اردو زبان کا نفاذ ....روشن مستقبل کی نوید

اردو ہماری قومی زبان اور ہماری پہچان ہے۔ اردو دنیا کی خوبصورت اور شیریں ترین زبانوں میں شامل ہے۔ پاکستان کی ترقی میں اردو زبان کا نفاذ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائد اعظم نے 1948ءمیں ڈھاکا میں اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے سب ہی متفق تھے کہ اس مملکت کی زبان اردو ہوگی۔ مملکت خداداد پاکستان کا شمار باقاعدہ رائے شماری کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست ایک ضابطے کے تحت وجود میںآئی، تو اس کے قیام میں مذہب کے بعد دوسری اہم چیز زبان تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی تحریک کے دوران ہمیشہ دو ٹوک انداز میں اردو کو نئی ریاست کی زبان قرار دیا گیا۔ گویا زبان، مذہب کے ساتھ ریاستی نظریے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں اردو اور ہندی کے مابین ایک طویل تنازع رہا ہے۔ ہندوﺅں کی جانب سے اردو زبان کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی۔ اردو اور ہندی کے تنازع نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میںآل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے رکھا۔ 1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر اردوکو اختیار کیا گیا۔ 1946 میں قائد اعظم نے ایک جلسے میں خطاب کے دوران فرمایا ” میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔“ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ایک ایسی ریاست کی جدوجہد کی، جس کی زبان اردو ہو۔ 1973ءمیں متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے دستور کے مطابق: ”پاکستان کی قومی زبان اردوہے اور دستور کے یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ 15 برس کی دی گئی مہلت 1988ءمیں ختم ہوئی، لیکن قومی زبان اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کی حیثیت نہیں ملی اور مسلسل یہ اہم معاملہ سرد خانے کی نذر ہو چلا تھا۔ اس سلسلے میں اللہ نے پوری پاکستانی قوم کے اردوزبان کے نفاذ کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔

گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے عدل وانصاف کے زریں اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے پاکستان میں اردوزبان کے نفاذ کاحکم سنایا۔پاکستانی سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 26 اگست کو محفوظ کیا گیا اردو زبان سے متعلق فیصلہ اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل منگل کو سنایا۔ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس ادریس نے اردو میں حلف اٹھایا اور اردو میں تقریر کی اور مقدمات کے فیصلے اردو میں لکھے، ان کے بطور چیف جسٹس تقرر کے وقت ہی سے یہ امید کی جارہی تھی کہ یہ اردو کو نافذ کریں گے۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل251 میں ”اردو“ کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ شامل ہے۔ اس فیصلے کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 251 کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ 3 ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔ عدالت نے تمام سرکاری دفاتر اور وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال سے متعلق اردو کے احیا کے لیے قائم اداروں کی سفارشات پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے خاص طورپر عوامی مفاد سے متعلق قوانین کا اردو ترجمہ کرانے کو لازمی قرار دیا ہے اور سرکاری محکموں کو عدالتی مقدمات میں اپنے جوابات اردو میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ عوام اس فیصلے کو سمجھ کر اپنے حقوق کا نفاذ کرا سکیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا کہ ”اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔“ خیال رہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست پر فیصلہ سنایا گیا، جو 2003 سے عدالت عظمی میں زیر التوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ واضح رہے کہ ایک عرصے سے اردو کے نفاذ کے حوالے سے ملک میں کوششیں جاری تھیں۔ ان کوششوں کے سلسلے میں گزشتہ سال مئی میں وفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان احکامات پر عمل درآمد ایک سال کے بعد گزشتہ دنوں کابینہ ڈویژن کی طرف سے مختلف محکموں کو حکم نامے جاری کرتے ہوئے شروع کیا گیا۔ رواں برس جولائی میں جاری کیے گئے حکم نامے میں تمام محکموں اور افسر شاہی کو کہا گیا کہ وہ سرکاری احکامات و مراسلے اردو میں جاری کریں اور پہلے سے موجود دستاویزات کو بھی اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس اقدام کے ذریعے صدر، وزیراعظم اور وزرا کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ اندرون ملک و بیرون اپنے خطابات اردو میں ہی کریں۔

مبصرین کے مطابق اردو کے نفاذ کا فیصلہ ہماری عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا جائے گا۔ امید ہے کہ حکومتی سطح پر آرٹیکل 251 کے تحت اردو زبان کی ترویج وترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ ملک کے روشن مستقبل کی امید ثابت ہوگا۔الحمدللہ آج ملک معاشی ترقی کر رہا ہے، جس کا اظہار غیر ملکی میڈیا نے بھی کیا ہے، اردو کا نفاذ بھی اس ترقی میں یقینا معاون ثابت ہوگا۔ اردو کے نفاذ سے ترقی کی راہ میں حائل بہت سے رکاوٹیں خود بخود ہٹ جائیں گی۔ ملک میں انگریزی زبان سے مرعوبیت محض اتفاق نہیں، بلکہ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کے غلبے کے بعد لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیرِ سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا، جس کے نتیجے میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے، جو ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی۔ اردو کے نفاذ سے اس تفریق سے چھٹکارہ حاصل ہوگا اور ترقی کی راہیں وا ہوں گی۔ آزاد قومیں ہمیشہ اپنی زبان پر ہی فخر کیا کرتی ہیں اور دنیا بھر کی وہ قومیں جو آج ترقی کے بام عروج پہ کھڑی ہیں، ان میں ان کی قومی زبانوں کا راج ہے۔ پاکستان میں بھی اردو زبان کا نفاذ تو ہو چکا ہے، لیکن مکمل طور پر حکم پر عمل درآمد کرانے کے لے ایک عرصہ لگ سکتا ہے، کیونکہ ملک میں اکثر و بیشتر بڑے تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے تمام معمولات زندگی انگریزی طرز پر ہوں۔ اس کے ساتھ ہمارے ہاں عوامی سطح پر بھی اردو سے زیادہ انگلش کو اہمیت دی جاتی ہے۔لہٰذا ان حالات کے پیش نظر ہر سطح پر اردو کو فروغ دینے کے ضرورت ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.