ان کہی چاہت
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
ابو!ابو!ابو!ابو!ابو! و ہ دیکھیں
فوجی جا رہے ہیں! کتنی پیاری وردی ہے نااُنکی ابو!
میں تب ننھی سی بچی تھی اور لاشعوری طور پر فوجیوں سے محبت کرنا شروع ہوچکی
تھی۔میں نے چھوٹی عمر سے ہی ملک کے دفاع کے لئے اپنی جان لوٹانے والوں سے
اپنی دلی وابستگی قائم کر لی تھی اور جہاں بھی میں فوجی افراد کو دیکھا کر
تی تھی تو بڑی محو ہو کر انکو دیکھا کرتی تھی۔تب مجھے قطعی خبر نہیں تھی کہ
میری آنے والی زندگی میں بھی کسی فوج سے تعلق رکھنے والے کا بہت زیادہ عمل
ہو جائے گا اور میرا سکھ چین ہی ختم ہو کر رہ جائے گا۔
میں عام بچوں کی طرح کارٹونز وغیرہ نہیں دیکھا کرتی تھی۔ میں نے اپنے بچپن
کا سارا وقت فوجی کھلونوں سے کھیلتے اور ان پر مبنی دستاویزی فلموں کو
دیکھتے ہی گذارا تھا اور میں اکثر خوابوں میں خود کو فوجی بنا کر بہت سے
کارنامے سرانجام دیا کرتی تھی اور شعور میں آتے ہی میرے خوابوں میں بھی
سہانے سپنے آنے لگے تھے۔میں گھر پرآس پڑوس کے آنے والے بچوں کو بھی نشان
حیدر حاصل کرنے والے قومی ہیروز کی داستان اکثر سنایا کر تی تھی۔
میں نے اپنی تعلیم بھی آرمی کے اسکولز میں حاصل کرنی شروع کی اور کالج تک
آگئی اور بڑھ چڑھ کر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتی تھی جن سے حب الوطنی
جھلکتی تھی۔ایک دن میں کالج سے گھر واپس آئی تو ہمارے گھر امی کے دور کے
رشتے دار شازیہ خالہ وغیرہ آئے ہوئے تھے۔ یہ دراصل ہمارے گھر اس لئے آگئے
تھے کہ انکے بیٹے کی جو کہ آرمی میں بطور کپیٹن تھا کی ٹرانسفر ہمارے ہی
شہر میں ہوئی تھی اور یہاں ہم بھی تھے تو وہ بطور خاص ہم سے ملنے آئے
تھے۔میں بھی وہاں کچھ دیر کے لئے انکے پاس گئی تھی اور واپس آگئی تھی مگر
میں وہاں جاتے ہیں شازیہ خالہ کے بیٹے جس کا نام سلمان سکندر مجھے اُنکے
جانے کے بعد ہی معلوم ہوا تھا ۔اس نے مجھے اپنی پہلی نظر میں ہی محبت میں
گرفتار کروا لیا تھا اور اپنا دل اسکی وجاہت اور سادگی اور دلفریب مسکراہٹ
جو میرے اُس کو سلام کرنے کے بعدنمودار ہوئی تھی پر ہار چکی تھی۔
اسکے بعد میری محض دور سے اُس کو دیکھنے کی خواہش پوری ہو سکی مگر میں چاہ
کر بھی اس تک اپنی محبت کے بارے میں آگاہ نہیں کر سکی ہوں کہ خاموشی سے کسی
کو چاہنے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے اور میں کچھ ڈری ہو ئی بھی ہوں کہ میری
محبت کا جواب مثبت نہ ہوا تو کیا ہوگا ۔اس سے تو اچھا ہے کہ خاموشی سے یوں
ہی محبت کرتی چلی جاؤں مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوئی جا رہی ہوں کہ اپنی
محبت کا اظہار کر دوں۔ لیکن اس سے ملاقات ہونا بھی تو دشوار ہے او رکہنا تو
مشکل عمل ہے ۔ہمارے ہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لڑکی اپنے جذبات کا اظہار
کرے۔جب وہ اظہار کر لیتی ہے تو بہت سے مسائل کا بھی شکار ہو جاتی ہے اور
گھروالوں سے بے عزتی تک ہو جاتی ہے پتا نہیں کیوں ہم لڑکیوں کو اپنی
پسندیدگی کی بھاری بھرکم قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ہمارے گھر والے بھی اکثر
ہمیں قصور وار جانتے ہیں اور کبھی کبھی ہم ایسے فرد کو اپنی محبت سونپ دیتی
ہیں جو ہمارے ہی ارمانوں کا قتل کر دیتا ہے اور کبھی ہمارے والدین بھی اپنی
ذاتی انا اور ضد کی وجہ ہماری محبت کو ہم سے دور کر دیتے ہیں۔ تب ہی میں
اکثر یہی سوچتی ہو ں کہ یوں ہی چپ رکھ کر محبت کرتی رہوں مگر ایک تشنگی سی
ہے کہ اُسے معلوم ہو جائے اور مجھے میری محبت مل جائے ۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت مرتبہ ایسا دیکھا ہے جہاں دو پیار کرنے والے بے
پناہ محبت رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کو دکھ درد میں مبتلا کرتے رہتے ہیں
کہیں وہ محبت کے ہاتھوں سب کچھ گنوا دیتے ہیں اور کبھی وہ مخلص رہ کر زندگی
بھر خوشی ایک دوسرے کا ساتھ دے کر محبت حاصل کرکے رہتے ہیں۔محبت جہاں بھی
سچی ہو وہ ضروری ملتی ہے مگر اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس لئے میں چاہتی
ہوں کہ میرے دل کی بات سلمان سکندر تک پہنچ جائے اور میں ذہنی طور پر ُسکون
سی ہو جاؤں۔ ابھی میرا تو یہ حال ہے کہ میں دن میں کئی دفعہ اُسکے ہی
خیالوں میں کھو سی جاتی ہو ابھی تک تو میرے گھروالوں نے میری چور ی نہیں
پکڑ ی ہے مگر وہ کہتے ہیں نا عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے ہیں تو کچھ
اُلجھن میں مبتلا ہوں اور پڑھائی کو بھی بے دلی سے کر رہی ہوں کہ ابھی
کتابوں میں دل لگ ہی کہاں رہا ہے۔
میں نے سنا ہوا ہے کہ محبت روشنی کی مانند ہے جو ہماری زندگی کو اندھیرے سے
روشنی کی جانب لاتی ہے ۔یہ محبت ہی ہے جو ہمیں زندگی میں کچھ کرکے دکھانے
پر مجبور کرتی ہے۔محبت ہم سے وہ کچھ بعض اوقات کرواتی ہے جس کے بارے میں
خواب وخیال میں بھی ہم نے سوچا نہیں ہوتاہے۔ہماری زندگیوں میں سچی اور بے
غرض محبت کی بڑی اہمیت ہے یہ علم کی مانند وہ دولت ہے جس کو ہم سے کوئی چرا
نہیں سکتاہے۔اور یہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شدید سے شدید تر ہوتی چلی جاتی
ہے۔ اور بعض اوقات بہت زیادہ محبت کرنے والے حالات کی وجہ سے یا دیگر عوامل
کی بناء پر ایک دوسرے سے محبت سے زیادہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔بہرحال محبت کی
دولت جس کے پاس ہوتی ہے اس کے لئے دنیاوی مال ودولت کوئی معنی نہیں رکھتا
ہے۔اور اسی کے سہارے زندگی کو ہنسی خوشی گذارہ جاسکتاہے کہ کوئی تو ہے جس
سے ہمیں یا اسے ہم سے محبت رہی ہے۔اور میں بھی سلمان سکندر سے محبت رکھ کر
اب شاید کچھ ایسی ہی سوچ کی حامل بن گئی ہوں۔مگر مجھے ابھی تک سمجھ میں
نہیں آیا ہے تو اس تحریر کے زریعے آپ سے مشورہ لینا چاہ رہی ہوں کہ میں کیا
کروں،ہو سکتا ہے کہ آپ کا مشورہ میری زندگی میں مزید رنگ بھر سکتا ہے اس کے
لئے میں آپ کی منتظر رہوں گی۔ |
|