اوموجا

پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام اور اسلامی معاشرتی اقدا ر کا تحفظ ہے۔ہم تمام پاکستانیوں کی بد قسمتی دیکھئے کہ ہم نے ان تمام مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں تاحال ایسے لوگوں اور گھروں کی اکثریت ہے جہاں سالہا سال نمازاور قرآن پڑھنے کی روایت نہیں پائی جاتی۔کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس ملک اور معاشرے کو یورپ کی طرز پر محض جنسی تفریح گاہ سمجھ رکھا ہے۔ایسے لوگ اور ایسے افراد محض حیوانوں کی طرح پیٹ کھانے سے بھرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کئے بغیر سو جاتے ہیں۔ہم سارے اگر ایمانداری سے سوچیں تو ایسے افراد یا گھر اپنے نومولود بچوں اور بچیوں میں بھی یہی بے قاعدگی ان کی آئندہ نسلوں تک چلتی رہتی ہے۔اس کالم کا مقصد کسی بے نمازی کے خلاف خدانخواستہ فتویٰ دینا نہیں بلکہ اصلاح ِ احوال ہے۔

روزنامہ گارڈین نے اپنے اخبار میں یورپی عیاشوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے ایک حیرت انگیز خبر دی ہے۔جس کے مطابق کینیا کے خطے سمبورو کے ایک گاؤں اوموجا میں 47 عورتیں اور لگ بھگ 200 بچے زندگی گزار رہے ہیں، اس گاؤں میں کوئی مرد نہیں رہتا ہے اورنہ ہی یہاں مردوں کو آنے کی اجازت ہے۔ یہ مکمل طور پر عورتوں کی کمیونٹی ہے جسے ظلم کی ستائی ہوئی عورتوں کی پناہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔مطلب یہاں خواتین اپنی زندگی کو پُر تحفظ اور پرُسکون سمجھتی ہیں۔

اخبار کے مطابق اوموجا گاؤں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اس بستی میں رہنے والی عورتوں نے جنسی زیادتی، عصمت دری، شوہر کی بدسلوکی اور ناکام شادیوں کے بعد اپنے گھروں سے بھاگ کر یہاں پناہ حاصل کی ہے۔بنیادی طور پر عورتوں کے گاؤں کا قیام 1990ء میں ہوا، جب یہاں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں درجنوں عورتوں کی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کمیونٹی کی رہنما ربیکا لولوسولی ہیں جنھیں ان کے شوہر نے بدسلوکی کے بعد گھر سے نکال دیا تھا۔ ربیکا نے یہاں قدامت پسند معاشرے کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی عورتوں کو گروپ کی شکل میں اکھٹا کیا ہے، جنھیں خاندان، شوہر یا کمیونٹی کی طرف سے نکال دیا گیا تھا۔

کینیا میں حقوق نسواں کی علمبردار ربیکا کو عورتوں کے حقوق کے لیے بات کرنے اور علیحدہ کمیونٹی بنانے پر سزا بھی دی گئی اور پچھلے پچیس سالوں میں ان پر لگاتار حملے بھی ہوئے، لیکن ربیکا پورے عزم کے ساتھ اپنے مقصد پر ڈٹی رہیں ہیں۔تفصیلات کے مطابق اوموجا میں رہنے والی عورتیں اپنا گھر خود چلاتی ہیں، کمیونٹی کی عورتیں مل کر دستکاری کا سامان اور زیورات تیار کرتی ہیں اور انھیں سیاحوں کو بیچتی ہیں، اس طرح پورے گاؤں کے لیے کھانے کپڑے اور گھر کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس گاؤں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کی عورتیں آس پاس کے دیہاتوں میں جا کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی کام کر رہی ہیں خاص طور پر اپنی کمیونٹی اور دیگر کمیونٹیوں کی لڑکیوں سے کم عمری کی شادی، جبری شادی اور نسوانی ختنہ کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں۔ ہر عورت نے اپنے متعلق عجیب و غریب ظلم کی داستان سنائی اور بتایا کہ جس وجہ سے وہ اس علاقہ میں رہائش پذیر ہوئی، انیس سالہ جوڈیا نے بتایا کہ’’ اس کی عمر 13 سال تھی جب وہ یہاں آئی تھی، اس کے گھر والے اسے ایک بڑی عمر کے آدمی کے ہاتھ بیچ رہے تھے۔‘‘جین کے مطابق’’ جس روز اس کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا وہ اپنے شوہر کے جانوروں کو چرانے گئی تھی، میں نے یہ بات اپنے شوہر سے چھپائی تھی لیکن ساس کو بتایا تھا، جس پر گھر والوں نے مجھے بدکردار سمجھ کر مجھ سے منہ موڑ لیا اور خاوند نے بد سلوکی کی انتہا کر دی پھر میں ایک روز وہ اوموجا بھاگ آئی۔‘‘ایک 34 سالہ خاتون نے بتایا کہ’’ اس کی شادی 80 سال کے آدمی سے ہوئی تھی، جب اس کی عمر 16 سال تھی وہ اپنے گھر سے بھاگ آئی تھی اور اب اس کمیونٹی کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہے۔‘‘اس بستی کی بہت سی عورتوں نے کہا کہ وہ اوموجا میں رہنے کے بعد کسی مرد سے شادی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہیں۔

قارئین!احقر کئی مرتبہ پاکستانی اور اسلامی معاشرے کی کمزوریوں کو ہائی لائٹ کر چکا ہے۔میرے سمیت تمام پاکستانیوں کی اکثریت سجدہ ٹیکنے سے گھبراتی ہے۔ہمیں مسجد جانے سے خدانخواستہ اکتاہٹ ہوتی ہے۔ہمارے اکثر مولوی حلوے اور ذاتی نظریات کی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔خدارا سارے امام مسجد اور علمائے پاکستان سوچیں جو امام مسجد گالیاں بکتے ہیں،عوام کو تفرقے کے نام پر آپس میں لڑاتے ہیں اور تقسیم کرتے ہیں،کیا ہم سب کی نماز ان کے پیچھے ہو سکتی ہے؟کیا ایسے امام مسجد نوجوانوں کی بہترین تربیت کا بیڑہ اٹھا سکتے ہیں؟

جو والدین خود نماز نہیں پڑھتے،ان کی اولاد بھلا کیوں نماز پڑھے گی۔جو والدین خود جھوٹ،بے ایمانی اور رشوت کے مال پر دن گزارتے ہیں ان کی اولاد راہِ راست پر کیسے آئے گی۔اﷲ کے بندوں ایک دن ہم سب نے مرنا ہے اور جو اولاد نماز و قرآن کی با قاعدگی سے محروم ہے وہ ہمیں بخشوانے کی دعائیں کہاں سے بھیجے گی؟جن نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہم گھر میں اور فیس بک اور وٹ اس ایپ پر آزادچھوڑ دیتے ہیں وہ زنا نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟انٹرنیٹ پر بے حیائی کا سیلاب اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کمروں میں بند ہو کر استعمال کریں گے تو کیا وہ بچے جنسی تششد د نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔

ڈرو اس وقت سے جب خدانخواستہ ہماری پاکستانی خواتین بھی کوئی ’’اوموجا‘‘ گاؤں نہ بنا لیں۔خداراپیارے ملک کواوموجا بننے سے باز رکھو!ہمارے چھوٹے بچے ،بچیاں اور نوجوان لڑکیوں قابلِ احترام ہیں اور اس احترام کو باقی رکھنے کے لئے ابھی سے اپنے گھروں میں اسلامی روایات کی بحالی کے لئے دینداری پر ڈٹ جاؤ۔بے حیائی،فحاشی،عریانی اور بے دینی کی فضا کے خاتمے کے لئے ڈٹ جاؤ۔اگر یہاں اوموجا کی نوبت آگئی تو اسلام خدانخواستہ پاکستانی کی تاریخی کہانی نہ بن جائے۔ سارے کوشش کرو اور اس کوشش میں اتنے مگن ہو جاؤ کہ ہم لوگ دینداری اور اسلامی روایات میں تاریخ کی نمبر ون مثال بن جائیں۔اوموجا میں رہنے والی خواتین کو ہماری طرح کے دیندار لوگ تحفظ دینے والے بن جائیں اور وہ خود بخود اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔تب مزہ ہے زندگی کا،تب مزہ ہے جینے کا اور تب مزہ ہے مرنے کا۔جذاک اﷲ

Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.