جیسی عوام ویسا حکمران

اگر دنیا میں سب سے آسانکام تلاش کیا جائے تو وہ ہے " تنقید برائے تنقید" یہ معاشرہ آپ اور مجھ جیسے لاتعداد افراد سے بھرا پڑا ہے جو اپنا دامن تو صاف رکھتے ہیں مگر دوسروں پر کیچڑ اُچھالنا حقیر سی بات تصور کرتے ہیں جبکہ افسوس صد افسوس کبھی مجھ جیسے انسان نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش تو دور کی بات شاید سوچنے کی جسارت بھی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ہر کسی نے معاشرے کو تنقید کی بھینٹ چڑھا دیا اور خود تمام تر فرائض اور ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو کرغفلت کی نیند سو جانے کو ترجیح بخشی۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں واضح فیصلہ سنا دیا کہ " جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران مسلط ہونگے" آج اس نفسا نفسی کے دور میں حکمرانی کے مسلسل سہانے خواب دیکھنے حکمران کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم بڑے بہادر ہیں ہمارے پاس شیر ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ ہمارے پاس تیر ہے ہم زیادہ بہادر ہیں تو کوئی بابا نگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ہم ہر چیز کو تبدیل کر کے رکھ دیں گے ۔ ان تمام میں ایک بات تو مشترک ہے کہ یہ سب حق سچ بات کو سمجھنے کا ادراک تو رکھتے ہیں لیکن افسوس عملی میدان میں ان کے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں کی مثال صحرا کے اُس ریتلی میدانوں میں لگے قدموں جیسی ہے جوکچھ لمحے بعد تیز ہوا کے ساتھ اپنے نشان تک کھو بیھٹتے ہیں۔ اسی لئے آج کے حکمران قوم کو بندروں کی طرح نچاتے ہیں اور قوم بخوشی ناچتی ہے معاف کیجئے معاشرےکے بگاڑ میں جتنا حصہ حکمرانوں کاہے اتنا ہی ہم سب کا ہے کیونکہ رشوت، جھوٹ، بدعنوانی، حق تلفی، دھوکہ دہی اور فریب جیسی فصلوں کی آبیاری کے ہم ہی ذمہ دار ہیں ایک تھانے کا ایس ایچ او (SHO) ایف آئی ار کا ٹنے کی دس بیس ہزار ڈیمانڈ کرتا ہے تو ہم قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہم سب کور ٹ کچہری سمیت تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں فخر کے ساتھ سودے بازی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ کسی علاقے کا ایم پی اے یا ایم این اے تو بہت دور کی بات علاقے کا ایک باعزت پٹواری مان نہیں جس کے سامنے ہماری لاچار اور بے بس عوام یوں ہاتھ باندہ کر کھڑا ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں جیسے ا سکے زرخرید غلام ہوں۔
یاد رکھیئے معاشرے میں بدعنوانی جیسی بہت سی برائیوں کا راستہ نہ روکنےکی وجہ سے حکمرانوں میں اتنی جرات پیدا ہوجاتی ہےکہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ اور جھوٹ کو سچ میں بڑے فخر کے ساتھبدل کر قوم کے سامنے اپناسر بلند کرکےاس حد تک سر خرو ہوجاتے ہیں۔ کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جانا چاہتا بس سادہ الفاظ میں آپ سے دست بدستہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ بدعنوانی کی دوڑ میں اتنا دور نہ نکل جائیں کہ واپسی کارستہ ہی نہ ملے، بہتر تو یہ ہے معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بچائے ہم اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں تو معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔آئیے آج سے یہ فیصلہ کر ڈالیں کہ جھوٹ، فریب،حق تلفی،دھوکہ دہی اور بد عنوانی جیسی بیماریوں کے بوئے ہوئےبیجوں کو اُکھاڑ پھینکیں اور ہمیشہ حق سچ کا ساتھ دیں تاکہ پوری دنیا کو پتا چلجائے کہ حقیقت میں ہم ایک زندہ قوم ہے،

یقین جانیئے دنیاکےکسی بھی خطے میں جو قومیں اپنے وطن سے پیا ر کرتیں ہیں اور اپنے ملک کے ساتھ سچےدل سے مخلص اور وفادار ہیں تو کبھی بھی وہاں کے بد عنوان حکمران زیادہ دیر تک اقتدار کی کرسی پر نہیں بیھٹے کیونکہ عوام ریاست کا سب سے بڑا ستون مانا جاتا ہے اگر عوام ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو خدا کی قسم کوئی بھی حکمران عوام کی آنکھوں میں مٹی نہیں ڈال سکتا۔ آئیے عہدکیجیئے کہ ہم اپنے ملک میں حق سچ کا بول بالہ کریں گےمحبت بھائی چارہ اور یگانگت کی فضاء پیدا کر یں گے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے پاک وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ناپاک حسارت نہ کرے۔ ہمیں فخر ہے اپنی پاک فوج پر کہ جس نے ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرے میں کبھی عار محسوس نہیں کی ہمارا سلام ہے پاک فوج کے جوانوں کو کہ جن کی بہادری اور سچے جذبے کی وجہ سے دشمن کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کر نا پڑا ان فوجی جوانوں کے خون کی قدر کرتے ہوئے اس بات کا عزم کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے ملک میں پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے روز مرہ کے معاملات چلائیں گے اور اس خطے میں پوری ایمانداری اور وفاداری سے ایک خالص اور مضبوط قوم بن کر چلیں گے تحریر کے آخر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس مشہور فرمان کو اپنے ذہن نشین رکھیں جو انہوں نے 24 اکتوبر 1947ء کو عید کے موقع پر فرمایا تھا کہ " ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے" -

ندیم حسین رضوی
About the Author: ندیم حسین رضوی Read More Articles by ندیم حسین رضوی: 2 Articles with 2007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.