تحریر: راجہ حسن اختر
ضلع جہلم کی جی ٹی روڈ دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ بہت ترقی یافتہ
علاقہ ہے۔ حکومتی رائے بھی تقریباً یہی ہے۔ حالانکہ اگر جہلم کے اندرونی
علاقوں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پنجاب کا سب سے پسماندہ
علاقہ ہے۔ اس پس ماندگی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ جغرافیائی ہیں اور کچھ
سیاسی بھی ہیں۔ اس بحث کو پس پشت ڈالتے ہوئے میں صرف چند ایک ایونٹس پر
روشنی ڈالوں گا اور انہی پر بحث کروں گا۔
جلالپور نہر: دریائے جہلم کشمیر سے نکل کر منگلا سے ذرا نیچے ضلع جہلم میں
داخل ہوتا ہے۔ اور کافی لمبا فاصلہ طے کر کے دریائے چناب میں نل جاتا ہے۔
دریائے جہلم سے دو نہریں اپرجہلم اور لوئر جہلم کینال نکالی گئی ہیں جو کہ
گجرات (کچھ حصہ) منڈی بہاؤالدین اور سرگودھا کو سیراب کرتی ہیں لیکن ضلع
جہلم اس دریائے کے پانی سے محروم ہے۔ 1898 کے لگ بھگ جلالپور نہر کی پلاننگ
کی گئی۔ اس وقت پچاس ہزار ایکڑ رقبہ سیراب کرنے کے لئے یہ پلاننگ کی گئی
تھی جس کا کل تخمینہ پانچ لاکھ پچیس ہزار لگایا گیا اسی زمانہ میں ضلع جہلم
میں شدید قحط پڑا۔ برٹش گورنمنٹ نے فوری طور پر ترقیاتی کام شروع کر دیئے
تاکہ قحط زدہ لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔ دوسرے پراجیکٹ کے علاوہ بڑا
پروجیکٹ جلالپور نہر کی کھدائی تھی دو قحط نائب تحصیلدار بھرتی کئے گئے۔ جن
کی تعداد تقریباً تین ہزار تھی۔ مزدوری ایک آنہ پائی فی کس مقرر ہوئی لیکن
1900 میں ہیضہ کی وبا پھٹ پڑنے پر مزید کام روک دیا گیا۔ کل لاگت 26592روپے
جلالپور نہر کی کھدائی پر آئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس نہر سے متعلق وعدے
تو ہوتے رہے لیکن عملی کام نہیں ہوا۔ جب پرانا رسول بیراج دریائے جہلم پر
تعمیر ہوا تو جہلم والی سائیڈ پر اس نہر کے لئے جگہ رکھی گئی۔ نئے رسول
بیراج پر بھی مجوزہ نہر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جگہ رکھی گئی۔ 1970 میں اس
وقت کے MPA راجہ سکندر خان مرحوم نے نہر کے مسئلے کو پوری شد ومد سے
اٹھایا۔ یہی وجہ ہے آزاد ممبر سلیکٹ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل
ہوئے۔ مرحوم بھٹو صاحب نے بھی اپنے جلسوں میں جلالپور نہرے بنانے کا علان
کیا لیکن عملی طورپر کوئی کام نہ ہوا۔ اب سنا ہے کہ فضائی سروے بھی کیا گیا
ہے ،یہ نہر لازمی بننے چاہئے۔ اس سے لاکھوں ایکڑ زمین آباد اور سیراب ہو
گی۔ اس نہر کے ضلع خوشاب تک وسعت دی جائے۔ اس نہر کے لئے بیراج بنانے کی
بھی ضرورت نہیں ہے نئے رسول بیراج میں اس کے لئے جگہ نام زد ہے۔ نہر کو
پانی پنجاب کے کوٹہ سے ہی دیا جائے۔ مجوزہ نہر کے کمانڈ ایریا میں زیادہ تر
علاقوں کا پانی کھارا ہے۔ اس لئے ان علاقوں میں جہاں پانی میٹھا ہے پانی
مقدار کم کر کے اس نہر کو پانی سپلائی کیا جائے۔ جلالپور نہرے کو تعمیر کر
کے ضلع جہلم کے لوگوں کی ایک صدی سے بھی زائد حق تلفی کا ازالہ کیا جائے۔
کھیوڑہ: کھیوڑہ سے تمام پاکستان کو نمک سپلائی ہوتا ہے۔ بقول میجر ضمیر
جعفری مرحوم پورا پاکستان ہی جہلم کا نمک خور ہے۔ میں تھوڑا تاریخی پس منظر
پر روشنی ڈالوں گا۔ کھیوڑہ سے صدیوں سے نمک نکالا جا رہا ہے۔ اکبر نامہ میں
ابوالفضل نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ کھیوڑہ سالٹ مائنز جنجوعہ راجاؤں کی
صدیوں تک ملکیت رہیں۔ 1809-10 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بہ نفس نفیس ضلع
جہلم میں قلعہ کسک کا محاصرہ کیا۔ مہاراجہ انتہائی طاقت کے باوجود چھ ماہ
تک قلعہ فتح نہ کر سکا۔ بالآخر قلعہ میں پانی ختم ہونے پر جنجوعہ راجہ
سلطان فتح محمد خان نے قلعہ خالی کر دیا۔ قلعہ کسک پر قبضہ ہوتے ہی مہاراجہ
نے کھیوڑہ سالٹ مائنز پر بھی قبضہ کر لیا جو مفتوح راجہ کی ملکیت تھیں۔
مہاراجہ نے اس کو ذاتی ملکیت قرار دیا۔ انگریزوں کے زمانہ میں مہاراجہ دلیپ
سنگھ نے دعویٰ دائر کیا کہ یہ مائنز ان کی ذاتی ملکیت ہیں۔ لیکن برٹش سرکار
نے یہ دعویٰ رد کر دیا۔ ایشیا تک سوسائٹی آف بنگال کے جرنل کے مطابق 1832
میں مہاراجہ کو ان مائنز سے سالانہ سولہ لاکھ روپے کی آمدنی ملتی تھی۔
(ملکیت سے)اڑھائی لاکھ روپے ڈیوٹی اس کے علاوہ تھی۔ برٹش گورنمنٹ کو
1862-63 میں 303,31,568 کی آمدنی تھی۔ جو کہ 1902-3میں بڑھ کر 65,13,769
روپے ہو گئی۔ اب جدید ترین کانکنی کی بدولت آمدنی اربوں میں ہے۔ اگر آئی سی
آئی کے کیمیکل کے کارخانہ کی آمدن کو بھی شامل کیا جائے تو آمدن کئی ارب سے
تجاوز کر جاتی ہے۔ افسوس کہ اس آمدنی سے ضلع جہلم کو ایک ٹکہ نہیں ملتا۔ جس
طرح شوگر ملز ایریا میں فنڈ کی آمدنی سے سڑکوں کی بہتری ہوئی ہے۔ اسی طرح
سالٹ مائنز کی آمدنی کا کچھ حصہ ضلع جہلم کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے۔
نمک کے ان پہاڑوں کی وجہ سے ضلع جہلم کے بہت سے علاقہ جات برباد ہو گئے
ہیں۔ پورے علاقہ کو ان پہاڑوں کی وجہ سے شدید نقصان ہوا ہے۔ سالٹ مائنز کی
کچھ آمدنی ضلع جہلم پر خرچ کر کے اور ڈویلپمنٹ کر کے اس نقصان کی کسی حد تک
تلافی کی جا سکتی ہے۔
آج کل شدید گرمی میں ہر آدمی مری کی طرف دوڑتا ہے۔ وہاں بعض اوقات اتنا رش
ہو جاتا ہے کہ ٹریفک بالکل جام ہو جاتا ہے۔ پچھلی عید پر پولیس کو مری آنے
پر پابندی لگانی پڑی۔ اس کا حل یہی ہے کہ جن اضلاع میں کوئی صحت افزا مقام
ہے ان کو ترقی دی جائے۔ مثلاً ڈیرہ غازیخان میں فورٹ نہرو جہلم میں ٹلہ
جوگیاں۔۔۔ٹلہ جوگیاں سطح سمندر سے 3200فٹ بلند پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ جوگی فرقہ
کا قدیم ایام سے صدر مقام رہا ہے۔ نہایت پرفضا جگہ ہے۔ شدید گرمی میں بھی
رات کو رضائی لے کر سونا پڑتا ہے۔ انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر جہلم کے دفاتر
گرمیوں میں یہاں منتقل ہو جاتا کرتے تھے۔ اس مقام کو آسانی سے صحت افزا
مقام کے طور پر ترقی دی جا سکتی ہے۔ ڈھوک بدر سائیڈ سے کوئلہ مائن اونر کی
تعمیر کردہ سڑک کو معمولی ردوبدل کے بعد بہتر کیا جا سکتا ہے۔ بیٹھ کی طرف
بھی سڑک بنائی جا سکتی ہے۔ روہتاس کی طرف سے قدیم خچر روڈ کو بہتر بنا کر
استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
جوگیوں کے زمانے میں ایک دو ریسٹ ہاؤس اور پانی کے بڑے بڑے تالاب تھے جن کو
پینے کے پانی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جوگیوں کے چلے جانے کی وجہ سے
لاپروائی سے آہستہ آہستہ یہ سب برباد ہو گئے۔ ان پرانے تالابوں کو مرمت کر
کے پانی سٹور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ نیچے سے پانی پمپ کر کے
اوپر لے جایا جائے۔ اچھے ہوٹل بنانے کے لئے جگہ بھی لیز پر دی جائے۔ پلاٹوں
کی آپشن سے گورنمنٹ کو بے پناہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس آمدنی سے اس جگہ کو
ایک بہترین تفریحی مقام کے پرڈویلپمنٹ کیا جا سکتا ہے۔ ٹلہ کی چوٹی پر سارا
دن ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتی ہیں وہاں پر ونڈملز لگا کر پورے جہلم کو
سستی بجلی مہیا کی جا سکتی ہے۔ اسی پہاڑی رینج پر ٹلہ سے آگے چھمب اسمبلی‘
تھب وغیرہ میلوں پھیلی ہوئی پہاڑی چوٹیوں پر ونڈ ملز لگا کر بجلی پیدا کی
جا سکتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ٹلہ کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ البتہ نوابزادہ
اقبال مہدی جب وہ وزیرجنگلات تھے کے دور میں کچھ ترقیاتی کام ہوئے۔ ہیز
لگائی گئی جنگلی جانور چھو ڑ کر قدرتی خوبصورتی میں اضافہ کی کوشش کی گئی
کچھ شجرکاری بھی کی گئی اس کے بعد پھر سے پہلی جیسی صورت حال ہو گئی۔ ہماری
پالیسیوں میں استقلال اور تسلسل نہیں ہے۔
اچھی پلاننگ کر کے ٹلہ جوگیاں کو خوبصورت صحت افزا مقام بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے لئے چند باتوں مثلاً زبردست پلاٹیشن تاکہ پرانی قدرتی خوبصورتی بحال
ہو۔ پانی کا انتظام‘ بجلی اور رہائش کے لئے اچھے اور سستے ہوٹل نیز ٹلہ تک
رسائی کے لئے اچھی روڈز ک ہونا لازمی ہے۔
اچھی سڑکیں کسی بھی علاقہ کی ترقی کے لئے بنیادی شرط ہیں۔ ٹلہ انٹرچینج تا
مصری موڑ (رسول بیراج) ڈبل روڈ بن رہی ہے۔ اس کو جہلم تک آگے بڑھایا جائے۔
پدھری تا جلالپور براستہ حنوٹ کنگر (کوتل کنڈ) دھرمک ڈھوک شمار کھائر (پنڈ
سوکہ) وگھ نگیال سڑک بنائی جائے۔ اس سڑک کی زبردست دفاعی اہمیت ہے۔ جس کی
تفصیل کا یہ موقع محل نہیں ہے۔ خادم پنجاب دیہی روڈ پروگرام کے تحت اگلے
تین سالہ میں اس روڈ کو لازمی شامل کیا جائے۔
پنڈی آور لاہور کے درمیان مرکزی شہر ہونے کی وجہ سے یہ مناسب ہو گا کہ جہلم
میں میڈیکل کالج بنایا جائے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کو توسیع دے کر اس کا
کالج کے ہسپتال کے طور پر استعمال کیا جائے۔ پنڈدانخان میں انجینئرنگ کالج
جس میں بنیادی کیمیکل انجینئرنگ اور مائننگ انجینئرنگ ہوں بنایا جائے۔ نمک
پر ٹیکس لگا کر یا لگے ہوئے ٹیکسوں سے کچھ حصہ نکال کر ان کالجز کو چلایا
جائے۔
یہ تو ایک عام آدمی کی خواہش اور آواز ہے۔بلکہ عوام الناس کی آواز ہے۔ امید
ہے کہ عوامی نمائندے بھی اس بارے میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اسمبلیوں میں
آواز بلند کریں گے تاکہ ضلع جہلم کے عوام بھی اپنے نمائندوں پرفخر کر سکیں۔
ضلع جہلم کی پسماندگی میں کمی آئے اور عوام کے لئے سہولتیں اور آسانیاں
پیدا ہوں۔ |