اپنے کام سے کام رکھ۔۔۔آپ وقت ضائع کر رہے ہیں!!!

پچھلے مہینے کراچی کے جان لیوا گرمی سے جاں بحق افراد کے ایصال ثواب کے بہانے وزیراعظم کا دورہ کراچی کے حوالے سے بعنوان ’’وزیراعظم کا دورہ کراچی ایک تیر سے دو شکار‘‘ کے موضوع پر کالم لکھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ میں نے اپنے دانست اور حیثیت کی مطابق وزیراعظم کے دورہ کراچی کے چند تلخ اور اصل حقائق سامنے لا کر اپنی ذمہ داری بطریقہ احسن نبھائی جو کہ مجھ جیسے آدنیٰ سے لے کر اعلیٰ پایہ کے قلم کار تک ہر کوئی اس خوش فہمی کے زیرسایہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ آج کی اس جدید دور میں ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محرومیت کے خلاف قلمی جدوجہد کو چند تعلیم یافتہ اور باشعور افراد بھی وقت کا ضیاع تصور کر رہے ہیں!!! میں تو سمجھ رہا تھا کہ اس قلمی جدوجہد کے بغیر ایک پُرامن اور خوشحال معاشرے کا خواب دیکھنا محض خواب دیکھنے تک ہی محدود ہوگا لیکن عمر کے لحاظ سے مجھ پر سبقت حاحل کرنے والے اور انتہائی اہم تعلیمی منصب پر فرائض منصبی سرانجام دینے والا میرا یہ ساتھی شکریہ ادا کرنے کا حقدار اس لئے ہے کیونکہ انہوں نے مجھے اپنے مؤقف کے زریعے احساس دلانے اور اپنے تاثرات کھل کر بیان کرنے کی خاطر میرا کالم پڑھے بغیر سامنے پڑے میز پر بمعہ یہ الفاظ دے مارا کہ اپنے کام سے کام رکھ آپ لوگ وقت ضائع کر رہے ہیں !!!

انتہائی حیرانگی کی کیفیت میں وجہ پوچھنے پر موصوف ایک عجیب سے انداز میں فرمانے لگے کہ بذات خود تو میں یہ کالم، شالم جیسے لمبے چوڑے تمہید دیکھنے سے گریز کرتا ہوں اور آج کل کسی کے پاس اتنا وقت ہوتا کہاں ہے جو آپ کے ان تحریروں کیلئے وقت نکال دیں کیونکہ ان تحریروں سے مسلے حل نہیں ہوتے۔ اور اس بات کو فوقیت دینے کی خاطر انہوں نے چند سینئرترین صحافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے تو ابھی ابھی اس میدان میں قدم رکھا ہے جبکہ ان سینئر صحافیوں کے عمرے ان لمبے چوڑے تحریروں میں بیت گئے لیکن تاحال انہوں نے اگر کسی قسم کی کامیابی حاصل کی ہو تو مجھے بتائیں۔ اپنے اس قابل احترام دوست کی صحافت جیسے مقدس اور خصوصاً فرنٹ میڈیا جیسے انتہائی اہم پیشے سے اتنی حد تک غیر وابستگی اور دوٹوک الفاظ میں اسے وقت کا ضیاع قرار دینے کے بعد میرے لئے ان کو مطمئن کرنا ممکن اس لئے نہیں تھا کہ بعض اوقات انسان کے تاثرات اور اندازگفتگو سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ آپ کی ہزار دلائل پیش کرنے کی باوجود اپنے مؤقف سے ہٹانے کو ہر گز تیار نہیں ہوتا جو کہ میرے اس قریبی دوست کے انداز بیاں سے صاف ظاہر ہورہا تھااس کے علاوہ ان کو مطمئن کرنے سے گریز کرنے کا ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی میں ہم نے جب بھی سیاسی گفتگو چھیڑنے کی کوشش کی ہے تو ہمارے اس گفتگو نے ہمیشہ مناظرے کا شکل اختیار کیا ہوا ہے لیکن یہ عمل بہت حد تک اس لئے قابل توقع تصور کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی حوالے سے ہر کسی کا نظریہ ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ جبکہ اس کی بہ نسبت صحافت جیسے مقدس پیشے کے حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار غیر متوقع عمل اس لئے ہے کہ دنیاجہاں کے باشعور قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ صحافت کسی بھی ملک کی ترقی کی مضبوط عمارت میں اہم ستون جیسی اہمیت رکھتا ہے حتیٰ کہ بدآمنی جیسے سنگین مسلے سے نمٹنے میں مثبت صحافت انتہائی اہم رول ادا کرتا ہے اس کے علاوہ عام لوگوں کے دلوں کی آواز ایوانوں تک پہنچانے کا یہ ایک بہترین زریعہ سمجھا جا رہا ہے اور معاشرے کو درپیش ہر قسم کی مشکلات کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے لوگوں کو باخبر رکھنے میں اسی صحافت کا بھرپور عمل دخل موجود ہوتا ہے۔

قارئین کرام! جہاں تک اپنے کام سے کام رکھنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میں صرف اتنا کہونگا کہ جو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو، جس معاشرے میں انصاف کی حصول کیلئے اپنے عمر کا زیادہ تر حصہ وقف کرنا پڑتا ہو، جہاں نوجوان نسل پر حکومت وقت کی طرف سے تعلیمی درسگاہوں کے دروازے بند کرنے پڑے، جس معاشرے میں غریب کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کی کمائی مشکل بن جائے، ایک محب وطن اور باعزت انسان کی عزت نفس مجروح کرنا معمول بن جائے، جہاں روشنی پھیلانے والوں کو اندھیروں کے سپرد کرنے جیسی روایت برقرار ہو وہاں پر اپنے کام سے کام رکھنا ہر گز ممکن نہیں ہوتا اپنے کام سے کام رکھنا تب ممکن ہوتاہے جب آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا خطرہ لاحق نہیں ہو۔ اور اس کا واضح مثال یہ ہے کہ چند سال پہلے ہم جس بدامنی جیسے کیفیفت سے گزر رہے تھے تب اپنے کام سے کام رکھنے جیسی محدود سوچ کی وجہ سے ہم دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے تھے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی مسلے کے حل کیلئے عوامی سطح پر مشترکہ جدوجہد ازحد ضروری ہوتا ہے۔
قارئین کرام! میں تو اس ذہن کا مالک ہوں کہ ملکی تعمیر وترقی کیلئے کسی بھی سطح پر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک خوشگوار اور پُرآمن معاشرہ تشکیل دینے میں انتہائی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کی برعکس تنگ نظری اور محدود سوچ ایک ایسی خطرناک عمل ہے جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن سکتی ہے۔
Haidar Ali
About the Author: Haidar Ali Read More Articles by Haidar Ali: 4 Articles with 2282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.