خود کشی یا معاشرتی قتل

ہمارے ملک میں آئے روز نت نئی خبریں سننے کو ملتی ہیں جو کہ معاشرے کے عمومی رویے میں تبدیلی ، معاشرتی اقدار میں تنزلی ، ٹوٹتے بکھرتے خاندانی نظام کی غماز ہیں ۔چند دن پہلے میری نظر سے اسی طرح کی ایک چونکا دینے والی خبر گزری ۔یہ خبر نہ صرف پریشان کن تھی بلکہ انتہائی افسوس ناک بھی تھی۔ معاشرتی رابطے کی ویب سائٹ اورتقریبا تمام میڈیا نے اس خبر کو ایک واضع جگہ دی گئی ۔یہ خبر کراچی کے دو بچوں کے متعلق تھی جنھوں نے محبت کی خاطر خود کشی کی ۔ ۔کراچی ، سولجر بازار پٹیل باڑہ کے سرکاری سکول کے یہ طالب علم جن نے نام بالترتیب نوروزاور صبا ء تھے ۔یہ بچے جن کی عمریں پندرہ اور سولہ برس تھیاور دونوں ہی میڑک کے طالب علم تھے ۔انھوں نے منگل مؤرخہ یکم ستمبر کو اپنے ہی سکول میں خودکشی کرلی ، نوروز نے فاطمہ بشیر عرف صباء کو گولی مار کراسی پستول سے اپنی جان بھی لے لی ۔خودکشی سے قبل دونوں نے اپنے اپنے والدین کے لیے خطوط بھی چھوڑے جن میں لکھا گیا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور والدین کے بغیر بھی نہیں رہنا چاہتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی شادی کے لیے راضی نہیں ہوں گے اس لیے وہ اپنی مرضی سے خودکشی کر رہے ہیں اور کسی کو اس اقدام کا الزام نہ دیا جائے ۔جمشید ٹاؤن کے سپریٹنڈنٹ پولیس کے مطابق پولیس کو لڑکے کے سکول بیگ سے مزید کچھ خطوط ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں اور انھوں نے خودکشی اچانک نہیں کی بلکہ کئی روز کی باقاعدہ پلانگ کے بعد یہ قدم اٹھایا ۔

اتنی کم عمری میں اس حد تک بڑا قدم اٹھا لینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچے اب عمر سے پہلے بڑے ہونے لگے ہیں ۔ ہماری اگلی نسل میں نفسیاتی مسائل بڑھنے لگے ہیں ۔ان نفسیاتی مسائل میں اضافے کی پہلی بنیادی وجہ ہمارا میڈیا ہے ۔ تقریبا ہر پروگرام ، ہر ڈرامہ یہاں تک کہ کارٹون تک محبت ، بالخصوص مرداورعورت کی محبت کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں خصوصا فلمیں ۔کیبل پر ہر قسم کا پروگرام چاہے وہ کسی بھی ملک کا ہو ، ہماری اقدار سے متصادم ہو ،اس میں کسی بھی قسم کے لباس کی تشہیر ہو یا کسی بھی خیال کی، وہ آن آئیر کر دیا جاتا ہے ۔ بعض پروگرام حقیقت سے کہیں دور ہوتے ہیں ۔ کیبل کی موجودگی نے ہر ایک کو کوئی بھی مواد دیکھنے میں کھلی آزادی دے دی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ والدین کی عدم موجودگی میں بچے ایسے پروگرام دیکھتے ہیں اور ان پروگراموں میں دیکھائے جانے والے کردار ان کے معصوم ذہنوں میں ثبت ہو کر رہ جاتے ہیں ۔بچے محبت کو اپنی زندگی کے اور کئی مقاصد سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں ۔ وہ ان مصنوعی کرداروں کو اپنی اصل زندگی میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جب یہ مصنوعی کردار انھیں تلخ زندگی میں نہیں ملتے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس مایوسی میں وہ بعض اوقات ایسے فیصلے اور عمل کر گزرتے ہیں جوکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ۔اکثر و بیشتر ایسے فیصلے والدین کے لیے پوری عمر کا پچھتاوہبن جاتے ہیں ۔

اس رویے کو اپنائے جانے کی دوسری بڑی وجہ والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت کی جانب سے لاپرواہی اہم ہیں ۔ والدین چاہے وہ والد ہو یا والدہ دونوں کی تربیت بچوں کے لیے لازمی حیثیت کی حامل ہے ۔ والدہ بچوں کی چاہے کتنی ہی اچھی تربیت کیوں نہ کر لے والد اس فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا ۔ بچوں کو زیادہ وقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بچوں کو اس حد تک اعتماد دیں کہ وہ اپنا ہر مسئلہ، اپنی ہر سوچ والدین سے شیئر کرسکیں ۔ اپنے ہر مسئلے میں والدین کی رائے لے سکیں اور والدین کی رائے کو اہمیت بھی دیں ۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہو اور وہ بچوں کی سطح پر جا کر بات کریں ۔ والدین کو اپنے بچوں کے احساسات اور جذبات کا احترام کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ برحال اگر وہ غلط فیصلہ کرنا بھی چاہ رہے ہوں تو والدین کو انھیں پیار سے سمجھانا چاہیے ۔ اگر وہ نہ سمجھیں تو انھیں یہ غلدفیصلہ کرنے دیں اور بعد میں اس فیصلے کو درست کر لیں ۔ کیونکہ والدین اپنی دانست میں اپنے بچوں کی بھلائی چاہتے ہیں لیکن اس کوشش میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے بچوں کے جذبات کو ٹھیس بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ ان کی سختی یا بچوں کا خیال نہ رکھنا بچوں میں جذباتی توڑ پھوڑ کا سبب بنتا ہے اس طرح بچے یا تو نفسیاتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں یا پھر انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ۔ والدین کو بچوں کی محبت کے ساتھ ساتھ ان کی خوشی ، ان کے جذبات کا احترام بھی کرنا چاہیے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب والدین اپنے بچوں پر اعتبار کریں اور انھیں جس حد تک ممکن ہو وقت دیں ۔عموما دیکھا گیا ہے کہ بچوں پروالدین شک کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے چور راستے ڈھونڈتے ہیں اور بہت سے کام چوری چھپے کرنے لگے ہیں ۔والدین کو علم ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کے بچے کس ڈگر پر چل نکلے ہیں اور کس حد تک آگے جا چکے ہیں ۔ میڈیا پر دیکھائے جانے والے پروگراموں نے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی ڈال دی ہے کہ والدین کا زمانہ بیت چکا ہے اور اب وہ نئے زمانے کی سوج بوجھ نہیں رکھتے اس سوچ کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری ہے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ والدین بچوں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں اپنے علم میں اضافہ کریں تاکہ وہ خود کو زمانے کے مطابق ثابت کریں ۔

اس رویے کی تیسری بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال ہے ۔ سوشل میڈیا نے جہاں ہمارے رشتوں میں دوریاں پیدا کی ہیں وہاں والدین اس حد تک مصروف ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔ ہر ایک شخص اپنے سے کہیں کوس دور شخص کے لیے تو پریشان ہے مگر وہ اپنے ہی گھر میں بسنے والے افراد کی حالت سے نا واقف ہے ۔ یہ وجہ بھی والدین اور اولاد کی دوری کا سبب ہے ۔

اس کے علاوہ بچوں میں پنپنے والے باغیانہ خیالات کی ایک بہت بڑی وجہ والدین کا حد سے زیادہ لاڈ پیار یا حد سے زیادہ سختی بھی ہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں بچے بگڑتے ہیں ۔ حد سے زیادہ لاڈ پیار بچوں کو بدتمیزی کی حد تک ضدی بنا دیتا ہے اور وہ اس بے جا لاڈ پیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ہر بات چاہے وہ درست ہو یا نہیں منوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر ان کی بات نہ مانی جائے تو وہ ہر طرح کا حربہ استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس بچوں پر بے جا سختی انھیں والدین سے بدظن کرتی ہے ، یہ سختی والدین اور بچوں کے درمیان ایک حد فاضل قائم کر دیتی ہے اور بچے والدین سے اپنے مسائل اور اپنی خواہشیں چھپانے لگے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔چاہے وہ غلط ہوں یا درست ۔

بچے ہمارا مستقبل ہیں ۔ ملک وقوم کی بقا ء کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی ذہنی نشو و نما پر توجہ دی جائے ۔ بچوں کی بہترین نشوونماء کے لیے اہمیت اس امر کی ہے کہ والدین اعتدال کا راستہ اپنائیں ۔نہ تو زیادہ سختی کریں اور نہ ہی بے جا نرمی برتیں ۔ بچوں پر سختی بھی کریں لیکن ایک حد تک کہ وہ آپ سیبدظن نہ ہوں ، ان کے دل میں آپ کی بات ماننے کا جذبہ ضرور ہو لیکن آپ کا خوف نہ ہو اور اگر لاڈ پیار بھی کریں تو ایک حد میں رہ کر کہ بچے بگڑیں نہیں ۔ اپنے بچوں سے دوستی کریں تاکہ وہ اپنے مسائل ، اپنے خیالات وقتا فوقتا والدین کو بتاتے رہیں ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کے معاملات میں دلچسپی لیں ۔ان سے ان کے مشاغل اور تعلیم کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے رہیں تاکہ انھیں محسوس ہو کہ وہ کسی موڑ پر بھی اکیلے نہیں ہیں ۔ ان کے والدین ان کے ساتھ ہیں ۔
 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149511 views i write what i feel .. View More