قیام پاکستان کے بعد قوم نے جو سلوک دیگر قومی اثاثوں کے
ساتھ کیا ایسا ہی کچھ قومی زبان کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ترقی اور فروغ
کے لئے عملی اقدامات سے ہمیشہ گریز ہی کیا گیا ہے۔ اُردو کے فروغ سے متعلق
اداروں کے سربراہان کی تعیناتی بھی بسااوقات میرٹ پر نہیں کی جاتی۔ پھر بھی
ایسے اداروں کو بعض ایسے افسران اور دیگر عملہ میسر آتا رہا کہ وہ اپنے
تئیں اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ لیکن جب تک قومی
اور حکومتی سطح پر اس کے نفاذ کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی جاتی اس بابت پیش
رفت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی تاریخ میں کم از کم پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے
کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی چیف جسٹس نے اردو میں حلف اٹھایا ہے۔
سپریم کورٹ نے اردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے احکامات جاری کر رکھے
ہیں۔ جس کے بعد ادارہ مقتدرہ قومی زبان متحرک ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں
دارالترجمہ کے قیام کا آغاز ہو چکا ہے۔ نیب میں بھی اردو کو دفتری زبان کا
درجہ دینے پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ویب سائیٹ
پر انگریزی کے ساتھ اردو آپشنز دے دیئے گئے ہیں گویا اردو کا مقام بحال
کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے
حوالے سے حکمرانوں کے لئے بھی ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وہ اب بیرون ملک دوروں
کے دوران اپنی قومی زبان اردو میں خطاب کیا کریں گے۔
جناب چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے جس انداز سے قومی زبان کو اہمیت دی ہے اس
سے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے کیونکہ اس سے قبل تو یہی دیکھا
گیاہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کے جیسے جیسے عہدے بڑے ہوتے جاتے ہیں وہ مغرب اور
قومی زبانوں کے نہ صرف معترف ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ اپنی مادری اور قومی
زبان میں کیڑے نکالنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ وہ ذہنی
طور پر شکست خوردہ ہو کر مغرب اور مغربیت کی برتری تسلیم کر چکے ہوتے ہیں۔
حالانکہ اُنہیں اپنی زبان اور ادب کو کم تر اور بے حیثیت قرار دینے کی
بجائے اسے بہتر کرنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔
آج جب اپنی قومی زبان کی پذیرائی ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو اس موقع پر
مجاہد اردو ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری بہت یاد آ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے اُن
سے رابطہ نہیں تھا ۔لاہور میں مقیم اپنے ایک صحافتی ساتھی اور دیرینہ دوست
علی جاوید نقوی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری
چند برس ہوئے رحلت فرما چکے ہیں۔ مجھے بھی لاہور چھوڑے سولہواں سال ہے۔
راولپنڈی بیوروکریٹک شہر ہے جہاں بندہ نوکری اور گھر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
نوکری کے لانگ ہاوورز اس قابل نہیں چھوڑتے کہ کہیں اور جایا جائے۔ آفس سے
نکلتے ہی گھر کی راہ ناپتے ہیں کہ گھر وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پھر بھی بندے کی
کچھ نہ کچھ عزت باقی ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ گھر میں بھی انسان کی عزت
باقی نہ رہے تو پھر اﷲ سے رحم کی دعا کرنی چاہئے۔ ہماری قومی زبان اردو کے
ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ قائداعظم انگریزوں سے بہتر انگریزی
جانتے تھے لیکن انہوں نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا۔ بدقسمتی سے ان کے
بعد عنان حکومت بابو قسم کے بیوروکریٹوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ جو انگریزی
کے اتنے دلدادہ تھے کہ اردو زبان بے حیثیت ہو کر رہ گئی۔
ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لئے بہت
کاوش کی۔ انہوں نے مال روڈ پر اُردو زبان کی حمایت میں نکلنے والے ایک جلوس
میں انگریزی زبان میں لکھے گئے متعدد سائن بورڈ توڑ ڈالے اور ایک مرتبہ
لاہور ایئرپورٹ پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی گاڑی کے آگے آ
کر اسے روکنے کی کوشش کی تاکہ ان سے اردو زبان کی ترویج کے لئے بات کر
سکیں۔ اُن کی بھٹو سے تو ملاقات نہ ہو سکی بہرکیف لاہور ایئرپورٹ پر سی آئی
ڈی والوں کے ساتھ مجاہد اردو کا ایک لمبا دور چلا اور بڑی مشکل سے ان کی
خلاصی ہوئی۔ اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو مختصر مدت کے لئے صدر مملکت بنے
تو انہوں نے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے مین ہال میں ایک تقریب میں شرکت
کی۔ نواب غلام مصطفی کھر ان دنوں شاید گورنر تھے۔ بھٹو نے انگریزی زبان میں
تقریر شروع کی تو وہاں اس تقریب میں بھی ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری اٹھ کھڑے
ہوئے اور کہا کہ میں بہت اچھی طرح سے انگریزی بول سکتا ہوں اور سمجھ بھی
سکتا ہوں لیکن مجھے اردو زبان پر فخر ہے۔ لہٰذا آپ انگریزی کی بجائے اردو
میں تقریر کریں۔ تو بھٹو نے کہا کہ صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد شائد میں
پنجاب یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ تقریر کر رہا ہوں جس میں فارن میڈیابھی بڑی
تعداد میں موجود ہے لہٰذا انگریزی میں تقریر ضروری ہے۔ تو ڈاکٹر فضل الرحمن
لاہوری نے صدر مملکت کو بوجوہ اس کی اجازت دے دی۔ پنجاب یونیورسٹی والی
تقریب کے بعد سی آئی ڈی والوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری سے اچھے خاصے
’’مذاکرات‘‘ کئے اور انہیں آئندہ سے اس قسم کی حرکات سے باز آنے کی استدعا
کی۔ شاید اسی لئے اس تقریب کے بعد اُردو ادب کے بہت بڑے ادیب ڈاکٹر سید
عبداﷲ نے ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری کو ’’مجاہد اردو‘‘ کا خطاب دیا۔
مجاہد اردو ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری سر پر چاند ستارہ لگی ہوئی جناح کیپ
پہنے اپنی سائیکل جس کو وہ راکٹ کہا کرتے تھے ‘ ہر ادبی و صحافتی تقریب میں
پہنچ جایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ صدارتی انتخاب کے لئے کوشش کی لیکن
قرعہ فال جناب رفتق تارڑکے نام نکلا۔ مجاہد اُردو نے تو صدر مملکت بن جانے
کی صورت میں اپنی شیڈو کابینہ بھی بنا رکھی تھی۔ جس میں منو بھائی‘ عطاء
الحق قاسمی‘ امجد اسلام امجد اور طارق فاروق سمیت متعدد ادیب اُن کے وفاقی
وزرا ہوتے۔ راقم کو انہوں نے پریس سیکرٹری ٹو پریذیڈنٹ کے لئے نامزد کر
رکھا تھا۔ لیکن عرفان صدیقی زیادہ خوش نصیب نکلے کہ رفیق تارڑ صدر منتخب
ہوگئے وگرنہ مجاہد اردو کے انتخاب کی صورت میں راقم ایوان صدر میں بطور
پریس سیکرٹری موجود ہوتا۔ بہرکیف ان باتوں کا تذکرہ تو سرِ راہے آ گیا۔
درحقیقت مجاہد اردو ڈآکٹر فضل الرحمن لاہوری کے ان جذبات کو خراج تحسین پیش
کرنا تھا جووہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے رکھتے تھے۔
صرف پاکستان ہی نہیں پڑوسی ملک بھارت میں بھی اردو زبان کے شاعر وادیب اردو
کی محبت میں پیچھے نہیں ہیں۔ایک بھارتی اردو شاعر کی اردو کی محبت میں کہی
گئی ایک نظم جو سوشل میڈیا پر شرفِ قبولیت پاچکی ہے ملاحظہ ہو:
اُردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
میں میر ؔکی ہمراز ہوں غالب ؔکی سہیلی
دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا
سودؔا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغؔ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے میرا نام میں خسرؔو کی پہیلی
…………………………
غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالیؔ نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبالؔ نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا
مومن نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
اردو ہے میرا نام میں خسرؔو کی پہیلی
…………………………
ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے
چکبستؔ کی الفت نے میرے خواب سنوارے
فانیؔ نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر ؔنے سجائی میری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی |