ikea!
یورپ، کینیڈا، سویڈن والوں کا ایک مشہور سٹور، جہاں گھر کی سجاوٹ، ضرورت،
ڈیکوریشن اور انواع واقسام کا سامان لوگوں کو ہر موسم میں ہمیشہ اپنی طرف
متوجہ رکھتا ہے۔ تفریح کی تفریح اور کام کا کام، بچوں کے کھیلنے کے لیے
اندر مناسب جگہ و انتظام، ریستوران،غرض قریبی علاقوں سے لوگ یہاں جوق در
جوق چلے آتے ہیں۔ خریداری اور وقت گزاری کے بعد رقم کی ادائیگی کے لیے
کاؤنٹر کے پاس لمبی لمبی قطاریں۔۔۔
ایسی ہی ایک قطار میں چہرے پر مسکراہٹ سجائے ایک خاتونِ مغرب کاؤنٹر سے
چیزیں اٹھا کر اپنی ٹرالی میں رکھ رہی تھی کہ شیشے کا بڑا سا چم چم کرتا
پیالہ، جسے گھر جا کر اس نے شیشے کی الماری۔۔ ویٹرینے۔۔ میں سجانا تھا یا
اس میں خوشنما سلاد ڈالنی تھی یا خوش رنگ ٹرائفل بنا کر مہمانوں کے سامنے
ڈائننگ ٹیبل کی زینت بنانا تھا اور اِک تفاخر بھری مسکراہٹ مہمانوں پر
پھینکنی تھی کہ ۔۔ کہ نہ جانے کیسے وہ اس کے گورے گورے ہاتھوں سے پھسل کر
زمین پر جا گرا اور چکناچور ہو گیا۔ اور ایک خوبصورت خواب کی بُری تعبیر بن
گیا۔ پہلے سے ہی اک شور برپا تھا لیکن چھناکے کی آواز اس شور پر اتنی بری
طرح غالب آئی کہ کارواں آگے بڑھتے بڑھتے رک گیا۔ سب کی بولتی بند ہو گئی
اور آنکھیں متلاشی، قریبی لوگوں نے تو اپنی گنہگار نظروں سے یہ منظر دیکھ
بھی لیا اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ بنے۔ ابن انشاء کے چاند کی طرح ،
:ہم بھی وہیں موجود تھے ہم بھی سب دیکھا کیے
یہ نقصان بھرا واقعہ سامنے ساتھ والی قطار میں ہی تو ہوا تھا۔
اس خاتون نے زور سے اک لمبی ۔۔ آہ ۔۔ بھرتے ہوئے اپنے افسوس بھرے ہاتھ
اٹھا کر اک ادا سے اپنے دونوں گالوں پر رکھ لیے۔ کاؤنٹر پہ بیٹھی حسابی
کتابی گرل جو انہماک سے کھٹ کھٹ چیزوں کا بل تیار کر رہی تھی اس ناگہانی پہ
گھبرا کر اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس عورت کے شوہر نے اک سلگتی نگاہ
بیوی کے چہرے پر ڈالی، جس میں اک واضح پیغام چھپا ہوا تھا کہ،
:کر دیا نا نقصان اور تماشا بھی بنا دیا؟:
پھر وہ بے نیازی کا لبادہ اوڑھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے بچے تو اتنا
بھی صبر نہ کر سکے اور جرمن زبان میں پکار اٹھے،
:اوہ ماما ۔۔ یہ کیا کر دیا ۔ پیالہ توڑ دیا۔ :
اور ماما بیچاری غم کی مورتی بنی کھڑی تھی کہ کوئی تو مجھے بھی سمجھو کہ یہ
میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ پیالے کی عمر بس اتنی ہی تھی۔ جو ہونا تھا وہ
ہو گیا۔ نہ جانے آج صبح تم لوگوں میں سے پہلے کس کا منہ دیکھا تھا۔۔!
وقوعہ سے ہٹ کر آس پاس کھڑے لوگوں کے چہرے بھی اس صورتحال سے وابستہ کچھ
کہانی بیان کر رہے تھے۔
سنجیدہ مزاج چہروں پر اک تاسف تھا۔۔
کچھ لوگ آپس میں ہمدردی بھری بات کر رہے تھے کہ،
: اتنا بڑا پیالہ گر کر ٹوٹ گیا، یقینا مہنگا بھی ہو گا، چچ چچ۔۔ نقصان ہو
گیا۔ اوہ، بے چاری پور لیڈی:
کان منتظر ہی رہے کہ کوئی وہم کا مارا یہ بھی کہے ،
:شیشہ ٹوٹنا اچھا شگون ہوتا ہے۔:
پندرہ سولہ سالہ ایک ٹین ایج لڑکی اس صورتحال کو دیکھتی تھی اور اپنی
مسکراہٹ چھپانے کے لیے منہ دوسری طرف کر لیتی تھی۔ دوبارہ پھر دیکھتی تھی
اور مسکراہٹ سے اس کی آنکھیں پھر چمکنے لگتی تھیں۔ لگتا تھا صحیح مزا اُسے
ہی آیا ہے۔ جب کہ اس کا ڈیڈ افسوس بھری نظروں سے عورت کو دیکھتا تھا۔۔
شیشے کی بڑی بڑی کرچیاں اور ٹکڑے کاؤنٹر کے اردگردبکھرے پڑے تھے اور مبہم
زباں میں شکوہ کناں تھےکہ ،
:کبھی ہم بھی جوان تھے اور پیالہ ہوا کرتے تھے۔:
پیالہ ٹوٹ چکا تھا افسوس ہو چکا تھا۔ اب وہ عورت جھکی اور شیشے کے بڑے بڑے
ٹکڑے اٹھانے لگی تو کچھ لوگ بے اختیار ۔۔ نو، نو ۔۔ کرنے لگے ۔ پھر کاؤنٹر
گرل نے بھی اسے روک دیا اور گھنٹی بجا کر سٹور کے ایک ملازم کو بلایا گیا۔
زندگی ابھی تک رکی ہوئی تھی۔ اب پورا مجمع اس آدمی کے انتظار میں تھا۔ جو
تھوڑی دیر بعد ایک برش اور بالٹی کے ساتھ حاضر ہوا۔ جب وہ آیا تو آگے
محفل عروج پر تھی۔ تو اتنے سارے لوگوں کے سامنے اپنا رول ادا کرنا اسے بھی
مشکل لگا۔ وہ کر تو گیا لیکن بڑبڑاتے ہوئے۔۔ اس کے جانے کے بعد زندگی
دوبارہ شروع ہوئی۔ کاؤنٹر پر حسابی کتابی مشینیں پھر سے کھٹاکھٹ چلنے
لگیں۔ لوگوں کو پھر جلدی مچ گئی۔ طوفان بے تمیزی دوبارہ برپا ہو گیا۔۔
ایسے لمحات تقریبا بہت سے لوگوں کی زندگی میں بن بلائے چلے آتے ہیں۔ جب
اچانک ہی وہ ایسی کسی صورتحال میں آ جاتے ہیں، کسی ناگہانی مشکل میں گرفتار
ہو جاتے ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی رنگِ محفل بن جاتے ہیں۔ بندہ جھینپ جاتا ہے
اور دوسروں کی نظروں کا محور بن جاتا ہے۔ کچھ تمسخر اور تاسف بھری نظریں
پیچھا کرنے لگتی ہیں۔ نقصان علیحدہ دل پر ڈورے ڈالتا ہے۔ جی چاہتا ہے زمین
پھٹ جائے اور اندر دھنس جائیں یا کوئی سلیمانی ٹوپی پہن کر کوہ قاف چلے
جائیں۔
یہ اچانک کا سین بن جانا فلم اور تماشائی کی طرح بنا ٹکٹ تھیٹر لگ جاتا ہے۔
لوگوں کو اپنے ضروری کام چھوڑ کر اس میں اپنا کردار نبھانا پڑتا ہے۔ دیگر
لوگ بھی اپنے سب کام دھام جام چھوڑ کر تماشائی بن جاتے ہیں۔ ماسوائے اس کے
دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ اُس وقت نقصان میں گھِرے بندے کا امتحان ہوتا
ہے۔ جب سب کی نظریں اس پہ گڑی ہوتی ہیں اور لوگ دیکھتے ہیں کہ اب وہ کیا
کرے گا ؟ کیسے نظریں ملائے گا۔۔۔ حالانکہ اس وقت اگر وہ اپنے دھڑ دھڑ کرتے
دل پر قابوہی پالے تو بڑی بات ہے۔ لیکن لوگ منتظر ہوتے ہیں کہ اب وہ اس
معاملے کو کیسے قابو میں کرے گا۔ کچھ کرم فرما اسے خوامخواہ کی شرمندگی میں
دیکھنا چاہتے ہیں اور کچھ اس کے اندر چھپی کسی اندرونی صلاحیت کو۔۔ لیکن
ایسےمیں کچھ لوگ واقعی گھبرا جاتے ہیں اور ان سے بوکھلاہٹ بھری حرکتیں سر
زد ہونے لگتی ہیں۔ مزاج کے تیز کچھ لوگ ایسے میں سارا ملبہ اپنے پارٹنر،
بچوں یامدمقابل پر گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کو ایک ٹکٹ میں
دو دومزے پانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔
جبکہ حاصل مضمون یہ کہ ایسی کسی بھی نازک صورتحال کو بس ذرا سمجھداری سے
نپٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔!
بہتر تو یہی ہے کہ شرمسار ہونے کی بجائے خود پر قابو رکھتے ہوئے ماحول کو
اپنے رویے سے ہلکا پھلکا بنا دیا جائے۔ اگر آپ کے ساتھ کبھی ایسا پیش آئے
تو گھبرائیے مت۔۔ سوچیں آپ کی بجائے ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ خود
نظر اٹھا کر اپنے اردگردوالوں کا جائزہ لے لیں کہ اس وقت کتنے تماشائی
موجود ہیں اورانھیں دیکھ کر تھوڑا سا مسکرا دیں۔ ہاتھوں کو کیا کریں؟ کی
پوزیشن میں لا کر کندھے ہلکے سے اچکاتے ہوئے اپنی باڈی لینگویج سے یہ ظاہر
کریں کہ نقصان تو ہوا ہے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔۔ ایسا کرنے سے بھیڑ ذرا
جلدی چھٹ جائے گی اور لوگ اپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھ جائیں گے ۔ |