فرقہ پرستی ، عدم رواداری اورنریندرمودی

کل ہند مسلم مشاورت کے جشن طلائی میں جناب حامد انصاری کا وزراعظم نریندرمودی کے نعرے’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘پر ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ سنگھ پریوار کو راس نہیں آیا۔تنگ نظری اورفرقہ پرستی میں گردن تک ڈوبے ہوئے پریوار کے لیڈروں نے جناب انصاری کو فرقہ پرست قراردینے میں بھی کوئی تکلف نہیں کیا۔ حالانکہ اپنی سرشت سے نہ تو انصاری صاحب مسلم پرست ہیں اور نہ فرقہ پرست۔ وہ شائستہ اندازمیں وہی بات کہتے ہیں جو حق ہوتی ہے ۔ جب کہ ان پرتنقید کرنے والے بے بصربھی ہیں،بے خبر بھی اور بدنیت بھی، چاہے وہ جھنڈاسلامی کا معاملہ ہو یا یوگا ڈے میں عدم شرکت کا۔

طبقاتی بنیادپر سرکاری رویہ میں امتیازاورتعصب پرستی پر انہوں نے جو گرفت کی ہے اوراقلیتی مسائل کے ازالہ کی جو تجویزیں پیش کی ہیں وہ یقینا قابل توجہ ہیں۔ چنانچہ ابھی ان پر دانشور طبقوں اورمیڈیا میں بحث جاری ہی تھی کہ وزیراعظم نریندرمودی نے دو اورایسے ہی بیان داغ دئے ۔بظاہران کا رخ عدم رواداری اور فرقہ پرستی کی ذہنیت کی طرف ہی ہے، لیکن ان پر کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا اور ہمیں اس پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا۔ لوگوں نے سمجھ لیا ہوگیا:
خلاف ہیں تو ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھنواں ہے، آسمان تھوڑی ہے

نئی دہلی میں3ستمبرکو وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ’’تنازعات کے حل کیلئے ہندوبودھ عالمی مشترکہ پہل ‘‘عنوان سے ایک مذاکرہ میں وزیراعظم نے کہا:
“Intolerant non-state actors now control large territories where they are unleashing barbaric violence on innocent people".
’’ رواداری سے عاری غیر سرکاری عناصر وسیع علاقوں پر حاوی ہوگئے ہیں جہاں وہ بے قصورلوگوں پر وحشیانہ تشدد کررہے ہیں۔‘‘
اس کے دو ہی دن بعد 5ستمبرکو اسی سلسلے کے ایک دوسرے جلسہ میں ، جو بودھ گیا میں منعقد ہوا، مسٹرمودی نے ایک دوسری حقیقت کا اعتراف کیا۔ وہ بھی سن لیجئے:
“On the issue of conflicts — most of which are driven by religious intolerance — the participants of the conference seem to have agreed that while there is no problem about the freedom to practise one’s religion, it is when radical elements try to force their own ideologies on others, that the potential for conflict arises,”
ـ’’جہاں تک تنازعات اورتصادمات کو معاملہ ہے -- جن میں سے اکثر کا محرک مذہبی عدم رواداری ہوتا ہے -- اس کانفرنس کے شرکا ء اس امر پر متفق نظرآتے ہیں کہ اگرچہ اپنے مذہب ومسلک پر عمل کرنے کی آزادی کے سوال پر کوئی تنازعہ نہیں ہے، فساد اس وقت پید ا ہوتا ہے جب ایک مسلک یا مذہب کے حامل شدت پسند عناصر اپنے نظریہ کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کی کاوشوں کی بدولت تنازعات کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘

مسٹرمودی کے ان مشاہدات سے اختلاف کی توگنجائش نہیں، البتہ ایک گونہ حیرت اوراستعجاب کی ہے۔ان کے راج میں اپنے ملک میں کیا ہورہا ہے۔ کیا ہرادارے پر اورہرمنصب پر تنگ نظراورفرقہ ورانہ عدم رواداری کے حامل افراد کی تقرری نہیں ہورہی اور کیا اس طرح کے لوگوں کو خود انکی سرپرستی حاصل نہیں ہے؟ یہ باتیں اگر وہ اپنے آپ سے کہتے یا’ سنگھ ، بھاجپا تعاون بیٹھک‘ میں کہتے توواقعی کمال کی بات ہوتی۔

حیرت ا س بات پر ہے کہ یہ باتیں ایک ایسا شخص کہہ رہا ہے جس کی زندگی کا بہترین حصہ آرایس ایس کی توسیع اوراس کے نظریات کی تبلیغ میں گزرا۔جس آرایس ایس نے تحریروں، تقریروں اورشاکھاؤں کے ذریعہ اور اسکولوں میں اگر کسی چیز کی تبلیغ کی ہے تو وہ صرف غیر ہندوؤں سے نفرت اورتعصب کی ہے۔ اشوک سنگھل کو یہ سپنا کہ 2020ء تک پورا ہندستان ہندو بن جائے گا، پروین توگڑیا کا یہ ذہن کہ کوئی مسلمان غیرمسلم بستی میں جاکر رہ نہیں سکتا،گورکھپورکے اویدناتھ کو یہ کہنا کہ مسلمان لڑکیوں کو اٹھا لاؤ اور ہندولڑکوں کے حوالے کردو، آخر کس کا پڑھایا ہوا سبق ہے؟ آرایس ایس کے قیام (1925)سے اس کی اقلیت دشمنی کی ذہنیت کھلی ہوئی کتاب ہے۔ 1927ء میں ناگپورمیں دیوالی کے موقع پر مسلم کش فساد برپا کیا گیا۔ سنئے اس کے بارے میں سنگھ کی ایک سینئر لیڈر دتّوپنت ٹھینگری کیا کہتے ہیں:
’’ ان دنگوں میں ہندوؤں نے اتنی مار دی مسلمانوں کو کہ مسلمان سر نہیں اٹھا سکے۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوسکا تھا کہ سنہ 25میں جو سنگھ شروع ہوا تھا، جوان لوگوں کا گٹ تھا۔ اسی گٹ کی بدولت مسلمانوں پر اتنی مار پڑی۔یہ سب جان رہے تھے۔ لیکن ڈاکٹرہیڈ گیور جی کہتے تھے یہ سب ہندوؤں کے پراکرم سے ہوا۔یہ ہندوؤں کی وجے ہوئی۔‘‘

یہی ذہنیت ہمیں 2002ء میں گجرات میں سرگرم عمل نظرآتی ہے۔ یہی 1990میں آڈوانی کی سومناتھ۔ ایودھیا رتھ یاترا میں کارفرما تھی۔ یہی ذہنیت 6 دسمبر1992ء کو ایودھیامیں نظرآئی اوراس کے بعد بشمول ممبئی ملک بھر میں فساد کی صورت میں نظرآئی۔ وغیرہ۔

ہرچند کو مودی جی کو تاریخ کا کچھ اتا پتا نہیں، لیکن ایسا تو نہیں جس دریا میں انہوں نے تیرنا سیکھا اوراس کی دھار کے رخ سے بھی ناواقف ہوں گے۔ان کے برسراقدارآنے بعد یہ ذہنیت اور مستحکم ہوئی ہے۔چنانچہ 4جون 2014کو پونے میں بلا کسی اشتعال بجرنگ دل کارکنوں نے ایک نوجوان آئی ٹی انجنئر عثمان کی جان لے لی۔ اسی گٹ کے لوگوں نے اسی 25اگست کو منگلور (کرناٹک) میں کار سے اتار کر ایک معززمسلمان کا برسرعام مارمار کر ادھ مرا کردیا۔ کیا تھا اس کو قصور؟ جس فرم میں وہ افسر تھا، اسی کی ایک ہندوکارکن کو دوہزارروپیہ کی ضرورت تھی۔ وہ خاتون اس کے ساتھ اے ٹی ایم جارہی تھی ۔ بجرنگ دل کے تنگ نظروں میں سے کسی نے اس خاتون کی مدد کی؟تاہم جب وہ اپنے ساتھی کے دفاع میں بولی تو بے شرمی سے اس کو زود و کوب کیا گیا۔

مودی جی کے برسراقتدارآنے کے بعدسنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کے حوصلے بڑھے ہیں۔ جس کا اندازہ گزشتہ چند ماہ میں نریندردابھولکر، گووند پنسارے اور ایم ایم کلبرگی کے قتل اورمسٹر کے ایس بھگوان کو قتل کی دھمکی سے ہوتا ہے۔نریندردابھولکر اس لئے قتل کئے گئے کہ انہوں نے مہاراشٹرمیں اندھ وشواس نرمولن سمیتی بنائی تھی۔ گووند پنسارے نے شیوا جی پر کتاب لکھی تھی جس سے کچھ تنگ نظر لوگ ناخوش تھے۔کلبرگی کا قتل اس لئے ہوا کہ انہوں ذات اورفرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ یہ تنیوں دانشوراصلاح پسند تھے، تشدد پسندی اورتنگ نظری کے خلاف تھے۔ اسی لئے اس تنگ نظری کا شکار بن گئے جو آرایس ایس نے ہندو نوجوانوں میں ’قوم پرستی‘ کے نام پر پیدا کر دی ہے۔ کلبرگی کے قتل کے رام سینا لیڈرنے تعریف بھی کرڈالی۔

ہرچند کہ ہندستان میں ہندوؤں اور بودھوں کے درمیان کسی تنازعہ کی خبر نہیں، لیکن ایسے وقیع ادارے میں ان دومذاہب کے درمیان ہی اس مذاکرے کو محدود رکھاگیا۔ہرچندکہ یہ سوال اہم ہے جس ملک میں بودھ مذہب پیدا ہوا اور ایک زمانہ میں اکثریت کا مذہب بھی رہا، اس کا خاتمہ کس طرح ہوا اور اس میں اس برہمنی ذہنیت کا کیا کردارتھا جس کی نمائندگی آج آرایس ایس کرتی ہے؟ ایک دلچسپ مماثلت آج کے ہندوؤں اوربودھوں میں بہر حال پائی جاتی ہے۔ ہندستان میں ہندتووا کے نام پر آرایس ایس ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف لام بندکررہی ہے تو بودھ سری لنکا، برما اورچین میں اسلام اورمسلمانوں کوعتاب کا نشانہ بنارہے ہیں۔ چین نے ترکمانستان شرقیہ پر قبضہ کررکھا ہے۔ یہ ایک مسلم علاقہ ہے جس کا علاقائی، مذہبی اورثقافتی اعتبار سے چین سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اب چین نے وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ سرکاری عملے کو رمضان میں روزہ رکھنے اورکسی کو مساجد سے باہر نماز اداکرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ جمعہ کے خطبے بھی سرکاری ہدایت کے مطابق ہوتے ہیں۔ چین میں مساجد کی عمارتوں سے علامتیں ہٹادی گئی ہیں، تاکہ وہ پہچانی نہ جاسکیں۔

ویویکانند فاؤنڈیشن اورانسٹی ٹیوٹ دراصل آرایس ایس کا ہی نظریہ ساز ادارہ (think tank) ہے۔ اگراس کو واقعی بین مذاہب تنازعات کے حل سے دلچسپی ہے تواس مذاکرے میں مسلم اورعیسائی اقلیتوں اورپسماندہ طبقات کے دانشوروں کو بھی بلانا چاہئے تھا جو خود اس کی اپنی تنگ نظری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
مسٹرمودی نے مذکورہ بالا تبصروں میں اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا ، لیکن ان کا اشارہ صاف طور سے ان بدبختوں کی طرف ہے جو مشرق وسطیٰ اور پڑوسی ممالک میں مذہب اورمسلک کے نام پر خون خرابے میں ملوث ہیں۔ یہ موضوع ان کو عرب امارات کے حالیہ دورے سے ملا ہے۔لیکن بیرون ملک سرگرم ان عناصر پر تبصرہ کرتے ہوئے اگرمودی جی زراکھل کر ہندستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی تنگ نظری اور فرقہ پرستی کے عفریت پر تنقید کردیتے تویقینا ہمت کی بات ہوتی۔ اس کے برخلاف اس طرح کے واقعات پروہ خاموش رہتے ہیں ۔خاموشی کا مطلب بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس طرح کے ہرواقعہ کی، چاہے وہ ہمارے ملک میں ہو ،یاعراق، شام ،اردن، فلسطین ، یمن ، بیروت ،افغانستان، سعودیہ اور پاکستان وغیرہ میں ہو، سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اورمودی جی نے جوکہا اس کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان سے یہ گزارش بھی کرتے ہیں:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ

امید ہے کہ ان کے علم میں مسٹرکے ایس بھگوان کا یہ مشاہدہ آگیا ہوگا کہ ’’نریندرمودی کے وزیراعظم بن جانے کے بعد سے تنگ نظرعناصر کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ان کو یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت ان کو تحفظ فراہم کرائے گی۔‘‘

ان کو یہ حوصلہ اس لئے مل رہا ہے کہ دہشت گردی کے معاملات میں گرفتار بھگوا دھاری ملزموں کے ساتھ یہ سرکار مہربانی سے پیش آرہی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ایک طرف کہا جاتا ہے دہشت گردوں کو پھانسی دو اوردوسری طرح وکیل کو ہدایت دی جاتی ہے بھگوادہشت گردوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔

سلفی رہنما کوصدمہ
کل یہ اطلاع ملی ہے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم عمومی مولانا اصغرعلی امام مہدی کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ ان کے حسنات کو قبول فرمائے اور سیئات سے درگزر فرماکران کی مغفرت فرمائے ۔تمام متعلقین کو صبر جمیل سے سرفراز کرے۔آمین۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.