اسکندریہ لائبریری اور اس کی تباہی و بربادی
(Dr Rais Samdani, Karachi)
اسکندرِ اعظم کی موت)(ضون
۳۲۳ق۔م) کے بعد بطلیموس حکمران سوتر کا نے( 285-246ق۔م) اپنے دانشمند مشیر
ڈ یمٹرس (Demitrious of Phaleron) کے مشورے سے کتب خانہ اسکندریہ کی بنیاد
رکھی جس کے ساتھ ایک نہایت وسیع اور معیاری میوزیم بھی قائم کیا۔ اس علمی
ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی ہماگیر یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے۔اس کی عمارت
اس دور کے بہترین خوش نماپتھر کی بنی ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے کمرے مطالعہ
کے لیے مختص تھے۔ اس میں ایک شعبہ نشرواشاعت کا بھی تھا جس کے توسط سے آس
پاس کے ملکوں کو کتابیں بھیجی جاتی تھیں۔ اس علمی مرکز کے قائم ہونے سے
اسکندریہ میں یونانی کتب فروشی چمک اُٹھی اور یونانی طلباء حصول ِ علم کی
خاطر اسکندریہ کی طرف دوڑ پڑے۔ یہ کتب خانہ نینوا کے کتب خانے کی مانند
شاہی سرپرستی میں قائم کیاگیا تھا۔ اس میں جو کتابیں جمع کی گئیں تھیں وہ
پیپائرس (Papayrus) کے رولوں پر تھیں جب کہ نینواکے کتب خانے میں کتابیں
مٹی کی تختیوں (Clay Tablets) پر تحریر تھیں۔ مصر میں پیپائرس پر لکھنے کا
آغاز حضرت مسیح سے تقریباً چار ہزار برس پہلے ہوا تھا۔ مصریوں نے پیپائرس
کی دریافت کرکے بنی نوع انسانی پر عظیم احسان کیا ہے۔
اسکندریہ میں تصنیف و تالیف کے فروغ کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اشیاء جن پر
تحریر کیا جاتا ۔ بہت سستی اور ان کا حصول آسان تھا جس کے باعث اسکندریہ
میں علمی سرگرمیوں نے فروغ پایا اور ساتھ ہی ساتھ کتب خانو ں کا قیام بھی
عمل میں آیا۔ اسکندرِ اعظم کا کتب خانہ علمی سرگرمیوں کی نمایاں مثال پیش
کرتا ہے۔ اس کتب خانے میں کتابیں جمع کرنے کا طریقہ بہت مشہور ہے اور علمی
ذوق کی ایک بہترین مثال بھی۔
ایک یونانی مورخ’ گیلن ‘رقم طراز ہے کہ بادشاہِ وقت ’پیٹولیمی سوم‘ کے حکم
کے مطابق جو نہی کوئی جہاز بندرگاہ میں لنگر انداز ہوتا اس میں موجود تمام
سیاحوں کی تلاشی لی جاتی اگر ان کے پاس کتابوں کا ذخیرہ یا کوئی ایک کتاب
بھی نکلتی اسے بحقِ سرکار ضبط کر لیا جاتا لیکن حکومتِ وقت کی جانب سے یہ
احکامات تھے کہ کتابوں کی نقل کے بعد اصل کتاب اس کے مالکوں کو واپس بھیج
دی جائیں۔ اس واقعہ کی تصدیق کئی اور مورخین نے بھی کی ہے۔ ڈیورانٹ لکھتا
ہے کہ لوگ دُور دُور سے پرانے نسخے اسکندریہ کے کتب خانے میں مُنہ مانگے
داموں فروخت کیا کرتے تھے۔
کتاب خانے میں کتابوں اور قلمی نسخوں کی تعداد سے متعلق تمام مورخین اس
نقطے پر متفق ہیں کہ اس دور میں اس کتب خانہ سے بڑھ کر ذخیرہ علم کہیں اور
موجود نہ تھا۔ مورخین نے ذخیرہ علم کی تعداد دو لاکھ سے سات لاکھ تک بتائی
ہے۔ مہتمم کتب خانہ و لائبریرین رہمی تریس انتہائی ذہین اور علم و ادب سے
بے انتہا لگاؤ رکھتا تھا۔ یہاں قدیم زمانے کی تمام قدیم و نایاب کتب موجود
تھیں۔ دس بڑے وسیع ہال نما کمروں میں ان کتب کو ذخیرہ کیا گیا تھا۔
الماریاں دیواروں میں بنائی گئی تھیں۔
مشہور فلسفی کیلیمارکس (Callimachus/Kallimachos, 310/305-240BC) اس کا دست
راست تھا۔ نیز کتب خانے کے بعض انتظامی اُمور کے علاوہ کتابوں کے مضمون وار
تقسیم اور کیٹلاگ (فہرست) کی تیاری کا کام کیلی ماکس کے سپرد تھا جس کو اس
نے بڑی لگن او ر محنت سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ ایلفرڈہیسل نے لکھا ہے کہ
کیلی ماکس نے اسکندریہ لائبریری کی کتابوں اور مخطوطات کا کٹیلاگ پینکس
(Pinakes) کے نام سے مرتب کیا تھا۔ اس عظیم کتب خانے میں جو عجائب گھر کا
ایک حصہ تھا یونانی زبان کی تمام بہترین کتابیں موجود تھیں اور دس بڑے وسیع
کمروں میں ذخیرہ کی گئی تھیں جن پر نمبر پڑے ہوئے تھے۔ الماریوں میں کتابیں
بہ اعتبار فن و مضمون ، رکھی ہوئی تھیں۔ ان کتابوں پر بھی نمبر پڑے ہوئے
تھے۔ عام پڑھنے والوں کے علاوہ تحقیق کرنے والوں کے لئے علیحدہ کمرے تھے۔
جہاں تمام طرح کی سہولتیں فراہم تھیں۔ یہ کتب خانہ بہ یک وقت ایک جامعہ
(University) اور دارالتحقیق(Research Institution) تھا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ،غربی مورخین نے اس کتب خانے کی تباہی اور جلانے
کاذمہ دار مسلمانوں کو ٹہرایا ہے ۔ جب کہ یہ کتب خانہ 47ق۔م میں تباہ و
برباد ہوا۔ جب جیولس سیزر نے اکندریہ کو تاراج کیا تو ساحل پر لگنے والی آگ
نے شہر اسکندریہ کے ساتھ شاہی محلات ، عجائب گھر اور کتب خانے کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا اور یہ عظیم کتب خانہ صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ علامہ شبلی
نعمانی نے پنی کتاب ‘اسکندریہ کا کتب خانہ‘میں ان لازامات کی سختی سے تردید
کی ہے۔ دلیل کے طور پر علامہ شبلی نے لکھا’اس واقعہ کے بے اصل ہونے کی ایک
نہایت قوی دلیل یہ ہے کہ جہاں تک اس کتب خانہ کو جلائے جانے کا بیان ہے وہ
اسلام کے دَور سے پہلے ہی برباد ہوچکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کتب خانہ شاہان
ِ مصر نے جو بت پرست اور بہت سے خداؤں کے ماننے والے تھے نے قائم کیا تھا
جب مصر میں عیسایت کا دور شروع ہوا تو عیدائی بادشاہوں نے تعصب مذہبی کی
وجہ سے ان کتابوں کی بربادی شروع کردی اور ان کے اس ارادے کو پادریوں نے
اور بھی اشتعال دیا‘۔ شبلی نے ایک مشہور عالم ’موسیوریناں‘ جو فرانسیسی تھا
کہ رائے نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر چہ یہ بار بار کہا گیا کہ کتب خانہ
اسلام کے خلفائے راشدین کے دور میں جلایا گیا جب کہ یہ صحیح نہیں کتب خانہ
مذکورہ اس زمانے سے پہلے ہی برباد ہوچکا تھا‘۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے
بھی اپنے مضمون ’کتب خانہ اسکندریہ‘ میں اس لزام کی سختی سے اور دلائل کے
ساتھ تردید کی ہے۔علامہ ندوی نے معروف مورخ ’جرجی ذیدان‘ کی پیش کردہ دلیل
سے متعلق لکھا ہے کہ ’ذیدان نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ مسلمانوں نے فارس کا
کتب خانہ جلا دیا جب وہ اپنے ہی فرقوں کے کتب خانے جلادیا کرتے تھے تو
یقینا انہوں نے اسکندریہ کا کتب خانہ بھی جلادیا ہوگا‘۔ علامہ نے لکھا ہے
کہ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ رومیوں نے
آرشمیدس کی کتابیں جو پندرہ سو اونٹوں پر بار تھیں جلادیں، جیولس سیزر نے
اسکندریہ کا شاہی کتب خانہ جلا دیا، اس لیے کہ یورپ کی عظیم الشان حکومت
علم کی سخت دشمن تھی، خود افلاطون نے سقراط کے پاس جاتے وقت اپنی ادبی
تصانیف جلادیں۔ ابترہم نصرانی کی موت کے وقت اس کے عیسائی اعزہ نے اس کی
مملوکہ فلسفہ کی نادر تصنیفات جلادیں۔ ہسپانیہ کے عیسائیوں نے جب میکسیکو
پر حملہ کیا تو انبار در انبار کتابیں جلا دیں۔عیسائی پادری ’تارکوئی ‘ نے
پندھوریں صدی عیسویں کے آخر میں سلیمنکا میں علوم شرقیہ کی چھ ہزار کتابوں
میں آگ لگا دی۔ اسپین کے ایک متعصب پادری زنبیر نے غرناطہ میں عربی زبان کے
دس ہزار قلمی نسخوں کا ڈھیر لگا کر آگ لگادی۔ طرابلس شام میں جب انگریزوں
نے صلیبی جنگ میں فتح پوئی تو وہاں کے کتب خانے کو جس میں تقریباً تین لاکھ
کتابیں تھیں نہایت وحشیانہ طور پر برباد کردیا۔عیسائیوں نے فتح اندلس کے
موقع پر ایک نہیں متعدد کتب خانے برباد کردیے ۔ فرفورلیس کی تصانیف کے تمام
نسخے شہنشاہ تھوڈوسیس نے جلوادئے(یہ تھیوڈسیس وہی ہے جو تاریخی تحقیقات کی
رو سے کتب خانہ اسکندریہ کی بربادی کا باعث ہے) اس بنا پر زیادہ تر قرین
قیاس یہی ہے کہ عیسائیوں ہی نے اسکندریہ لائبریری کو بھی جلا یا ہوگا۔
مسلمانوں کی جرأت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ فتوع و مغازی کی سینکڑوں
کتابوں میں سے ایک میں بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں‘۔ علامہ ابن ندیم بغدادی
نے بھی مسلمانوں پر عائدکردہ اس الزام کی کھلے الفاظ میں تردید کی
ہے۔(۹ستمبر 2015)
|
|