حصول انصاف اس قدر نا ممکن بات بن چکی ہے
جیسے دن میں تارئے پکڑنا ہمارئے ہاں تھانوں،چوکیوں جملہ پولیس سٹیشنوں نے
اس قدر ترقی کر لی ہے پولیس سٹیشن غنڈہ گردی کی تربیتی مراکز بن چکے ہیں
جہاں قانون ایک لونڈی کی ماند ہے ایک مظلوم جب حصول انصاف کے لیے پولیس
سٹیشن جاتا ہے وہاں ہر دو فریقین کو پولیس اس طرح دیکھتی ہے جس طرح قصاب
بکرئے کو زبح کرنے سے پہلے دیکھتا ہے اس میں کتنا گوشت ملے گا اس ابتدائی
ناپ تول کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کام صرف درخواست سے چل جائے گا یا ایف
آئی آر تک نوبت آئے گئی یوں ہر دو فریقین کو اس قدر مجبور کیا جاتا ہے وہ
اپنے جیب سے کچھ نہ کچھ نکالنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں یہ سلسلہ چلتے چلتے اس
حد تک گھمبیر صورتحال اختیار کر لیتا ہے درخواست گزار کو مجبورا سلنڈر ہونا
پڑھ جاتا ہے بلاآخر نوبت یہاں تک آجاتی ہے پولیس جوان خود ہی گھول مول
باہمی جرگہ داری کے بعد خالی جیب ظالم و مظلوم کو واپس کر دیتے ہیں پولیس
سٹیشن ایک ایسی دوکان ہے جہاں تمام مکاتب فکر کے افراد کے تعلقات ہوتے ہیں
وزراء سے لے کر جرائم پیشہ افراد کا بالخصوص رابطہ رہتا ہے جرائم کے وائرس
کو بڑھوتری انہی مقامات سے ہوتی ہے ان دوکانوں میں بیٹھے افراد کے تعلقات
وہاں تک ہوتے ہیں جہاں مظلوموں کی سوچ تک نہیں ہوتی یوں اس حوالہ سے بھی
زبح خانے مضبوط ہوتے ہیں ان کو وی آئی پیز برائے راست فون پہ ہدائت دیتے
رہتے ہیں کہ ابھی جو سر کھلوا کر آیا ہے اس کی طرف سے ایف آئی آر نہیں درج
کرنی اور اسی آڑ میں وہ مزید درجنوں کام غیر قانونی کرتے ہیں چونکہ وزراء
کی اشیر باد حاصل ہونے کی وجہ سے دوکاندار کو مزید تقویت مل چکی ہوتی ہے
منشیات کے عادی ،جرائم پیشہ افراد کے تعلقات کی وجہ سے ایک با عزت شہری اس
جانب رخ کرنے میں کتراتا رہتا ہے جبکہ پولیس آئے روز چند لوگوں کو جو
معاشرئے کے اندر ایک نا سور اور حکام کے سامنے مظلوم و سادہ لوح ہوتے ہیں
کو استعمال کرتے ہوئے باعزت شہریوں کو تھانوں تک پہنچا دیتے ہیں عموما ان
میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی خواتین کو استعمال کرتے ہیں ایسی خواتین
جن کے چہرئے سے حیا کا جھومر اتر چکا ہو وہ بیوگی اور بے چارگی کا لبادہ
اڑئے شرفاء کا جینا حرام کر دیتی ہیں حالانکہ ان کے جوان بچے جو شادی شدہ
اور بر سر روزگار ہوتے ہیں ۔مگر کچھ درد دل رکھنے والے لوگ ان کے مکر و
فریب میں آکر ان کی اعلانیہ حمایت کرتے ہیں حالانکہ پردئے کے پیچھے ایک
مظلوم نہیں ایک ظالم عورت چھپی ہوتی ہے اور پولیس کے یہی خاص ہتھیار ہوتے
ہیں جو شریف النفس ،باعزت شہریوں کی پگڑیاں اچھالنے میں معاونت کرتے ہیں یہ
بظاہر سادہ اور مظلوم بیواہ خواتین ہر محلے گاؤں میں موجود ہوتی ہیں مگر
شرم حیا کی جو پیکر ہوں وہ شوہر کے وفات کے بعد ان کی صالح اولاد کفیل بن
جاتی ہے مگر چند خواتین ایسی بھی ہیں جو خاوند کے وصال کے بعد ایک باغی
عورت کے طور پہ سامنے آتی ہے شرم و حیا کا جھومر ماتھے سے اتر جاتا ہے وہ
وڈیروں ،نمبرداروں ،جرگہ داروں ،تھانوں کے لیے بطور خاص مہرئے کے طور پہ
کام کرتی ہیں پولیس کے پاس اس سے بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہوتا جس سے شرفاء کو
سر عام بے عزت کر دیا جاتا ہے اس کھلی لاقانونیت میں جہاں وڈیروں ،سیاستدانوں
کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے وہاں ہم اہل قلم بھی تیل دیکھو تیل کی دھار
دیکھو کے فارمولے پہ گامزن ہو جاتے ہیں کبھی ہمارئے سامنے زاتی تعلقات
آجاتے ہیں کبھی پارٹی کبھی رشتہ دراری آجاتی ہے سچائی پہ لکھنے کی جسارت
کرتے ہیں تو تعلقات خراب ہونے کا اندشہ لگا رہتا ہے ستم بالائے ستم حق و سچ
کی ٹھان ہی لیں تو وہ سچائی شائع ہونے سے رہ جاتی ہے۔(جاری ہے) |