عزت کا معیار

تحریر: تیمور احمد لاہور، پاکستان
ہمارے یہاں انسان کی زندگی کا سب سے اہم پہلو اس کی ’’عزت‘‘ تصور کی جاتی ہے․ عزت کے جس معیار کا ذکر کتابوں میں ملا کرتا تھا اور جس کی مثالیں بزرگ حضرات دیا کرتے تھے وہ اب اپنا وجود کھو چکا ہے ۔اس عزت کے معیار اب اس قدر کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں کہ دیکھ کر عقل چکرا جاتی ہے۔
غلط کو غلط کہنا عزت کا معیار نہیں بلکہ غلط کو صحیح کہنا عزت کا معیار تصور کیا جاتا ہے۔
حلال کمانا عزت کا معیار نہیں بلکہ مال بنانا عزت کا معیار ہے۔
علم حاصل کرنا عزت کا معیار نہیں بلکہ ڈگریاں لینا عزت کا معیار ہے۔
نیکی کرنا عزت کا معیار نہیں بلکہ دکھاوا کرناعزت کامعیا ر ہے۔
عاجزی نہیں بلکہ خود پسندی یہاں عزت کا معیار ہے۔
اپنے ضمیر کی نہیں بلکہ زمانے کی سننا عزت کا معیار ہے۔ سچ بولنا نہیں بلکہ بیوقوف بنانا معیار ہے۔
انصاف کی آواز اٹھانا کوئی معیار نہیں بلکہ نا انصافی کے گُن گانا ہی عزت کا معیا ر ہے۔امن پھیلانا عزت کا معیار نہیں بلکہ بے امنی اور نفرتیں پھیلانا، کفر کے فتوے لگانا عزت کا معیار ہے۔
اصلاح یا نصیحت کرنا قابلِ عزت نہیں بلکہ ہاں میں ہاں ملانا عزت کا معیار ہے۔
سادگی معیار نہیں بلکہ شاہ خرچیاں عزت کا معیار ہیں۔ خوب سیرتی نہیں خوبصورتی معیار ہے۔
بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواناعزت کا معیار نہیں بلکہ ان کی شادی پر بے دریغ پیسہ بہانا اور بیش قیمتی جہیز دیناعزت کا معیار تصور کیا جاتا ہے۔ لڑکے کی شرافت نہیں بلکہ اس کی مہنگی گاڑی عزت کا معیار ہے۔اپنی اولاد کی ان کی پسند سے شادی کرنا نہیں بلکہ خاندان میں اونچی جگہ شادی کرنا عزت کا معیار مانا جاتا ہے۔عورت کی عزت کرنا عزت کا میعار نہیں بلکہ عورت پر حکمرانی کرنا عزت کا معیار ہے۔
قرضہ لے کر شادی و مرگ کی تقاریب نبٹانا، لوگوں کو محفل میں ذلیل کرنا۔جھوٹ،بہتان،اور گالی گلوچ یہ سب یہاں عزت کا معیارہے۔
یہاں تک کہ ونی، کارو کاری اور غیرت کے نام پر قتل بھی عزت کا معیار سمجھا جاتا ہے میرے دوست۔
اگر یہ ہی عزت کا معیار ہے تو یہاں میں بے عزت ہی اچھا۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1144817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.