صفائی اور شعور آدمیت

انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اسے عقل وشعوراور فہم و فراست کی نعمت سے نوازا گیا۔ قدرت کی طرف سے انسان کی جسمانی، روحانی، نفسیاتی اور سماجی نشوونما کیلئے خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان مراحل سے گزرتے ہوئے خود انسان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سے اہم ذمہ داری وجود کے اس ڈھانچے کی دیکھ بھال کرنا اور خصوصا صفائی کا ہرحال میں اہتمام کرنا ہے۔جملہ ماہرین طب بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ایک صحت مند وجود میں ہی ایک صحت مند دماغ پرورش پاسکتا ہے۔ نفسیاتی علوم کے ماہرین کے نزدیک بھی صفائی انسانوں کو ذہنی سکون مہیا کرتی ہے۔قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ ’’بے شک اﷲ تعالی صاف ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ہمارے پیارے نبی، محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ جہاں بھی ہم لوگ رہ رہے ہوں وہاں کے گلی محلے سے لیکر اپنے گھروں تک کی صفائی کا خیال رکھنا ہم سب کی دینی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ میڈیکل سائنس بھی تحقیق و جستجو کے بعد ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گندگی سے وائرس اور جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو کئی جان لیوا بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ ستر فیصد کے قریب انسانی اور حیوانی بیماریوں کا سبب غلاظت اور گندگی ہے۔ حکومتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ صفائی کا اہتمام کریں۔ گندہ پانی پینے سے بھی امراض پیدا ہوتے ہیں لھذا رعایا کیلئے صاف پانی کا انتظام کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں بھی ہم رہ رہے ہوں اپنے گھروں اور ارد گرد کی صفائی ہماری انفرادی اور اجتمائی ذمہ داری بھی ہے۔ بچوں میں بیماریوں سے بچاؤ کیلئے قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ لھذا گندگی کی صورت میں بیماریوں کا زیادہ تر اثر پھول جیسے بچوں کی صحت پر ہوتا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ کھانے پینے میں صفائی کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ کھانے پینے کے اشیائی مواد سے لیکر کچن اور برتنوں کی صفائی کی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بہت اہمیت ہے۔ ورنہ اس گندگی سے پیچیدہ امراض جنم لیکر باعث پریشانی بنتے ہیں۔پانی اور کوڑا کرکٹ کئی دنوں تک ایک جگہ پڑے رہیں تو اسکی غلاظت سے ایسے موذی مچھر اور خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو جان لیوا امراض کا سبب بنتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں ’’ ڈھینگی وائرس‘‘ کا نام میڈیا پر عام ہے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ’’ڈھینگی‘‘ کس زبان کا لفظ ہے اور کیسے اس وائرس کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔

البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ ایک قاتل وائرس ہے جس کی وجہ سے چھ ہزار کے لگ بھگ قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ پاکستان سے پہلے سری لنکا میں یہ وائرس پایا جاتا تھا لھذا وہاں کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بلائی گئی۔ ان کی ریپورٹ کے مطابق یہ مچھر گندے پانی میں پایا جاتا ہے۔ پرانے ربڑ کے ٹائروں اور گملوں میں بچے ہوئے پانی کے علاوہ جوہڑوں،اورتالابوں میں پرورش کے ساتھ ساتھ اس کی افزائش نسل بھی ہوتی ہے۔ اس طرح گندگی انسانی اور حیوانی زندگی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ راقم الحروف کو ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک میں جانے کا موقع ملا۔ اپنے مشاہدے کے مطابق میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ بدقسمتی سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں حکومتیں صفائی کی طرف توجہ دیتی ہیں اور نہ ہی عوام الناس۔ سڑکوں اور بازاروں میں گندگی بکھری نظر آتی ہے۔ سبزی منڈیوں ، چھوٹے
ریستور انوں اور بازاروں میں غلاظت کی وجہ سے اکثر و بیشتر تعفن اور بدبو آتی ہے۔ یہاں تک کہ مساجد کے وضوخانے میں ٹائلٹ استعمال کرنے کے بعد صابن بھی دستیاب نہیں ہوتا ۔ وہاں تو شاید لوگ عادی ہوچکے ہوں لیکن جنہیں ٹائلٹ کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے کی عادت ہے انہیں سخت کوفت ہوتی ہے۔ الحمد ﷲ کئی مرتبہ حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سال بھی انشااﷲ روانگی کا ارادہ ہے۔ وہاں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض حاجی حضرات صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ جہاں کچھ کھایا وہاں ہی سڑک پر بوتلیں اور ڈبے پھینک دئے۔وادی منی میں تو سڑکوں پر پڑے غلاظت کے ڈھیروں کی وجہ سے بدبو پھیلنی شروع ہوجاتی ہے۔ حج انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے صفائی کے بہت انتظامات ہوتے ہیں لیکن حاجی حضرات کو بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو نبھاہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یورپ میں حکومتیں صفائی کے بہت انتظامات کرتی ہیں۔ شاہراہوں اور بازاروں کی صفائی پر بہت توجہ دیجاتی ہے۔ گھروں میں ڈسٹبن کا اہتمام ہے۔ ہفتہ وار کونسل کی گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھا کر لے جاتی ہیں ۔ لیکن جن علاقوں میں ایشیائی یا افریقی اکثریتی آبادی ہے وہاں کی سڑکوں پر گندگی نظر آتی ہے۔ حسب عاد ت کچھ لوگ کھا پی کر بوتلیں اور ڈبے سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔۔ گھروں کے باہر باغیچوں اور گلدانوں کا خاص خیال نہیں رکھتے۔ بعض اوقات چلتی گاڑیوں سے کوڑا سڑکوں پر پھینکتے بھی دیکھا گیا جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔ اگر کوئی انگریز مرد یا عورت پچھلی گاڑ ی میں ہوں تو بآواز بلند ہارن بجا کر بدتمیزی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہاں کی گناہوں سے آلودہ عادات تو لوگ دنوں میں سیکھ لیتے ہیں ۔نہ جانے باوقاراور اچھی روایات مثلا صفائی، وقت کی پابندی، سچائی اوردیانتداری سالوں میں بھی کیوں نہیں سیکھ پاتے۔ پندرہ صدیاں پہلے ہادی برحقﷺنے ہمیں آگاہ کردیاتھا کہ اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو، بیماریوں سے محفوظ رہ کر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو صفائی کا خیال رکھو۔ بلکہ صفائی اور پاکیزگی کو نصف ایمان قراردیا۔ ہمیں رستے میں پڑی گندگی ہٹانے کا حکم دیا گیا تاکہ کوئی گزرنے والا بیزار نہ ہو۔ راستے میں پتھر، کانٹے اور کنکر ہوں تو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ہمیں حکم دیا گیادن میں پانچ دفعہ نماز کیلئے وضوء کرکے پاک صاف ہوں۔ جمعہ کے دن اچھی طرح نہا کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا فلسفہ ہمیں تب ہی سمجھ آسکتا ہے جب ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان عوام الناس اسلام کو کوزے میں بند کر کے کچھ لوگوں کو ٹھیکے پر دے کر خود آزاد ہوگئے ہیں۔ جو من کو بھایا کرلیا اور جوکام مشکل ہوا اسے چھوڑ دیا۔ یقینا یہ رویے قابل تحسین نہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صفائی اور پاکیزگی کا جو تصور محسن کائناتﷺ نے دیا ہے وہ ہم دنیا تک تبھی متعارف کرا سکتے ہیں جب ہم خود صاف ستھرے ہوں گے اور گھروں ، کوچوں اور بازاروں کی صفائی پر نظر رکھیں گے ۔

 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240921 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More