کرپشن پہ حق

غریب لوگ آج کل الٹی قلابازیاں کھا رہے ہیں ۔خوشی کے مارے گر گر پڑتے ہیں۔کچھ پھولے نہیں سما رہے اور کچھ پھٹنے کے نزدیک ہیں۔ یہ سب نفرت کے الاؤ میں جل جل کر اب خوشی کے تالابوں میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں ۔میں ان کو لاکھ سمجھاتا ہوں کہ اپنے مسیحاؤں کی پکڑ پر یوں جشن نہ مناؤ۔یہ نہیں مانتے اب کی بار توان کا مرض لا علاج ہو چکا ہے یہ مسیحاؤں کے ہاتھوں عشروں کی سرجری چیر پھاڑسے تنگ آئے ہوئے لوگ ہیں ۔اب یہ بے قرار ہیں کہ دھوکہ باز مسیحاؤں کا بھی خوب پوسٹ مارٹم ہو نا چاہئیے ۔جوں جوں چیخ و پکار بڑھتی جا رہی ہے ان کی خوشیوں کے رنگ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ اب ووٹ اور پارلیمنٹ کے تقدس سے آزاد ہو چکے ہیں۔ان کی خوشی ہر طرح جائز ہے۔جب سے ملک بنا ہے یہ لوگ ذلالت کے اندھے کنویں میں گرتے گرتے اب وہاں پہنچ چکے ہیں کہ یہ ہر خوف سے بے نیاز ہو چکے ہیں ۔ یہ بے رحم احتساب چاہتے ہیں ۔ چوروں کے چہروں پر خوف دیکھ کر ان کو دلی سکون مل رہا ہے ۔خوشیوں کی عمر عموما بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ جسے سالہا سال کے انتظار کے بعد خوشی ملے اس کی خوشیوں کے پلو ں کا مختصر ہونا سفا ک نا انصافی ہوتی ہے ۔ یہ بے چارے صبح شام دعا مانگ رہے ہیں کہ یا خدا جن چوروں نے ہماری زندگیوں کو بھوک بے روز گاری کی آگ میں جھلسا دیا ہمیں بھی ان کے ساتھ انصاف ہوتا دکھا ۔ یہ خوف بھی ان کو ڈس رہا ہے کہ اس انصاف کے عمل میں سے بھی ماضی کی طرح اگر کچھ برآمد نہ ہوا تو پھر شاید یہ خوشی انہیں دوبارہ کبھی نصیب نہ ہو ۔اس ملک میں دعائیں لینا انتہائی آسان اور بددعائیں لینا تو اس سے بھی آسان ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ دعائیں لینے کیلئے جان خطرے میں ڈال کر ننگے شرفاء کی ناموس پر ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے ۔جبکہ بددعاؤں کا بیوپار کرنے کے لئے پارٹی ٹکٹ اور ایک عدد الیکشن لڑنا پڑتا ہے ۔چور وکیلوں کے ڈیروں پر ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں کہ " سائیں مر گئے آں بچاؤ" ۔وکیل بھی وہ جسے ساون کے اندھے کی طرح سب طرف ہرا ہرا دکھائی دیتا ہے بات اکثر لوگ تو سمجھ گئے ہو گے ہو سکتا ہے کچھ شرفاء یا ان کے چیلے سمجھنے سے قاصر ہو ں تو عرض ہے کہ آج کے کالم کا عنوان اور میٹریل ایک دل جلے جیالے اور قسمت جلے متوالے نے دیا ہے۔ہم تو درمیان میں کوآرڈینیٹر کا کام کر رہے ہیں ۔بول یہ رہے ہیں مگر لفظ ہمارے ہیں ۔ ایک نے تمام عمر گنوا دی مگر نوکری نہ ملی۔جھنڈے اٹھائے نعرے لگائے ڈیروں پر لا تعداد حاضریاں دیں ہر دفعہ امیدوں کی پوٹلی میں نئی امیدیں باندھ کر لاتا رہا ۔سب تو کیا ملتا امیدیں تک جل گئیں ۔ہر نئے دور نے اسے نئی امیدیں دکھائیں اس بھولے کو کیا معلوم جن صاحب کو تیسری دفعہ وزیراعظم کی کرسی کے لئے اپنے سے موزوں امیدوار پورے ملک پوری پارٹی میں نظر نہ آیا ۔وہ اس کی خواہشوں کے ساتھ معمول کے مطابق کھلواڑ تو کر سکتے ہیں مگر احترام نہیں کر سکتے ۔اپنی نوکری کی آس ٹوٹتی ہے تو یہ غریب بھائی کی نوکری کا کشکول لے کر آستانوں پر جا پہنچتا ہے ۔کشکول توڑنے والوں نے بڑے انوکھے کشکول متعارف کروائے ہیں یہ تو تھی جینوئن غریب متوالے کی نفرت اور بیزاری کی مختصر سی پرخراش داستان احوال۔اس کے مقابلے میں ایک مطمئن متوالا نیوزی لینڈ سے بیٹھ کر سوشل میڈیا پر دن رات پوسٹ پر پوسٹ لکھ کر یہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ قائداعظم کے بعد اگر کسی کو پاکستان سے محبت اور اعوام کے درد کا احساس ہے تو وہ وزیراعظم موصوف ہیں ۔دو دن پہلے تو مسٹر ستم ظریف نے حد کر دی ۔انہوں نے جنرل صاحب اور رینجرز کی دن رات کی صفائی بڑے طریقے سے اپنے لیڈر کے کھاتے میں ڈالنے کی یہ لکھ کر کوشش کی کہ جنرل صاحب کو کس نے چیف بنایاتو یوں سب کاروائیوں کا کریڈٹ بنانے والے کو جاتا ہے۔ تمام واہ واہ کا حقدار بھی ان صاحب کا بھولا بھالا لیڈر ہے۔غالب تسلی دل کے لئے خیال اچھا ہے۔اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کھرا سندھ سے پنجاب میں داخل ہو جائے گا۔ایسے ہی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنے غبارے میں ہوا ٹائٹ کرنے والوں نے پہلے بھی ٹیوب پھاڑی نکڑے لگوایا اور آج بھی تندہی سے اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں ۔میرے پاس بیٹھے جیالے کی خوشی کی وجہ بڑی سادہ ہے ۔یہ بیچارہ پہلی دفعہ کھرا ان لوگوں تک جاتا دیکھ رہا ہے جو واقعی اور بڑے لیول کے ان کے ان کے بچوں کے سپنوں خوابوں کے چور ہیں ۔جیالے کے بچے بھی بیروزگار ہیں ۔پرانی محبتیں پیٹ نہیں بھر سکتیں ۔روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تب زہر لگتا ہے جب کھانے کو روٹی ایک وقت بھی دقت سے دستیاب ہو ہر عید پر بچوں کے کپڑوں کی فکر دامن گیر ہو مکان گرنے کے قریب ہو خالی جیب گرتی دیواروں کا بوجھ سہارنے سے قاصر ہوتو سب محبتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں ۔جھوٹی محبت پر تو آجکل کے کمرشل عاشق حضرات دو حرف تک بھیجنا پسند نہیں کرتے ۔تو یہ بیچارہ کب تک جھوٹی محبت کی لاشوں کے پاس بیٹھ کر نوحہ کناں رہے۔اس جیالے نے بھی تنگ آکر اپنا عشق کمرشل کر لیا ہے اور نیا معاشقہ اسٹارٹ کر لیا ہے۔یہ جیالے نئے جذبوں سے نئی پارٹیوں کے نعروں میں ضم ہو چکے ہیں ۔کچھ بزرگ جیالوں نے متوالوں کو جوائن کیا تھا لیکن ان کے ہاتھ مایوسی کی یلغار کے سوا کچھ نہیں آیا۔سب حیران ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں فرار ہوتے گم صم سوچ رہے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا غلط کیا ہے کہ ہمیں یوں پکڑا سرراہ رسوا کیا جا رہا ہے۔مالیوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ ان کا قصور اور جرم باغ کی تباہی اور اجاڑا نکالنا ہے۔کون نہ مر جائے اس سادگی پر ۔پھلوں کی آس میں بیٹھے عوام کی ایک ہی مشترکہ خواہش ہے کہ جس نے جتنا بڑا انڈہ کھایا ہے اس سے اتنا بڑا انڈہ برآمد بھی کیا جائے ۔جو بیچارے چند ہزار روپے بیوی کے علاج کے لئے چوری کرے پر یا جوتی بکری چوری کرنے پر تو جرم سے بڑی سزا بھگت رہے ہیں وہ اور ان کے رشتہدار خوش ہیں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار احتساب کا ڈول صحیح کنوؤں میں ڈالا جا رہا ہے۔کل ایک جریدے نے رپورٹ شائع کی ہے کہ ملک بھر میں کرپشن میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔کچھ چور گراونڈ ہو چکے ہیں کچھ عدالتوں کے دروازے توڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں ہمیشہ اسی در سے ریلیف ملا ہے ۔یہ نظام آخر کب تک اس بیہمانہ لوٹ مار کے ساتھ چلے گا۔دنیا کا ہر قانون یہاں فیل ہو جاتا ہے ہر اخلاقی قدر کا یہاں تک آتے جنازہ نکل جاتا ہے۔عوام حکمران بناتے ووٹ ڈالتے وقت یہی سوچتے ہیں کہ جسے مرضی لاؤ کرنی تو انہوں نے لوٹ مار ہی ہے ۔اسی لئے یہ ان کی لوٹ مار کو محبوب کا ظلم سمجھ کر سہتے چلے آ رہے ہیں۔حکمران اس لیول تک آچکے ہیں کہ ایک وزیر موصوف نے پچھلے دور حکومت کے دوران لائیو پروگرام میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کرپشن پر کیا ہمارا حق نہیں ہے۔بات تو سچ ہی کی تھی مگر یہ بھول گئے کہ اتنا ننگا سچ بولنے کی ابھی پارٹی نے اجازت نہیں دی ۔سچ کہا ہے کسی نے کہ شراب اور سچ کا بڑا گہرا اور خطرناک تعلق ہے۔اس سچ کے بادجود میں ان صاحب کی دل سے قدر کرتا ہوں ۔دل کی بات کو سر عام زبان پر لے تو آئے بھلے عالم مدہوشی میں سہی۔ان کے سچ پر اتنی تو رعایت کے مستحق تھے کہ انہیں فارغ نہ کیا جاتا۔۔کیا معلوم ان کے سچ بولنے کی عادت سے حکومت کو اپنی لوٹ مار اسکیموں کی پراگرس کا اندازہ ہوتا رہتا ۔کیا معلوم ان کے بھولے بھا بولے سچ سن کر شرم اور غیرت آجاتی تو آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا ۔سچ جتنا گیا گزرا ہو اس پر توجہ دینا سچ کا حق اور اس پر عمل کرنا سننے والے پر فرض ہوتا ہے۔ہر رات کے بعد سویرا ہوتا ہے۔ظلم کی آندھی آخر تو کہیں جا کر تھم ہی جاتی ہے۔کانٹوں بھرے درختوں پر آخر تو پھل اگنے ہی ہوتے ہیں ۔گریب ہم وظنو امید رکھو تمہارے گلشن میں بھی بہار ر ضرور آئے گی۔تمہاری اندھیری زندگیوں میں بھی سکھ کا خوشحالی کا سویرا ضرور ظلوع ہو گا۔تمہارا سورج شائد جنرل صاحب کی کاوشوں سے ہی طلوع ہو ۔کرشماتی چھڑی کا صحیح استعمال آتا ہو تو یہ ہے بڑی کام ۔فیس بک سے لیکر گلی کوچوں تک ہر کوئی جنرل صاحب کو دعائیں دے رہا ہے۔ہر چیز پر ٹیکس پے کرنے والے کو تو ہسپتال کے کوریڈور میں بھی بمشکل جگہ ملے اور اس کی ٹیکس منی سے لوگ لندن کے ہسپتالوں میں جا کر شوقیہ تبدیلی ہوا کے لئے علاج کروائیں یہ چلن صرف پاکستان میں ہی ہے۔میں نے آج تک کسی پارٹی کسی حکومت سے کوئی فیور نہیں لی۔مجھ جیسے متاثرین کی ایک ہی آرزو ہے کہ مجھے میرے ہی ملک میں کوئی گورا سیاح یہ کہے کہ You are a thief you have destroyed your country with ur own hands.سو جنرل صاحب وی آر ود یوْKeep it up۔ہم مزید سیاسی پنسل تراش نما استرے لیڈرز کا ساتھ نہیں سہہ سکتے ۔ایک پنسل نے شارپنر سے کہا This relation is killing me ۔ہم پاکستانیوں کا بھی اب قریب قریب پنسل والا ہے حال ہے۔
سلیقے سے جو ہواؤں میں خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ ہیں جو سچ بول سکتے ہیں
 
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 20026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.