زمانہ جا ہلیت میں جہاں عرب کے
معاشرے میں اور بہت سی قباحتیں تھی وہاں ایک قباحت یہ بھی تھی کہ لوگ اپنی
بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔یہ لوگ بچی کے ہا تھ میں مٹھائی کا ٹکرا
اورگڑیا تھما کر اس کو قبر میں بٹھا دیتے ۔بچی اس کو کھیل سمجھتی اور قبر
میں گڑیا اور مٹھائی کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگتی ۔یہ لو گ اس معصوم پر مٹی
ڈالنا شر وع کر دیتے ۔ قبر میں بیٹھی مٹھائی اور گڑیا سے کھیلتی معصوم بچی
شروع میں اس کو بھی کھیل سمجھتی لیکن جب مٹی اس کی گر دن تک پہنچ جاتی تو
وہ گھبرا کر اپنی ماں کو آواز دیتی ،چیختی چلاتی منتیں کرتی لیکن ظالم باپ
اس بچی کو زندہ دفن کر دیتا ۔اس قبیح فعل کے بعد جب وہ گھر آتا تو اس بچی
کی چیخیں گھر تک اس کا پیچھا کر تیں ،لیکن ان ظالموں کے دلو ں پر تا لے
پڑئے ہوئے تھے جو نرم نہیں ہوتے تھے۔
بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ قبیح گناہ سر زد کر
چکے تھے انھی میں سے ایک صحابی ؓنے اسلام قبول کرنے کے بعدرحمت عالم حضرت
محمد ﷺ کو اپنا واقعہ سنایا کے جب وہ اپنی بیٹی کی انگلی پکڑکر دفنانے لے
جا رہا تھاتو وہ میرے ساتھ جانے کی وجہ سے اتنی خوش تھی کہ اس معصوم کی
آنکھوں سے خوشی سے چمک رہی تھیں۔وہ سارا راستہ مجھ سے خوشی خوشی اپنی توتلی
زبان میں باتیں کر تی رہی۔میں سارا راستہ اس کو اور اس کی فرمائشوں کو
بہلاتا رہا ۔میں اسے لے کر قبرستان پہنچ گیا اور اس کے لیے قبر کی جگہ
منتخب کی ۔میں نے اس معصوم کو نیچے زمین پر بیٹھایا اور اپنیہاتھوں سے زمین
کھودنے لگا۔میری بیٹی مجھے کام کرتے دیکھاتو خود بھی میرے ساتھ کام میں لگ
گئی اوروہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی۔ہم دونوں باپ بیٹی زمین
کھودتے رہے ۔میں نے صاف کپڑے پہن رکھے تھے۔زمین کھودتے ہوئے جب مٹی میرے
کپڑوں پر لگ جاتی تو میری بیٹی فوراً آکر میرے کپڑے اپنے معصوم معصوم اور
چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صاف کرتی اور پیار و محبت سے ایسے دیکھتی جیسے اسے
دنیا کی سب سے بڑی سعادت نصیب ہو گئی ہو۔
قبر تیار ہوئی تو میں نے اس میں اس کو بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنی شروع کر
دی ۔یہ معصوم بھی میرا ہاتھ بٹانے کے لیے اپنے اوپر اپنے معصوم معصوم اور
نرم نرم ہاتھوں سے مٹی ڈالنے لگی ۔وہ مٹی ڈالتی جاتی تھی اور قہقہ لگاتی
جاتی اور ساتھ ساتھ مجھ سے فرمائش کرتی جاتی تھی ۔لیکن میں دل ہی دل میں
جھو ٹے خداوں سے دعا کر رہا تھا کے وہ مجھے بیٹا دیں ۔میں دعا کر تا رہا
اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی ۔میں نے آخر جب اس کے سرپر مٹی ڈالنی شروع
کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سے دیکھا اور کہا۔
ْؔاباآپ پر میری جان قربان ،آپ مجھے کیو ں دفن کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں سے تیزی سے قبر پر مٹی ہی
پھینکنے لگا ۔میر ی بیٹی روتی رہی ،چیختی رہی ،دہائیاں دیتی رہی لیکن میں
نے اس کو قبرمیں زندہ دفن کر دیا۔
یہ وہ نقطہ تھا جہا ں رحمت للعالمینﷺ کا ضبط بھی جواب دے گیا،اور آپ ﷺکی
ہچکیاں بندھ گئیں،داڑھی مبارک آنسووؤں سے تر ہو گئی ۔اور آواز مبارک حلق
میں گولا بن کر پھسنے لگی ،وہ شخص دھاڑیں مارمار کر رورہا تھا اور آپ ﷺ
ہچکیاں لے رہے تھے۔
زمانہ جاہلیت میں اولاد خاص کر بچیوں کو معصومیت کے دور میں ہی قتل کردینے
کی مختلف وجوہات تھیں جن میں سے ایک وجہ مفلسی کا ڈر ،شان و شوکت اور عزت و
آبرو پر آنچ آنا بھی تھی مگر قربان جائیں اس ذات عظیم ﷺپر کہ جنھوں نے نہ
صرف اس رسم کو ختم کیا بل کہ ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن کو پڑھ کر
آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی اور زبان گنگ رہ جاتی ہے انھی میں سے ایک
واقعہ قارئین و قاریات کی نظر کرنا چاہتا ہوں :
حاتم تائی کی بیٹی گرفتار کر کے لائی گئی ۔۔۔سرکار دو عالم ﷺ کندھے پر سیاہ
چادر لٹکائے بیٹھے تھے ،جوں ہی حاتم طائی کی بیٹی احاطہ میں داخل ہوئی کسی
نے آواز بلند کہا ’’دختر حاتم طائی‘‘۔۔۔جھٹ سے حضور ﷺ اٹھے،کندھے سے چادر
گھسیٹ کر کھینچی ،مٹی پر وہ چادر بچھا کر حاتم طائی کی بیٹی کو بیٹھنے کا
کہا اور خوددور ہٹ گئے ۔۔۔سب حیران کہ عیسائی کی بیٹی اور اتنی تعظیم
؟۔۔۔اس مقام پر کہ کہ جہاں گردنیں اترتی ہوں عزتیں اچھلتی ہوں وہاں اک بے
دیار عورت کو اتنی تعظیم ملی کہ الٹے پاؤں واپس دوڑی اور اپنے بھائی عدی بن
حاتم کو پکڑ کر ساتھ لائی اور کہا۔۔۔کلمہ پڑھوائیے اور مسلمان ہو گئے۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ زمانہ جاہلیت میں اولاد خصوصاً بچیوں کی
وجہ سے کتنی مفلسی والدین پر آتی تھی ، کتنی شان و شوکت کم ہوتی تھی اور
کتنی عزت و آبرو پر آنچ آتی تھی مگر مجھے یہ کہتے ہوئے نہایت شرمندگی ہو
رہی ہے کہ وہ نبی کہ جس نے عورت کو عزت وآبرو دی آج اسی کی امت اپنی بہن
،بیٹیوں اور ماؤں کو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے بدنام کر کے زندگی اجیرن
بنا رہی ہے موجودہ دور میں شاذو نادر ہی ایسے حادثات سامنے آئے ہیں کہ جن
میں والدین نے عزت و آبرو پر آنچ آنے کے خوف سے بیٹیوں کو زندہ درگور کیا
ہو مگر ایسے بے شمار حادثات سامنے آئے ہیں جن میں کسی ماں کسی بیٹی اور کسی
بہن نے موت کو گلے صرف اس لیے لگایا کہ اس کی وجہ سے والدین کی عزت و آبرو
میں آنچ آنا قریب تھی ۔۔۔۔۔کسی نے طلاق کی صورت میں موت کو گلے لگایا تو
کسی نے بلیک میلنگ کی وجہ سے موت سے پناہ مانگی کسی نے آوارہ لڑکوں کی وجہ
سے عزت تار تار ہونے پر موت کو گلے لگایا تو کسی نے انصاف نہ ملنے پر موت
کو گلے لگایا ،کسی نے معاشرے میں قد کاٹھ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں تار
تار ہوکرخودکشی کی تو کسی نے بوجھ سمجھ کر دنیا سے چھٹکارہ حاصل کیا ۔غرض
اس امت کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں نے والدین اور خاندا ن کی عزت و آبرو پر
آنچ نہ آنے کی خاطر اپنی عزیز ترین شے زندگی سے چھٹکارا حاصل کیا ۔
کتنے افسوس اور کتنے شرم کا مقام ہے کہ اس امت کا اخلاق بنانے اور اس امت
کو دوسروں کے لیے اخلاق کا عمدہ نمونہ بنانے کی خاطر رحمت عالم ﷺ نے کتنی
تکالیف برداشت کیں اس امت کو اعلیٰ ترین امت بنایا اور دوسروں سے الگ تھلگ
کیا مگر اس امت کی بے وفائی تو دیکھیں کہ یہ امت اخلاق سے اتنی گر چکی ہے
کہ غیر اسلامی اطوار اپنا کر فخر محسوس کرتی ہے ۔ اخلاقی پستی کا اس سے بڑا
نمونہ اور کیا ہوگا کہ اس امت کے ایک طالب علم نے جب اپنی کلاس فیلو سے
پیار و محبت کا گندا کھیل کھیلنا چاہا تو ناکامی پر نہ صرف خود اس نے خود
کشی کر لی بل کہ اس لڑکی کو بھی گولیاں مار کر والدین کے لیے ایک داغ بن کر
اس دنیا سے رخصت ہوا ان والدین کے لیے کہ جنھوں نے اس کی پرورش کے سولہ سال
نہایت تکلیف میں گزارے اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر اس کے لیے آسانی
پیدا کرنے کی تگ و دو کی ۔اخلاق کی پستیوں کو چھوتی ہوئی یہ ایک داستان
نہیں ہے بل کہ آئے دن ایک نہ ایک قصہ ایسا ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس
طرح قیامت والے دن حضور ﷺ کا سامنا ہوگا جب کہ ہمارے اخلاق ایسے ہیں کہ
اپنے گریبان میں جھانکیں تو خود سے نفرت ہوتی ہے ۔اپنے اعلیٰ ترین افکار کی
کتنی تقلیدکی یہ جب سوچیں توشرمندگی ہی شرمندگی ہوتی ہے۔
قصور وار کس کو ٹھہرایا جائے ؟حکومت کو،میڈیا کو ، والدین کو ، عزیز و
اقارب اور دوستوں کو ، مجرموں کو یا پھر متاثرین کو ۔سوال تو بہت پیچیدہ ہے
مگر جواب نہایت سادہ ہے ، ہر کوئی اپنا احتساب کرے او ریہ سوچے کہ اس نے اس
معاشرتی بے راہ روی سے نجات پانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کتنی کوشش کی
۔یاد رہے کہ یہ وہ آگ ہے جو ہمارے آس پاس لگی ہے جس سے ہم اپنے آپ کو محفوظ
سمجھ رہے ہیں اس آگ کا سد باب نہ کیا تو یہ پھیلتے ہوئے ایک دن ہمیں بھسم
کر دے گی اس آگ سے صرف خود کو نہیں بچانا ہے بل کہ دوسروں کو بھی بچانے کے
لیے کوشش کرنی ہے ۔اگر تو کوشش جاری ہے تو یقینا اﷲ ہی اس کا اجر دے سکتا
ہے اور وہ دے گا بھی اور اگر کوشش نہیں کی تو وقت ابھی ہاتھ سے نہیں نکلا
ہے۔ ابھی بھی وقت ہے یہ وقت اس وقت کے آنے تک ہے جب سانسیں اکھڑ جائے گیں
اور نبض رک جائے گی۔ |