نو خیز محبت
(Ahmad Raza Mian, Lahore)
ہم اپنے معاشرے میں ہر قسم کی
برائی کو میڈیا کی کارستانی گردانتے ہیں۔ حالانکہ ایسی برائیاں اس وقت بھی
رونما ہوتی رہی ہیں جب میڈیا کا وجود نہیں تھا۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے وہ
اچھائی کے ساتھ ساتھ برائی کا مرتکب بھی ہوتا آیا ہے۔ سب سے پہلے ابن آدم
قابیل نے ہابیل کو قتل کر کے ایک انسان کی دوسرے انسان سے نفرت اور بغض کی
بنیاد رکھی تھی ۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل ہونے کی وجہ ایک عورت بنی۔اُس
وقت نہ تو کوئی اخبار چھپتا تھا ، نہ کسی ڈائجست یا ناول کا تصور تھا اورنہ
ہی کوئی ٹی وی چینل معرض وجود میں آیا تھا۔برائی کسی اخبار، ناول یا ٹی وی
چینل میں نہیں ہے برائی اصل میں انسان کے اپنے ہی اندر چھپی ہوئی ہے۔انسان
کے اندر کی یہ برائی بیرونی محرکات سے باہر آتی ہے۔ اور یہ بیرونی محرکات
بھی ہمارے اپنے ہی وضع کیے ہوئے ہیں۔ اﷲ نے انسان کو عقل اور شعور دیا ہے۔
اس عقل اور شعور کا استعمال کرتے ہوئے اچھے اور برے کا انتخاب اس کے اپنے
بس کی بات ہے۔جو لوگ زہر کھا کر مر جاتے ہیں وہ اس بات کا شعور رکھتے ہیں
کہ زہر ایک جان لیوا چیز ہے۔ اس لیے اگر کوئی زہر کو مورد الزام ٹھہرائے تو
اس شخص کی سوچ اور عقل پر یقینا شک کیا جا سکتا ہے۔اﷲ تعالی نے انسان کو
اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے لیے مختلف اپنی مخلوق پر مختلف نبی اور
پیغمبر بھیجے ہیں۔ صحیفے اور کتابیں نازل کی ہیں۔ تاکہ انسان ثواب اور گناہ
کے فرق کو سمجھ سکے۔جن لوگوں کو اﷲ نے توفیق دی وہ یہ بات سمجھ گئے۔ لیکن
بہت سارے ایسے بھی تھے کہ جن کے دلوں پر اﷲ کے احکامات نے کوئی اثر نہیں
کیا۔ صورت حال اب بھی ایسی ہی ہے ۔ اچھائی اور برائی کو سمجھنے کے لیے
ہمارے پاس قرآن و حدیث اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ جو لوگ اس بات کو
سمجھ گئے ان کے لیے حدایت اور دوسروں کے لیے گمراہی ہے۔
ابھی گذشتہ دنوں کراچی میں پیش آنے والے واقعہ نے پوری قوم کو پریشان کر کے
رکھ دیا تھا۔دو کم عمر محبت کرنے والوں نے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ ہمارے
ملک میں ایسے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس دفعہ
محبت کی خاطر جان دینے والوں کی عمریں کم تھیں۔ ان کی عمریں ابھی کھیلنے کی
تھیں، پڑھنے کی تھیں، مستقبل کے بارے میں کچھ نہ کچھ کرنے کی تھیں اور اپنے
والدین کے خواب پورے کرنے کی تھیں۔ لیکن یہ کم سن عاشق محبت کے چکر میں پڑ
کر اپنے والدین کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے۔ ہمیشہ کے لیے ان کو سوچنے پر
مجبور کر گئے کہ آخر انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں کون سی کمی رکھ چھوڑی
تھی۔محبت کرنا جرم نہیں ہے۔ لیکن اپنی محبت کی خاطر دوسروں کو مشکل میں ڈال
دینا سب سے بڑا جرم ہے۔جس ماں باپ کا جوان بیٹا یا بیٹی انہیں بدنامی دے
جائے۔ ان کے لیے دو غم ہوتے ہیں۔ ایک اپنی اولاد کی جدائی دوسرا ان کی طرف
سے دی جانے والی تکلیف۔جسے وہ ساری عمر سہتے رہتے ہیں۔
نو روز اور صباء نے اپنی محبت کو امر کرنے کے لیے خود کشی کر کے یہ تو ثابت
کر دیا کہ وہ محبت میں جیت گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے
والدین کی محبت کو ہرا دیا ہے ۔ جن کی محبت کے آگے عشق ایک حقیر سی شے
ہے۔دونوں بچے اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ ان کے والدین بھی ان سے بہت محبت
کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کے مر جانے کے بعد ان کا کیا حال ہو گا۔ وہ کیسے جی
پائیں گے۔اصل میں انسان بہت زیادہ خود غرض ہے۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں
سوچتا ہے۔ اسے جو اچھا لگے و ہی کرتا ہے۔ وہ اپنی ہی ضرورتوں کو اہمیت دیتا
ہے۔ اسے اپنی ہی خواہشیں عزیز ہیں۔ وہ اپنی خوشیوں کی خاطر اپنے سے جڑے
کتنے ہی رشتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ان سب باتوں میں ماحول اور تربیت
بہت معنی رکھتی ہء۔ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کی جان بوجھ کر ایسی تربیت
نہیں کرتا جس سے اس کا کردار بگڑ جائے۔ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو ایسا
ماحول فراہم نہیں کرتا جس کی وجہ سے انہیں اپنی اولاد کی طرف سے کسی تکلیف
یا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے
اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ان کا رہن سہن اچھا ہو۔ وہ دوسروں سے ممتاز ہوں۔ ہر
ماں باپ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے۔ اور یہ فکر بچے
کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔اپنے بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی کی خاطر
والدین اپنی بڑی سے بڑی ضرورت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
بچوں کی تربیت ذمہ داری ماں باپ کے بعد ان کے اساتذہ پر آتی ہے۔ اساتذہ کا
کام صرف بچوں کو تعلیم دینا ہی نہیں ان کی کردار سازی کرنا بھی ہے۔ کم عمری
میں بچوں کے لیے کیا درست ہے اور کیا غلط یہ بتانا اساتذہ کا بھی فرض ہے۔
بچے سکول میں کس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں ان پر نظر رکھنا بھی
اساتذہ کا کام ہے۔ کم سن بچوں کی سکول کے اندر خود کشی کی ذمہ داری سکول
انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ سکول میں کیا ہو رہا ہے۔ اس بات سے بے خبری
انتظامیہ کی بہت بڑی نا اہلی ہے۔نوجوان نسل کے بگڑنے میں میڈیا کے کردار کو
بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ساری کی ساری ذمہ داری صرف میڈیا پر
ڈال دینا اپنی ذمہ داری سے دست برداری کے زمرے میں آتا ہے۔کیا والدین یا
اساتذہ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ بچوں کو میڈیا کے نفع اور نقصان سے آگاہ
رکھیں۔ اگر میڈیا ہمارے معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے تو پھر ہم سب جانتے ہیں
کہ زہر کا کام زندگی کا خاتمہ ہے۔
نوروز اور صباء کی خودکشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے والدین ان سے بہت
زیادہ محبت کرتے تھے اور انہیں ان کی مرضی سے جینے کا حق دیتے تھے۔جو بچے
اپنی مرضی سے جیتے ہیں وہ اپنے کسی بھی فیصلے میں دوسروں کی مداخلت برداشت
نہیں کرتے۔ان بچوں نے بھی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے شادی کا فیصلہ کر لیا
تھا۔ اور وہ اپنے اس فیصلے میں اپنے والدین کی مداخلت نہیں چاہتے
تھے۔لہذاانہوں نے موت کو ہی اپنے لیے بہتر راستہ چنا۔ لیکن وہ یہ نہیں
جانتے تھے کہ ان کے والدین بھی ان کے ساتھ ہی جیتے جی مر جائیں گے۔ |
|