مسلم معاشرے میں معاشرتی مسائل اور امراض کی کثرت
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ارباب علم،اہل سیاست اورخود ہر
شہری اپنی ذمہ داریاں اداکر یں
مسلم معاشرے میں معاشرتی مسائل اور امراض کی کثرت:تجزیاتی رپورٹ
ہمارا معاشرہ مختلف مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔مہنگائی کا بڑھتا ہوا
سیلاب ایک عام اور غریب آدمی کیلئے موت سے کم نہیں۔یہ وہ مسئلہ ہے جو
غریبوں اور محنت کشوں کیلئے تمام نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے۔بیماری، بیروزگاری،
گھریلوجھگڑے، جائیداد کے تنازعات،تعلیمی نا انصافی، معاشرے میں پیسے کی غیر
مساوی تقسیم، انصاف اور قانون کی راہ میں حائل کرپشن ، معاشرے میں رونما
ہونے والے دلدوز مناظر،انسانی ذہن پر اثرانداز ہونے والے ناگہانی واقعات،بد
امنی،بے سکونی،عدم تحفظ ، عدم اطمینان،معاشی مسائل،فرقہ وارانہ فسادات ،ڈاکہ
زنی، عورتوں کیساتھ ہونے والی ذیادتیاں، بچوں کی عصمت دری، بد عنوانی، بلیک
میلنگ،دھوکہ دہی، بے ایمانی، حقوق کی پامالی، خود کش دھماکے، دہشت گردی ،آئے
دن گلیوں اور بازاروں میں ہونے والے قتل کے لرزہ خیز واقعات،ڈکیتی کی
وارداتیں،پرس چھیننے اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں عام ہو چکی
ہیں۔اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں گے تو معلو م ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں
معاشرتی برائیوں کے ساتھ بیماریاں بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔دمہ،ٹی
بی،کینسر،بلڈ پریشر،ذیابطیس، دل کے امراض ،ذہنی تناؤ،فکراورخوف وغیرہ امراض
کا تناسب کافی زیادہ ہوچکاہے۔خاص طور پر لڑکیوں اورعورتوں میں امراض کا
تناسب ببہت زیادہ ہے۔اصحاب فکر، دانش مند حضرات اور ڈاکٹرس نے اس کی مذکورہ
وجوہات بتائی ہیں۔
کثیر آبادی:ہماری سوسائٹی میں اب بھی ایک چھوٹے سے مکان میں پوری پوری
جوائنٹ فیملی گزاراکررہی ہے۔اس کا سبب گنجان آبادی ہونے کی وجہ سے رہائشی
مقامات پرجگہ کی تنگی ہے یا یہ لوگ پریشانی برداشت کرنے کے بعد بھی ایک
ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ معاشرتی تکالیف کو برداشت کرتے
ہوئے تم ایک جگہ ایک ہی مکان میں گزارا کرو،بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے جہاں
بھی رہوسب کے حقوق اداکرو۔کم جگہ ہونے کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کے قوانین
پربھی مکمل طریقے سے ادائیگی میں کمی آتی ہے، ساتھ ہی صاف صفائی میں کمی ،گردوغبار
کی کثرت،اتی کرمن اور تہذیب وثقافت کا فقدان نظرآتا ہے۔ان وجوہات کے سبب
بہت سے سماجی اور معاشرتی مسائل کا سامناہے۔
ناقص غذا:مسلم گھرانوں میں غذاپر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔اکثر
گھرانوں میں غذائیت اور غذاکی اہمیت سے ناواقف رہ کر یاعادتاً صرف چکن،
مٹن،مچھلی یا گوشت کے آئٹمس کھائے جاتے ہیں۔جبکہ امراض سے بچنے اور قوت
مدافعت بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے سبزی ترکاری ،دال اور پھل فروٹ کا
ہونا بہت ضروری ہے۔پروٹین،وٹامنس اور کیلشیم کی کمی کے سبب دماغی وجسمانی
کمزوری وتناؤجیسے بہت سے امراض پائے جاتے ہیں۔جس کی طرف نہ ہی توجہ دی جاتی
ہے اور نہ ہی ان امراض سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پرعمل کیاجاتاہے۔
ناقص معلومات:آدھی ادھوری معلومات ہمارے معاشرے کے لیے ناسور ہے۔اسلام نے
ہمیں زندگی گزارنے کا مکمل دستور دیاہے مگر افسوس! ہماری اکثریت اس خدائی
قانون سے بے بحرااور ناآشنا ہے۔بہت سی ایسی بیماریاں جن کی احتیاطی تدابیر
پر عمل کیا جائے تو ان سے بچا جا سکتا ہے،بروقت ٹیکہ ا ورویکسین کے استعمال
سے خود کو اور اہل خانہ کو بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے مگر کیا کریں مسلم
علاقوں کا عالم یہ ہے کہ معلومات ہونے کے باوجود والدین اپنے بچوں کو ابھی
بھی گٹر میں یا دروازے کے سامنے بیت الخلاء کراتے ہیں جب کہ ان جراثیم کے
نقصانات سے وہ بخوبی باخبر ہوتے ہیں۔اب اسے کم علمی کہہ لیجئے یا یہ کہہ
دیجئے کہ ہم تبدیل ہونے کو تیار ہی نہیں ہے۔
والدین کی غفلت:حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایاکہ بچے کا
اچھاسا نام رکھو،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کرواورجب بچہ بالغ
ہوجائے تو دین دار گھرانے میں شادی کرادو۔مگر افسوس!ہمارے معاشرے میں تینوں
کاموں پرخاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔اسلاف کے ناموں کو فرسودہ اور قدیم
کہہ کر فیشن ایبل اورایکٹرس کے نام منتخب کئے جاتے ہیں۔بچوں کی تربیت اور
شادی بیاہ کے موجودہ اصول کیسے ہے شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔اگر یہ کہوں
تو بے جا نہ ہوگا کہ بچوں کی تربیت میں کمی ہی ان کی غیر اخلاقی حرکات کا
اہم سبب ہے۔اگر والدین بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں تو سوسائٹی میں
وقوع پذیر ہونے والی فحش حرکات واعمال میں یقیناکمی آئینگی۔
تعلیم کی کمی: ہمارے طلبہ وطالبات کی اکثریت دسویں اور بارہویں کے بعد اپنا
تعلیمی سلسلہ منقطع کردیتے ہیں اور جو تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے بھی ہے تو
وہی روایتی کورسیس میں داخلہ لیتے ہیں جن کی تکمیل کے بعد سروس ملنے کے
امکانات کم ہوتے ہیں۔پھر کہاجاتا ہے کہ پڑھ لکھ کرکیا فائدہ؟ ہمارے ساتھ
تعصب ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔تعلیمی معیار کم ہونے کے سبب تجارتی ،معاشی،ثقافتی
اورتہذیبی غرضیکہ ہر میدان میں ناکامی ومایوسی ہاتھ آتی ہے نتیجتاً
مفلسی،تنگ دستی اور غریبی آگھیرتی ہے۔اور اسی غریبی کے سبب مذکورہ بالا
پوراچکر جاری ہوجاتا ہے۔یعنی کہ تعلیم وتربیت کی کمی،غذائیت کی کمی،صحتی
گراوٹ ،نت نئے امراض اوراحساس کمتری جیسے امراض جنم لیتے ہیں اور بعض لوگ
اپنی معاشی کمی کو دور کرنے کے لیے غلط سمت یا جرائم کی طرف گامزن ہوجاتے
ہیں۔جس کی دلیل ہندوستانی جیلوں میں قید ساٹھ فی صد قیدی مسلم ہے،اب اس کے
کیا اسباب ووجوہات ہیں یہ ایک مستقل باب ہے۔غریبی ومختلف امراض کا شکار شخص
ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ احساس کمتری یا پھر احساس ندامت کا شکار ہو
جاتا ہے، اکیلے پن کا شکار ہو جاتا ہے ،کسی بھی قسم کاکام کرنے کو دل نہیں
چاہتا، ارد گرد کی چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔یہاں تک کہ دوستوں عزیز و اقارب
اور اپنے ہی بچوں سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔یہاں تک کہ بعض اوقات ایسے
لوگوں کا رجحان خود کشی کی طرف چلاجاتاہے اور وہ اپنے آپ کو ختم کرنے کے
بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو معاشرے کا کمترین حصہ تصور کرتے
ہوئے بعض اوقات وہ خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔
خراب عادتیں:ہماری آبادی میں بیڑی ،سگریٹ ،پان،تمباکو،نشہ آور ادویات، فلم
بینی اورگٹکا کھاناوغیرہ جیسی خراب عادتوں کو برا تصور ہی نہیں کیاجاتا۔ان
کے نقصانات سے ہر کوئی واقف ہے ،باوجود اس کہ جہالت کی ایسی چادر چڑھی ہے
کہ اپنی حلال کمائی کو بچوں کی تعلیم،والدین کی نگہداشت،خانگی اخراجات اور
قرض کی ادائیگی کے احساس سے بالاتر ہوکر بلاخوف وخطر اپنی خواہشات کی تکمیل
پر خرچ کیاجاتا ہے۔فضول خرچی بھی کسی پر مخفی نہیں۔
یہ تمام نکات صرف ایک اشاریہ ہے۔اس میں موجود ہر ضمنی عنوان ایک مستقل
موضوع ہے۔ارباب علم،اہل سیاست اور سماجی فلاح وبہود کے اداروں کے ذمہ داران
کو چاہئے کہ اس ضمن میں غوروخوض کریں اور ہماری سوسائٹی کو سنوارنے کے لیے
مستقل جدوجہد کریں۔حضور ﷺنے فرمایاجس نے کوئی ایسا دن گزاراجس دن اس نے امت
مسلمہ کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی کام نہیں کیا،اس دن وہ ہمارے معاشرے کا
ممبر نہیں۔ |
|