زندگی بے یقین موت پُر یقین
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
زندگی سفر اور موت
زندگی
پھول کی کو نپلیں جب صبح سویرئے شبنم کے قطروں سے وضو کرتی ہیں تو اپنے رب
کی شان شان میں رطب للسان ہوتی ہیں۔ کوئل کی من بھاتی آواز ترنم سے فطرت کی
تعریف و توصیف کرتی ہے۔صبح صادق کے وقت ہل چلاتے بیل کے گلے کے گھنگروں کی
آواز رب کی مدح کرتی ہے تو زندگی مسکرانے لگتی ہے اور رب کی اِس کائنات میں
محبتوں اور خلوص کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔زندگی وفا کا دوسرا نام ہے
۔زندگی ہی رب کی پہچان کا سبب ہے۔ زندگی میں درپیش نشیب وفراز زندہ ہونے کی
علامت ہیں۔ زندگی ماں کی گود، زندگی دادی اماں کی لوری زندگی باپ کا پیار
زندگی بہن کی عقیدت زندگی کائنات کی سب سے محبوب ہستی رسالتِ مابﷺ کی وساطت
کا سبب۔زندگی لہلہاتے کھیتوں میں اُگنے والے اناج کا پتہ دیتی ہے زندگی
پہاڑوں ، ریگستانوں، میدانوں میں رقص کرتی ہوئی وہ سہانی خوشبو ہے جوخالقِ
کائنات کی عظمتوں کا ادراک بخشتی ہے۔ زندگی فقیر کی درگاہ سے لے کر
بادشاہوں کے محلوں کی غلام گردشوں میں گھومنے والی وہ صدا جو سب کی ایک
جیسی ہے جس میں نہ ذات کا فرق نہ مذہب کا فرق اور نہ ہی رنگ ،امارت اور
غربت کا تضاد۔کیونکہ زندگی تو رب کی شان کا ایسا اظہار ہے جس کی وجہ سے ربِ
کائنات نے خود کو ظاہر کیا۔
٭٭٭ سفر
روح پہ لگے کاری زخم ایسا گداز عطا کرتے ہیں کہ وہ زخم زندگی کے معنی تبدیل
کردیتے ہیں۔ انسان کی جبلت میں خواہشات کا جو سمندر طوفان اُٹھائے ہوتا ہے
اُس کے آگے بند باندھنے کے لیے وہی درد گدازیت کا سبب بنتا ہے جس درد نے
انتہاء کی تکلیف میں مبتلا ررکھ چھوڑا ہوتا ہے۔جو لمحات درد کا سبب بنتے
ہیں وہ ساعتیں زندگی کا حاصل قرار پاتی ہیں گویا گوہر نایاب کا وجود میں
آنا بہت کچھ لُٹ جانے کے بعد ممکن ہو پاتا ہے لیکن فقیر کی صدا تو در حقیت
اﷲ پاک کی حضوری کے لیے ہوتی ہے۔ اِس میں مادیت کا عنصر نہیں ہوتا۔ فقیر تو
بھٹکتی ہوئی راہوں پہ چلتا ہوا اپنا مقصد پالیتا ہے کیونکہ اُس کے اندر
فطرت رچی بسی ہوتی ہے۔ فقیر کو ریاضیتیں نہیں بلکہ عشق کی تمازت منزلیں طے
کرواتی ہے۔ دکھ میں تکلیف اور خوشی میں طمانیت کا احساس رب کے وجود کے
اظہار کی سیڑھی ہے۔ جہاں مثبت اور منفی کھوٹا اور کھرا نئے وجود میں ڈھل
جاتا ہے اور قلب میں موجود حدت اُسے بے نیازی کے سفر پہ ڈال دیتی ہے۔ جہاں
خیر اور شر کے فرق کہ بات نہیں صرف اور صرف محبوب کی رضا ہی سب بڑا سنگ میل
ہوتا ہے۔جس طرح بہار کی نوید خوشیوں کا پیامبر ہوتی ہے اُسی طرح محبوب کی
جدائی بھی وصال کا پیش خیمہ بنتی ہے ۔ وصال کے لیے جدائی کے لمحات روح کو
آہوں کی سُولی پہ لٹکائے رکھتے ہیں جو کہ روح کے سفر کو عشق کی مے کے ساتھ
ہر لمحہ مدہوش رکھتے ہیں پھر وصال اور جدائی میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا
ہے۔پھر میں اور تو کی تمیز ہوا ہو جاتی ہے۔ جو من تن جاری جوروستم کو باعث
نعمت سمجھتا ہے اُس من کو ملنا نہ ملنا، جدائی ،حجاب کی کیفیات سرشاری سے
محروم نہیں کرتیں۔ ٭٭٭
زندگی بے یقین موت پُر یقین
موت کی آمد کے حوالے سے انسانی مزاج اِس طرح کا بنا ہوا ہے کہ وہ یہ سمجھتا
ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اُس کے دماغ میں یہ تاثر فروغ پاجاتا ہے کہ اُس
کا باپ دادا تو اتنا عرصہ زندہ رہے۔اِس لیے ابھی وہ زندہ رہے گا ۔ اُس کی
سوچ میں ایک زینہ یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں شخص اتنا بیمار ہے اتنے عرصے سے
لیکن وہ ابھی زندہ ہے۔گویا وہ تو صحت مند ہے اِس لیے ابھی کافی وقت پڑا ہوا
ہے۔ اِس سوچ سے موت کا ڈر تو برقرار رہتا ہے لیکن موت کے ڈر کی بدولت انسان
ہموار راستے کی بجائے غلط راستوں کا راہی بن جاتا ہے۔ وہ اپنے رب کی اطاعت
کو چھوڑ کر لالچ زدہ ہوجاتا ہے ایک رب کو منانے کی بجائے کئی رب تخلیق کر
لیتا ہے کہیں رب اُسکا روپیہ پیسہ بن جاتا ہے اور کہیں رب اُس کی جھوٹی آن
بان شان، کہیں اُس کی عظمت کوٹھی کار بنگلے میں اٹک جاتی ہے اور کبھی ہوس
زدہ بن کر مخلوق اور رب دونوں کا نافرمان بن جاتا ہے۔یہ سوچ کہ ابھی میرے
مرنے میں وقت ہے اُسے اپنے حقیقی خالق سے دور کردیتی ہے۔ اُسے حقیقی خالق
کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔وہ تونوٹ اکھٹے کر رہا ہوتا ہے ۔ اولاد کی
تربیت تو کجا اُس کی تو اپنی تربیت کسی بھی کھاتے میں نہیں ہوئی تھی۔بوڑھے
والدین تو اُس کی اور اُسکی بیوی کی آنکھ میں کانٹے بن کر چھبتے ہیں۔ بڑا
گھر بیوی بچوں کے لیے الگ الگ کاریں۔ شاپنگ دبئی میں۔ خواب کی طرح گزر جانے
والی زندگی آخر ایک روز اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ بیوی بچے باپ کی میت پر آنسو
بہانے کے ساتھ مرئے ہوئے کی جائیداد بنک اکاونٹس کی چھینا چھپٹی شروع کر
دیتے ہے۔ باپ کی میت قبرستان ابھی پہنچی نہیں ہوتی اولاد جائیداد کے حصے
بخرئے کرنے کے لیے آپس میں دست و گریبان ہو چکی ہوتی ہے۔ بیٹوں کی بیویاں
بھی اپنے میکے والوں کو بھی اپنی اِس کشمکش میں بطور کمک شامل کر لیتی
ہیں۔یوں جس گھر کی خاطر مرنے والے نے بہت سے گھروں کو ڈسٹرب کیا ہوتا ہے وہ
گھر اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اور دفن ہونے سے پہلے ماچس کی تلیوں کی مانند
بکھر جاتا ہے۔جس موت سے آنکھوں چُرائی ہوئی ہوتی ہیں وہ موت کے اتل حقیقت
بن کر لمحوں میں اپنے اثرات دیکھا دیتی ہے اور قبرستان کے مکینوں میں ایک
نیا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں زندگی بے یقین اور موت یقین کے پردئے میں چھپی
ہوئی ہے۔اگر ہم خالق اور اُس کے بندئے کے تعلق کا سرسری سا بھی جائزہ لیں
تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ بندئے کے جسم پہ موجود ایک ایک بال اُسکے
رب کی رحمتوں اور نعمتوں کااحسان ہے۔ انسان کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب
وفراز قدرت کی جا نب سے اپنے بندئے کی زندگی میں ایک ارتعاش کے حامل ہیں۔
رب کی جانب سے ملی ہوئی سانسیں رب کی اس کائنات میں وقت پورا کرکے عالمِ
برزخ کے راستے پہ رواں کر دیتی ہیں۔ انسان کو جوملا ہوتا ہے وہ رب کی ہی تو
ہوتا ہے۔ رب اِس جہان میں گزاری ہوئی زندگی کو بے مقصدیت کا شکار نہیں ہونے
دیتا ۔ اِس جہاں کے ایک ایک لمحے کو رب اپنے انداز میں جانچتا ہے اور اپنی
ہی بنائی ہوئی مخلوق کو جزا و سزا کے عمل سے گزارتا ہے تاکہ زندگی کی گزری
ہوئی ساعتیں بے ثمر قرار نہ پائیں۔ کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ہے رب نے یہ
زندگی کا نظام یونہی کھیل تماشے کے لیے ترتیب نہیں دئے دیا۔ سچائی اور جھوٹ
کی قوتیں اپنے اپنے ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔ دکھ مصیبتیں جھوٹ کا پلڑا
دنیاوی لحاظ سے بھاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں وقت گزارنے والا انسان
زندگی کے لیے اپنا معیار بنا لیتا ہے ۔ حالانکہ جو اِس ِ زندگی جو خالق ہے
اُس کے معیار کے مطابق زندگی بسر ہونی چاہیے۔ |
|