رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -14

جنگ موتہ
خیبر، فدک، وادی القریٰ اور تیماء جیسے یہود کے مراکز اور اہم مقامات مدینہ کے شمال اور مدینہ و شام کی شاہراہ کے درمیان واقع تھے ان کا قلع قمع ہونے کے ساتھ ہی اسلام کے لئے سیاسی و معنوی میدان شمالی سرحدوں کی جانب مزید فراہم ہوگئے۔ اس منطقے کی اہمیت اولاً اس وجہ سے تھی کہ وہ عظیم ترین تمدن جو اس زانے میں سیاسی، عسکری، اجتماعی اور ثقافتی اعتبار سے انسانی معاشرے کا اعلیٰ و برجستہ ترین تمدن شمار کیا جاتا تھا۔ یہیں پرورش پا رہا تھا۔ دوسری وجہ اس کا سر چشمہ آسمانی آئین و قانون تھا۔ یعنی وہ آئین و قانون جس کی دین اسلام سے بیشتر واقفیت و ہم آہنگی ہونے کے علاوہ اس کے اور اسلام کے درمیان بہت سی مشترک اقدار تھیں اور یہ مقام دیگر مقامات کی نسبت بہتر طور پر اور زیادہ جلدی حالات کو درک کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ جگہ مدینہ سے نزدیک تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ سے قبل روم کی جانب توجہ فرمائی۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ”حارث بن عمیر“ کے ہاتھ خط ”بصرہ“ کے بادشاہ کے نام جو ”قیصر“ کا دست پروردہ تھا روانہ کیا۔ جس وقت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ایلچی ”موتہ“ نامی گاؤں پہنچا تو ”شرجیل غسانی“ نے اسے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر انتہائی شاق گزرا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً یہ فیصلہ کرلیا کہ اس کا سدباب کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے ماہ جمادی الاول سنہ8 ہجری میں 3 ہزار سپاہ پر مشتمل لشکر ”موتہ“ کی جانب روانہ کر دیا۔

اس وقت تک مدینہ سے باہر جتنے بھی لشکر روانہ کئے گئے ان میں یہ سب سے بڑا لشکر تھا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم رخصت کرنے کے لئے مسلمانوں اور سپاہ کے قرابت داروں کے ہمراہ مدینہ کے باہر تک تشریف لائے۔ حضرت ”زید بن حارث“ کو فرماندار کل نیز حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ و حضرت ”عبداللہ بن رواحہ کو حضرت زید کا معاون اول و دوم مقرر کرنے کے بعد آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جس معرکہ کو سر کرنے کے لیے جا رہے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

لشکر اسلام شام کی جانب روانہ ہوا۔ ”معان‘ نامی مقام پر اطلاع ملی کہ قیصر کے 2لاکھ عرب اور رومی سپاہی ”قاب“ نامی مقام پر جمع ہوگئے ہیں۔ (معجم البلدان ج۵ ص ۱۵۳)

یہ خبر سننے کے بعد مسلمانوں میں تردد پیدا ہوگیا اور یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ واپس چلے جائیں یا وہیں مقیم رہیں اور پورے واقعے کی اطلاع رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچائیں۔ اسی مختصر سپاہ کو ساتھ لے کر اس فرض کو انجام دیں جس پر انہیں مقرر کیا گیا ہے اور سپاہ روم کے ساتھ جنگ کریں۔

اس اثناء میں حضرت ”عبداللہ بن رواحہ“ اپنی جگہ سے اٹھے سپاہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہیں یہ ترغیب دلائی کہ اپنے فرض کو وہ ادا کریں اور سپاہ روم کے ساتھ نبرد آزا ہوں۔ ان کی تقریر نے سپاہ کے اندر ایسا جوش و ولولہ پیدا کیا کہ سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ سپاہ روم کے ساتھ جنگ کی جائے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ لشکر موتہ میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔

حضرت زید نے پرچم سنبھالا اور جان پر کھیل کر دوسرے مجاہدین کے ساتھ شہادت کے شوق میں بجلی کی طرح کوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ دشمن تجربہ کار اور جنگ آموزدہ تھا۔ اس کا لشکر نیزوں، تلواروں اور تیز رفتار تیروں سے آراستہ تھا اور اس طرف کلمہ توحید، جسے بلند و بالا کرنے کے لئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنی جان پر مول لیا اور سپاہ روم پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے دین و آئین اور مقدس مقصد کو فروغ دینے کی خاطر جان تک دینے کے لئے دریغ نہیں کرتے ہیں۔

دشمن کا رخ سپاہ اسلام کے پرچمدار کی جانب تھا۔ اس نے اسے اپنے نیزوں کے حلقے میں لے کر زمین پر گرا دیا۔ حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ نے فوراً ہی پرچم کو لہرایا اور دشمن پر حملہ کر دیا۔ جس وقت انہوں نے خود کو دشمن کے نرغے میں پایا اور یہ یقین ہوگیا کہ شہادت قطعی ہے تو اس خیال سے کہ ان کا گھوڑا دشمن کے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پیدل جنگ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے۔ آخرکار تقریباً 80 کاری زخم کھا کر شہادت سے سرخرو ہوئے۔ حضرت جعفر کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ رواحہ نے پرچم اسلام کو سنبھالا اور سپاہ روم کے قلب پر حملہ کر دیا۔ وہ بھی دلیرانہ جنگ کرتے کرتے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔

”خالد ابن ولید حال ہی میں مشرف بہ اسلام ہوا تھا وہ بڑا ہی دلیر و جنگجو انسان تھا۔ سپاہ کی تجویز پر انہیں فرماندار کل مقرر کر دیا گیا۔ جب انہیں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو انہوں نے اب جنگی حربہ جس کی وجہ سے رومیوں میں تردد پیدا ہوگیا اور اس نے اپنی فوج کو یہ سوچ کر پیچھے ہٹا دیا کہ آیا جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور اپنی اس حکمت عملی سے انہوں نے دشمن کے دو لاکھ سپاہیوں سے سپاہ اسلام کو نجات دلائی۔ اور واپس مدینہ آگئے۔ (مغازی ج۲ ص ۷۵۵)

ابن ہشام نے اس جنگ میں شہداءکی تعداد12 اور واقدی نے8 نفر بیان کی ہے۔

جنگ موتہ کے نتائج
جنگ موتہ بظاہر مسلمانوں کی شکست اور فرمانداروں کی موت پر تمام ہوئی اور قریش نے اسے اپنی دانست میں مسلمانوں کی زبونی و ناتوانی سے تعبیر کیا۔ اس جنگ کے بعد وہ ایسے دلیر ہو گئے کہ انہوں نے قبیلہ ”بنی بکر“ کو اس وجہ سے مدد دینی شروع کر دی کہ اس کی ان لوگوں کے ساتھ ساز باز ہو چکی تھی۔ جس کے پس پشت یہ فیصلہ تھا کہ وہ ان کے اور قبیلہ ”خزاعہ“ کے درمیان اس بنا پر کشت و کشتار کا بازار گرم کرا دیں کہ اس قبیلے کا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان ہے، چنانچہ انہوں نے قبیلہ ”خزاعہ“ کے چند افراد کو قتل کر دیا اور صلح نامہ حدیبیہ سے بھی روگرداں ہو گئے نیز رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جب ہم اس جنگ کی اہمیت و قدر کے بارے میں غور و فکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ جنگ سیاسی طور پر اور دین اسلام کی اشاعت کے لئے نہایت سود مند و کارآمد ثابت ہوئی کیونکہ اس وقت ایران اور روم جیسی دو بڑی طاقتوں کا اس عہد کی دنیا پر تسلط و غلبہ تھا۔ ان کے علاوہ جو بھی دوسری حکومتیں تھیں وہ سب انہی کی دست پروردہ تھیں اور ان کے ساتھ ہم چشمی و برتری حاصل کرسکیں گی۔ ان دونوں حکومتوں میں بھی رومیوں کو ایرانیوں پر اس وجہ سے برتری حاصل تھی کہ انہوں نے ایران سے جنگ و نبرد میں مقابلہ کر کے مسلسل اور لگاتار فتوحات حاصل کی تھیں۔

جزیرہ نما عربستان کو ایران نے شرقی جانب سے اور روم نے مغرب کی طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے میں لے رکھا تھا کہ جیسے انگوٹھی کے درمیان نگینہ اور ان دونوں ہی بڑی طاقتوں کے اس غطہ، ارض سے مفادات وابستہ تھے اور انہوں نے یہاں اپنی نو آبادیات بھی قائم کر رکھی تھیں۔

جنگ موتہ نے ان دنوں بڑی طاقتوں بالخصوص روم کو یہ بات سمجھا دی کہ اس کے اقتدار کا زمانہ اب ختم ہونا چاہتا ہے اور دنیا میں تیسری طاقت ”اسلام“ کے نام سے پورے کروفر کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہے۔ اور اس کے پیروکار ایمان کے زیر سایہ اور اس خلوص و عقیدت کی بنا پر جو انہیں اس دین اور اس کے قائد سے ہے اپنے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں اور اس کی حصول کی خاطر وہ دشمن کی کثیر تعداد اور سامان جنگ کی فراوانی سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہوتے، چنانچہ یہی وہ کیفیت تھی جس نے ان بڑی طاقتوں کے دلوں پر اسلام کا رعب و دبدبہ قائم کر دیا۔

دوسری طرف ان لوگوں کو جو جزیرہ نما عرب میں ان طاقتوں کے دست پروردہ تھے عملی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ وہ انگشت شمار لوگ جو مقصد وارادے میں مضبوط و محکم ہیں روم جیسی بڑی طاقت سے جس کی سپاہ کی تعداد کل مسلمانوں کی تعداد سے ساٹھ گنا زیادہ ہے ٹکر لے سکتے ہیں اور ان کے گھروں میں گھس کر انہیں ذلیل و خوار تک کرسکتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ اب دشمنانِ اسلام اس کی عسکری طاقت کا اعتراف کرنے لگے اور اس کی عظمت کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا ہوگیا اور اب انہیں یہ بخوبی اندازہ ہوگیا کہ آئندہ مسلمان ان کے سامنے زیادہ قوی و حوصلہ مندی کے ساتھ اب سے زیادہ وسیع و کشادہ تر میدانوں میں نبرد آزما ہونے کے لئے نمایاں طور پر منظر عام پر آنے لگیں گے۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔

نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی ۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112829 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More