“ چھوٹے چائے لانا“٬ “ شرفو آج صبح سے چائے نہیں پلائی تم
نے“٬ “ ارے چائے تو پی کر جائیں “- گھر ہو یا دفتر٬ یا ہو پنکچر کی دکان
ایسے جملے آپ کو ہر جکہ سننے کو ملتے ہیں- چائے کے بغیر کسی کا گزارا نہیں!
ہم میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جن کو صبح اٹھ کر سب سے پہلے جس چیز کی طلب
ہوتی ہے وہ ہے چائے- شاید کوئی ایسا شخص ہو جس نے چائے کا ذائقہ نہ چکھا ہو٬
یا اس کو پسند نہ ہو- چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر کوئی چائے کا دلدادہ ہے-
پاکستان میں چائے دلوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے- مثال کے طور پر آپ کسی کے
گھر رشتہ لے کر جائیں اور لڑکی آپ کو گرما گرم چائے پلائے تو کم از کم اس
بات کا تو اطمینان ہوجاتا ہے کہ شادی کے بعد اچھی چائے مل جائے گی- شوہر
تھکا ہارا گھر آئے تو چائے کا گرم کپ اس کی ساری تھکان اتار دیتا ہے- یہاں
تک کہ باس کے بگڑے ہوئے تیور بھی چائے سے ٹھیک ہو سکتے ہیں- رات کو دیر تک
جاگ کے پڑھنا ہو یا صبح جلدی اٹھ کر کوئی ضروری کام سرانجام دینا ہو چائے
پی کر ہی سب ممکن ہو پاتا ہے-
|
|
کبھی سوچا ہے اگر چائے ملنا بند ہوجائے تو ہم زندہ کیسے رہیں گے؟ اس آرٹیکل
کے ذریعے ہم پاکستان میں تیزی سے ابھرتے ہوئے چائے کے کلچر کے بارے میں اہم
معلومات فراہم کریں گے-
ہماری روایات کی ضامن:
چائے پینے کی روایت آج کی نہیں بلکہ یہ قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے- اتنے
سالوں میں اس ملک میں بہت کچھ بدلا مگر چائے پینے کی روایت برقرار رہی-
خیبر سے لے کر کراچی تک چائے کی مختلف اقسام سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے-
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سبز چائے یا قہوہ نوش کیا جاتا ہے- اندرونی
سندھ اور پنجاب میں زیادہ دودھ والی اور میٹھی چائے پسند کی جاتی ہے- جنوبی
پاکستان کے رہائشی زیادہ گاڑھے دودھ والی چائے پیتے ہیں- غرض یہ کہ پاکستان
کے ہر گھر میں اپنے انداز سے چائے پینے کا رواج ہے-
|
|
چائے کی درآمد اور پاکستانی معیشت پر اثرات:
چائے پاکستان میں کاشت نہیں کی جاتی مگر روز بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے پیشِ نظر
حکومت کو چائے کی ایک بڑی مقدار درآمد کرنی پڑتی ہے- پاکستان میں چائے کی
درآمد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے- جس میں پیکٹ والی چائے کا 45
فیصد حصہ ہے٬ اسمگل شدہ چائے کا تقریباً 35 فیصد اور کھلی چائے کا 20 فیصد
حصہ ہے-
پاکستان سب سے زیادہ چائے کینیا سے امپورٹ کرتا ہے- سال 2009 میں 36.5 فیصد
چائے کینیا سے مپورٹ کی گئی جبکہ 2013 تک یہ امپورٹ 47 فیصد تک جا پہنچی-
کینیا کے علاوہ بھارت٬ سری لنکا٬ چین٬ بنگلہ دیش٬ انڈونیشیا اور ویتنام سے
بھی چائے امپورٹ کی جاتی ہے- چائے کی صنعت کا سب سے زیادہ نقصان اسمگلنگ سے
ہوتا ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چائے کا ایک بڑا حصہ پاک افغانستان کی
سرح کے ذریعے اسمگل کیا جاتا ہے جس کے تحت افغانستان کے لیے خریدی گئی چائے
پاکستان میں استعمال ہوتی ہے- یہ ہماری معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے-
|
|
پروان چڑھتا چائے ڈھابہ کلچر:
چائے ہوٹل٬ نیو کوئٹہ چائے ہوٹل سے کون واقف نہیں- سڑک پر گزرتے ہوئے آپ کو
ایسے چھوٹے چائے کے ہوٹل اور ڈھابے نظر آتے رہتے ہیں- یہ ہوٹل اور ڈھابے
مزدور طبقے اور گزرنے والے راہ گیروں کا ٹھکانہ تصور کیے جاتے ہیں- مگر
درحقیقت یہ ڈھابے چائے کے کپ کے ساتھ گپ شپ لگانے کا بہترین ذریعہ سمجھے
جاتے ہیں-
زمانہ حاضر میں چائے ڈھابہ صرف متوسط طبقے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے
اپنا دائرہ امیر طبقہ تک وسیع کرلیا ہے- پاکستان میں کافی اور چائے کیفے کا
رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے- اس تازہ مثال “ چائے والا “ کے نام سے ڈیفنس میں
کھلنے والا ایک کیفے ہے جو اپنے منفرد انداز کی بنا پر بےحد پسند کیا جارہا
ہے-
|
|
حتمی رائے:
غرض یہ کہ چائے ہماری زندگی کا ایک اہم جز بن چکی ہے جس سے ہم چاہ کر بھی
جان نہیں چھڑا پاتے- روزمرہ کی زندگی میں چائے نے انسان کو اپنا اس حد عادی
بنا دیا ہے کہ یہ نہ ملے تو کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے- نہ صرف یہ ہمیں اپنا
عادی بنا چکی ہے بلکہ ہماری معیشت پر (بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ) کی وجہ سے بوجھ
بنتی جارہی ہے-
فیصلہ آپ کو کرنا ہے٬ کیا ہمیں چائے پینے کمی کر کے معیشت کو سہارا دینا ہے
یا پھر پھر اپنی عادت سے مجبور ساری عمر چائے کے کپ میں غرق رہنا ہے-
|