میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سردار قیوم اور فارو ق عبداﷲ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سردارقیوم پاکستانی بن کر سوچنے کے بجائے کشمیری بن کر سوچیں اور فاروق عبداﷲ ہندوستانی کے بجائے کشمیری بن کر سوچیں تو مسئلہ کشمیر کچھ ہی مہینوں میں حل ہو سکتا ہے ۔ امان صاحب کی اس تجویز کو بھرپور انداز میں سراہا گیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آر پار لیڈرشپ اپنے اقتدار کوی خاطر خود کو پاکستانی سے بڑھ کر پاکستانی اور ہندوستانی سے بڑھ کر ہندوستانی بن کر سوچتی ہے جس کی وجہ سے بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا۔

اگرچہ صورتحال 1996سے زیادہ گھمبیر ہے لیکن گر نئی نسل تک کشمیر کا پیغام صحیح انداز میں پہنچا دیا جائے تو اب بھی حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس وقت تمام آزادی پسندوں پریہ بڑی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو پاکستان اور ہندوستان کی سیایس جماعتوں کی براہ راست مداخلت کا شکار ہونے سے بچائیں اور انھیں حقیق معنوں میں کشمیر کا سپاہی بنائیں ۔
 
Niaz Ahmad
About the Author: Niaz Ahmad Read More Articles by Niaz Ahmad: 98 Articles with 82169 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.