کتنی دل دہلا دینے والی خبرہے۔
حادثہ، سانحہ اور المیہ جیسے الفاظ چھوٹے پڑجاتے ہیں۔ 31اگست 2015کی صبح
کراچی میں ایک سولہ سالہ طالب علم نوروزنے اپنی 15سال کلاس فیلو فاطمہ کو
گولی مارنے کے بعد ٰخودکشی کرلی۔
جمشید ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اخترفاروق نے بتایا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک
دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ خودکشی سے پہلے دونوں نے خطوط بھی چھوڑے ہیں جس
میں انھوں نے اس خدشے کااظہار کیاہے کہ ان کے والدین ان کی باہمی شادی نہیں
ہونے دیں گے لہٰذاوہ اپنی مرضی سے خود کشی کررہے ہیں۔اس کام کے لیے لڑکی
اپنے باپ کا لائسنس یافتہ پستول ساتھ لائی تھی۔
خودکشی سے دوروزقبل نوروزنے اپنے فیس بک اکاؤنٹ ہی پر لکھ دیا تھا:Tomorrow
I will die(میں کل مرجاؤں گا۔) 30؍اگست کو نوروزکے فیس بک اکاؤنٹ پر First
love never diesکی عبارت پر مشتمل ایک اور پوسٹ بھی موجود ہے۔ ساتھ ہی لکھا
ہے کہ دھوکا بھی پہلی محبت دیتی ہے۔ اسی طرح نوروزکے فیس بک کی پروفائل
پرایک لڑکے اور لڑکی کی اجتماعی خودکشی کی تصویربھی موجودہے۔
دوسری جانب 15سالہ فاطمہ کی فیس بک آئی ڈی پر I Love Naurozکی واضح
تحریرموجودہے۔ علاوہ ازیں دونوں کمسن طلبہ کی فیس بک والزپر ہندوستانی
اداکاروں اور اداکاراؤں کی تصاویرکی بڑی تعدادبھی موجودہے۔جس سے معلوم ہوتا
ہے کہ یہ دونوں کلاس فیلو فیس بک کااستعمال کرتے تھے اور انڈین فلمیں بھی
دیکھا کرتے تھے۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہورہاہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات کا
ذمہ دارکون ہے؟والدین، اساتذہ، معاشرہ، انٹرنیٹ، ٹی وی، موبائل کا بے
جااستعمال، انڈین فلمیں، مخلوط تعلیم یا کوئی اور!
اگراس واقعے کا تھوڑا سا تعلق بھی کسی مدرسے اور مسجدسے جڑتاتوپھرسوال پیدا
ہونے سے پہلے ہی ذمہ داروں کا تعین ہوجاتا۔ پھر کراچی تا خیبراوراسلام آباد
تا واشنگٹن میڈیا مدرسے، مولوی اور جہادی لٹریچرکو لعن طعن کا نشانہ بناتے
اور دل کھول کر خوب زوروشورسے انسانی حقوق کا ڈھنڈوراپیٹتے۔ لیکن چونکہ
ایسا نہیں اس لیے اس وقت ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر اس باب میں
تقریباً خاموشی ہے۔ البتہ کہیں کہیں دھیمے سُروں میں ہمیں سمجھایاجارہاہے
کہ اصل ذمہ دارسماجی اقدارہیں۔ جس میں دومختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں
کو شادی کی اجازت نہیں۔ یاپھراسلحہ پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے یہ حادثہ
رونماہوگیا۔ حالانکہ محبت کے راستے میں فرقہ توکیامذہب بھی رکاوٹ نہیں
بنا۔اسی طرح پستول کے علاوہ پھندے سے لٹکنے ، پل سے چھلانگ لگانے اور
زہرخوری جیسے خودکشی کے طریقے اب بھی موجودہیں۔
کیاہوا؟۔۔۔۔ کیوں ہوا؟ ۔۔۔۔کیوں کرہوا؟۔۔۔یہ جاننے کے لیے ہم دونوں
نوخیزمقتولین کے اُن خطوط کا جائزہ لیتے ہیں جوانھوں نے خودکشی سے پہلے
لکھے ہیں۔
یہ دونوں خطوط سکول کی ایک ہی کاپی کے کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں۔ خط سے معلوم
ہوتا ہے کہ لکھنے والابھی ایک ہی ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے والدین کوالگ الگ
مخاطب کیا ہے۔ یہ خطوط رومن(اردو)میں لکھے ہوئے ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے خط
میں ایک جیسے خدشے کا اظہارکیاہے۔ مثلاً لڑکا لکھتا ہے کہ’’ میں صرف فاطمہ
کو اپنی بیوی بنانا چاہتا ہوں جو آپ لوگوں کو منظورنہیں ہے۔ اس لیے اپنی
مرضی سے خودکشی کررہاہوں۔زندگی میں آپ ہمیں ایک نہیں ہونے دیں گے لیکن اﷲ
کے پاس ہم ایک ساتھ جانا چاہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح لڑکی لکھتی ہے کہ ’’پاپامیں
نوروزسے بہت محبت کرتی ہوں میں جانتی ہوں کہ آپ نوروزکو میرا ہونے نہیں دیں
گے اور کسی اور کے ساتھ میری شادی کریں گے۔ اس لیے میں خودکشی کررہی ہوں۔اس
جنم میں ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اس لیے ہم مرکرایک ہوں گے۔‘‘
دونوں نے اﷲ سے اپنے والدین کی حفاظت کی دعا بھی کی ہے۔
لڑکالکھتا ہے:’’گاڈمیری مم اور ڈیڈکا خیال رکھنا۔ گاڈمیں آرہاہوں آپ کے
پاس۔‘‘ لڑکی لکھتی ہے:’’تھینکس گاڈجی کہ آپ نے مجھے اپنے پیارسے ملادیاہے۔
گاڈجی میری ماما اور پاپا کا خیال رکھنا۔‘‘
دونوں نے اپنے اپنے والدین سے آخری خواہش یہ ظاہر کی ہے کہ ان کی قبریں
ساتھ ساتھ ہی بنائی جائیں۔
ان کے ماں باپ کے بیانات ابھی تک سامنے نہیں آئے جن سے تفصیلات کا پتا چلے
لیکن خط کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی سے انکار کا کوئی واقعہ رونما
نہیں ہوا،یہ محض خدشہ تھا۔ ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز نے ہوس کو اتنا مہمیز دیا جس کی وجہ سے
15,16برس کی کچی عمر کے بچوں نے لیلیٰ مجنون اور شیریں وفرہاد کی داستانوں
کو پیچھے چھوڑ کر عشق ومحبت کی نئی داستان رقم کرلی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگلے جنم میں ساتھ رہنے ، عشق، محبت کی انتہاؤں کو
خودکشی کے ذریعے پارکرنے جیسے تخیلات انڈین فلموں اور ڈراموں میں پائے جاتے
ہیں اور یہ انھی کی دین ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انڈین فلمیں دیکھ دیکھ کر
پیارمحبت ، خودکشی کرنے اور اگلے جنم میں ایک ہونے کی تعلیمات نے ایک
تصوراتی دنیا سجائی ۔تصوراتی فضا انڈین فلموں نے بنائی۔ والدین کی عمومی
غفلت اورمخلوط تعلیم نے تخیل کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے مہمیزکا کام
کیا۔یوں دونوخیزبچوں نے نہ صرف خودکشی کو مہم جوئی اور کھیل سمجھ کراپنی
دنیا اورآخرت کی بربادی کاسامان کیابلکہ اپنے اپنے خاندانوں کو تاحیات
المیے سے بھی دوچارکیا۔
مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کو یہ نہ سکھایاگیاہوکہ زندگی
اﷲتعالیٰ کی امانت ہے۔ اور اس کو قتل یاخودکشی سے ختم کرنا حرام ہے۔ اور اس
طرح زندگی کاخاتمہ کرنے والے مرنے کے بعد خوش وخرم اور ایک ساتھ نہیں رہ
سکتے بلکہ جہنم میں جلیں گے۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں بچوں کی اس
ناقص تعلیم وتربیت کا ذمہ دارکس کو ٹھہرایاجائے۔؟
والدین کو !جو روزی کی تلاش میں کولھوکے بیل بنے ہوئے ہیں۔ درسگاہوں کو!
جہاں تعلیم بیچی جارہی ہے۔رٹے پر استوار تعلیمی نظام کو! جس نے استاداور
طالب علم کے مقدس رشتے کو آجر اور آجیر یا گاہک اور دکان دارکا تعلق
بنادیا۔
علما اور فقہاکو! جو نئی نسل کے مسائل اور معاشرتی ضروریات اور ان سے جڑے
مسائل کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔
اقتدار کے کھیل میں ہر حد سے گزرنے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ! جو
سرتاپیرکرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
بے لگام میڈیا کو ! جس کا ہر پروگرام اورہر اشتہار عریانی، فحاشی اور ہوس
پرستی میں لتھڑا ہواہے۔ جورام لیلا، عاشقی اورعشق زادے جیسی فلموں کو فروغ
دیتے ہیں۔ جو مُلا کو، مدرسے کو اور اسلام کو گالی دینے کا کوئی موقع ضائع
نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتالیکن
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسئلہ صرف یہی ایک نہیں اور نہ خرابی کسی ایک طبقے یا
شعبے تک محدود ہے ۔ آوے کا آواہی بگڑاہوا ہے اورہرطرف فسادہی فساد ہے۔حالات
کیسے ٹھیک ہوں گے؟الجھے ہوئے دھاگوں کا ڈھیر ہے جس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں
آتا۔کوئی کہتا ہے کہ پولیس کے نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے۔کوئی عدالتی نظام
کو عدل وانصاف پر استوارکرنے کا خواہاں ہے۔کوئی کرپشن کو بیخ و بن سے
اکھاڑنے کا عزم رکھتا ہے۔کوئی تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں
سارے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن یہ سب اس
وقت تک خواہشات ، تمنائیں اورخواب ہیں جب تک ہم اپنا قومی نصب العین نہ
پہچانیں۔ہمارا قومی نصب العین پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے جس کے
لیے پاکستان بنا تھا۔ ہمارے سارے مسائل کا حل اسی نظام میں ہے ۔ اﷲ اور اس
کے رسول کے نفاذ کے لیے کوشش صرف ایک جماعت کاکام نہیں، بلکہ یہ ہرپاکستانی
مسلمان پر فرض ہے۔
جب تک اسلامی نظام کانفاذنہیں ہوگا۔ اس دھرتی پر ظلم کا راج ہوگا۔ یہاں جان
ومال اور عزت محفوظ نہیں ہوگی۔
حقوق غصب ہوتے رہیں گے۔مستقبل تاریک اور حال بدحال ہوگا۔ خودکشیاں ہوں گی،
قتل وغارت گری ہوگی۔ ڈاکے ہوں گے، چوریاں ہوں گی۔ ہم گدھوں ، کتوں اور
سوروں کا گوشت کھاتے رہیں گے اور مسائل کارونا روتے رہیں گے۔
روشنی یا اندھیرے۔۔۔۔ انتخاب آپ کااور فیصلہ آپ کا
|