کیا اس جہان میں سارے بکاؤ ہے !

موبائل فون پر میسج آگیا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں پانچ سو روپے ایزی لوڈ ڈال دیا گیا ہے ، جو گھنٹے میں آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائینگے اور پھر آپ اسے استعمال کرسکیں گے- یہ وہ میسج ہے جسے مہینے کے آخری ہفتے جب ملازمت پیشہ شخص کی تنخواہ بھی دوسرے ہفتے میں آنی ہو جب مل جائے تو یقیناًخوشی ہوتی .ہے میں بھی اسی خوشی کا شکار ہوگیا کہ چلواللہ نے مہربانی کی کسی نے غلطی سے موبائل میں پیسے ڈال دئیے لیکن ساتھ ہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ مجھ میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں یا پھر کونسا میں نے اتنا بڑا تیر مارا ہے کہ مجھے پانچ سو روپے کا ایزی لوڈ کوئی کرے ، دماغ پر زور دیا تو یاد آیا کہ آدھے گھنٹے پہلے ایک پولیس اہلکار نے موبائل فون پر کہا تھا کہ " آپ نے جو رپورٹ بنائی ہے " بھائی کی حیثیت سے میرا خیال کریں اور کچھ نہ کریں - دل میں یہی سوال گونج رہا تھا کہ ہو نہ ہو یہ پانچ سو روپے کا ایزی لوڈ اسی پولیس اہلکار نے کیا ہوگا- اسی لمحے موبائل فون پر رنگ آئی اور پوچھا گیا کہ " سرجی پانچ سو روپے کا ایزی لوڈ مل گیا" میں نے سوال کیا کہ کون ہو تو اس نے جواب آیا کہ آپ کا بھائی ہو ، ابھی آپ سے بات ہوئی تھی میں نے بھائی ہوتے ہوئے پانچ سو روپے ایزی لوڈ آپ کو کردیا ہے- میں نے جواب دیا کہ مجھے تو بہت پہلے سے جانتے ہو ، اس نے جواب دیا کہ بالکل ، پھر میں نے دوسرا سوال کیا کہ کبھی میں نے آپ سے پیسوں کا مطالبہ کیا ہے اس نے کہا کہ نہیں ، اس کا جواب سن کر میں نے دوبارہ اس سے کہا کہ بھائی آج پھر کس کھاتے میں بھائی بن گئے ہو کہ پانچ سو روپے ایزی لوڈ کردیا- اس نے کہا کہ آج ایسے ہی دل کررہا تھا کہ تمھیں پیسے بھیج دو- میں نے جواب دیا کہ بھائی میرے ہر دو ہفتے بعد میں اپنے موبائل فون پر میسجنگ کیلئے ڈھائی سو روپے اپنی جیب سے ڈالتا ہوں اور یہ سلسلہ گذشتہ پانچ سال سے جاری ہے اور تمھارے پولیس کے بہت بڑے بڑے آفیشل کو میں میسج کرتا ہوں کہ تمھارے ادارے میں یہ چل رہا ہے اب تم مجھے پانچ سو روپے میں خریدنے کی کوشش کررہے ہو ، جس پر متعلقہ پولیس اہلکار نے "غلطی ہوگئی جناب" کہہ کر فون بند کردیا-

یہ اس خیبر پختونخواہ پولیس کا قصہ ہے جس کے بارے میں عمران خان "منہ پھاڑ "کر اعلان کرتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے- ہم نے اصلاحات کے عمل کا آغاز کردیا ہے -یہ تبدیلی شائد ان کی نظر میں آئی ہوگی لیکن اس کے ثمرات عوام کو کہاں مل رہے ہیں اس کیلئے بھی " پی ٹی آئی کارکن" ہونا ضروری ہے کیونکہ ان کی نظر میں ہر چیز تبدیل ہو چکی ہیں- پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر قومی اسمبلی خیبر پختونخواہ میں آکر پولیس پرڈاکومنٹری بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں جنہیں لوگ نیٹ پر دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ واقعی خیبر پختونخواہ میں پولیس کلچر تبدیل ہوا ہے- یہ نہیں کہ تبدیل نہیں ہوا ہوگیا ہے لیکن سو فیصد میں صرف 12 فیصد ، وہ بھی ہاتھی کے دانت ہیں جو کہ کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور ہیں-

تین دن قبل پشاور کے تھانہ تاتارا پولیس کی ایک وین جس میں پولیس اہلکار سوار تھے نے کارخانو مارکیٹ سے گنڈا مار)مقامی زبان( کپڑا لے جانیوالے کچھ موٹر سائیکل سواروں کو روکنے کی کوشش کی تاکہ انہیں بھی اپنا"رزق "مل سکے- روزانہ پولیس اہلکاروں کو "دانہ پانی"ڈالنے والے تین گنڈا ماروں میں سے دو نے موٹر سائیکل بھگا لی تاکہ دو سو روپے بچ سکیں جبکہ ایک جس کا تعلق تہکال سے تھا پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تھانے کی حدود میں رائیڈنگ کرنے والے متعلقہ اہلکاروں نے اپنا غصہ آخری موٹر سائیکل سوار گنڈا مار پر نکال دیا اور گاڑی کی ٹکر سے گرا دیا جس کے نتیجے میں گنڈا مار کے دونوں ہاتھ ، چہرہ زخمی ہوگئے جبکہ اس کا ایک پاؤں ٹوٹ گیا- پولیس اہلکاروں نے موقع سے گرفتار کئے جانیوالے گنڈا مار کی وہ حالت کردی کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا اور آج بھی وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے وارڈ میں زیر علاج ہے- تاہم پولیس اہلکاروں نے واقعے کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھاچونکہ زخمی ہونیوالاافغان مہاجر تھا اور اسی کے ذریعے وہ اپنے گھر والوں کیلئے روزی روٹی کا بندوبست کرتاتھا- اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والد کی زخمی ہونے کی اطلاع ملتے ہی ہسپتال پہنچ گئے- جہاں پر عوامی ٹیکسوں پر پلنے والی"پولیس کے جوانوں"کا موقف تھا کہ چونکہ غریب گنڈا مار نے پولیس کی وین کو بھی "زخمی"کیا ہے اس لئے اس حالت میں بھی " خرچے پانی "کا بندوبست کردو ، ورنہ کچھ کرسکتے ہو تو کرلو، اور وہ غریب گنڈا مار اپنے بچوں کو دیکھ کردل ہی دل میں کھول رہا تھا کہ ان بچوں کا پیٹ بھرو ں یا ان "حرام خوروں " کا جو اتنی زیادتی کے باوجود بھی بدمعاشی پر تلے ہوئے ہیں-

ہمارے کچھ دوستوں کو اطلاع ملی جنہوں نے موقع پر پہنچ کر زخمی ہونیوالے شخص کا بیان ریکارڈ کردیا اور ساتھ میں اس کی تصاویر لی -ساتھی وہاں پر ہسپتال میں تھے کہ مجھے افغان مہاجر کو زخمی کرنے والوں کا فون آیا کہ ہم توزخمی کا بہت خیال کررہے ہیں اور اپنے جیب سے اس کا علا ج کررہے ہیں لیکن اپنا بھائی سمجھ کر ہمارا خیال کریں ، میں نے بھی روٹین کی بات سمجھ کر ہاں کہہ دیا کہ چلو "ہاتھ ہولا رکھینگے" -کچھ دیر بعد ایک جونیئر کا فون آیا کہ بھائی میں آپ کے فلاں دوست کا بھائی ہو ، جس بندے سے یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ میرا دوست ہے اور اس کا خیال رکھیں ، میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی میرے میں تو یقین دہانی کرا چکا تھا لیکن تمھیں پتہ ہے کہ وہاں پر کیا ہوا ہے کہ توجونیئر صحافی نے جواب دیا کہ گنڈا مار نے پولیس وین کو ٹکر مار دی- میں نے جوابا اس سے پوچھا کہ تم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہو ، کیا گنڈا مار پولیس وین کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر موٹر سائیکل پولیس وین سے ٹکراتا ہے- تم اس دوست اور میرا خیال کئے بغیر خدا کے خوف سے صحیح جواب دو ، جس پر اس صحافی نے کہا کہ "سرجی آپ کی بات ٹھیک ہے" میں نے پھر اس سے کہا کہ اگر ایسا میر ا بھائی بھی کرتا تو جو کچھ میں کررہا ہوں ایسے ہی میں اس کے ساتھ بھی کرتا - بھائی ہونا اپنی جگہ لیکن کیا خدا کے سامنے میرا بھائی میرے لئے کھڑا ہوگا جس کے جواب میں جونیئر صحافی نے موبائل فون بند کردیا-

اور پھر موبائل فون میں پولیس کانسٹیبل نے پانچ سو روپے کا ایزی لوڈ کردیا جیسے اس نے مجھے خریدنے اور منہ بند رکھنے کی کوشش کی کہ بھائی یہ پانچ سو روپے کا ایزی لوڈ لو اور خاموش ہو جاؤ-یقینااللہ تعالی کے اس خوبصورت جہان میں قیمت ہر کسی کی لگتی ہیںیہاں ہر شخص دوسرے کو اپنے نظر میں تولتا ہے اور اس کی قیمت لگا دی جاتی ہیں- کچھ لوگ یقیناًخریدار کی دی ہوئی رقم پر بک بھی جاتے ہیں کچھ ڈیل کرجاتے ہیں ، کچھ خریدے جانے کی آس پر ساری عمر رہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں خریدا ہی نہ جائے - )میں صحافی ہوں ہمیشہ اپنی نظر سے مسائل کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہو اگر کچھ لوگوں کو مسئلہ ہو تو وہ حکومتی ترجمان بننے کے بجائے متعلقہ پریس انفارمیشن افسران کوایکٹیو کریں(
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 426029 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More