قومیں

آج قائد اعظم محمد علی جناح کا یومِ وفات ہے صبح سے ٹی وی دیکھ رہا تھا شائد کوئی ڈاکو مینٹری کوئی خاص رپورٹ قائد کی زندگی کے بارے نہ سہی وفات بارے دیکھنے کو مل جائے لیکن سرسری سی وفات کی خبر کے علاوہ ماں مر جائے بکاؤ میڈیا کی جو کچھ دیکھایا ہو کیا قومیں اپنے قائد کو ایسے یاد رکھتی ہیں قوم سے یاد آیا چین چینی قوم جو اپنے قائد ماؤزے تنگ کا نام سن کر تب تک سر جھکائے رکھتی ہے جب تک اس کی بات ختم نہ ہو امریکن قوم کو صدیوں کی غلامی سے رہائی دلانے والے ابراہام لنکن کا آج بھی واشنگٹن میں مجسمہ اس قوم کی اپنے قائد کے ساتھ عقیدت کا ثبوت ہے۔ مسولینی کے یوم وفات پہ اٹلی میں آج بھی پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ لینن کو روس میں آج بھی انقلاب کا باپ سمجھا جاتا ہے ۔امام خمینی کے بنائے ہوئے قوانین آج بھی ایرانی قوم سر جھکا کر مانتی ہے ۔بھارت میں گاندھی کو آج بھی مہان لیڈر مانا جاتا ہے لیکن ایک پاکستانی قوم ہے جس کے بڑے بڑے دانشور ٹاک شوز میں بیٹھ کر علیحدہ پاکستان کا قیام قائد کی بڑی غلطی گردانتے ہیں یہ وہ دانشور ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان کا کھاتے ہیں پاکستان میں کماتے ہیں اور اپنے بچے بیرونِ ملک میں پڑھاتے ہیں اگر علیحدہ پاکستان قائد کی غلطی تھی تو یہ پاکستان میں کر کیا رہے ہیں ایک ہماری پیاری سیاسی پارٹی جو برسرِ اقتدار ہے وہ تو قائد کا نظریہ ِپاکستان جو آزاد پاکستان کی بنیاد بنا وہ انڈیا میں جا کر گنگا میں بہا چکی ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد جب قائد علیل ہوئے تب انہی دانشوروں کے باپ شور مچا رہے تھے اب پاکستان نہیں بچے گا اب پھر سے متحدہ ہندوستان ہو جائے گا لیکن اﷲ پاک کی کرم نوازی سے پاکستان آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا قائد بیمار تھے تو ان کی تیمارداری کے لیئے محترمہ فاطمہ کے سوا کوئی نہیں تھا انہیں ہسپتال شفٹ کرنے کے لئے ایک خراب اور پٹرول سے خالی ایمبولینس مہیا کیا جانا ہماری قوم کی قائد کے ساتھ الفت کا ثبوت پیش کرتی ہے ۔ گورنرجنرل کے حلف اُٹھانے کے بعد ایک دن قائد کو کچھ روپیوں کا بل پیش کیا گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح کی ذاتی استعمال کی چیزیں خریدی گئی تھی قائد اس پہ بہت برہم ہوئے اور بل اپنی جیب سے ادا کرتے ہوئے سختی سے حکم دیا کہ قوم کے ایک پیسے سے بھی کسی کی لئے ذاتی ااستعمال کی کوئی چیز نہیں خریدی جائے گی چاہے وہ محمد علی جناح ہو یا فاطمہ جناح ،قائد کے ایسے عوام دوست فیصلے ان ریڈیمیڈسیاستدانوں کو اسی وقت کھٹکنے لگے تھے ان کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑگئے آج ان سیاستدا نوں کو خارش بھی ہوتی ہے تو یہ شام ہونے سے پہلے سیاسی پروٹوکول پہ لندن کے بڑے ہاسپٹل میں پہنچے ہوتے ہیں ۔آج تک اس قوم کو یہ پتا نہیں چل پایا کہ قائد کو زہر دے کر مارا گیا تھا یا ان کی وفات ایک طبعی موت تھی اسی طرح لیاقت علی خاں کا معمہِ قتل اور محترمہ فاطمہ کو ہرایا جانا اس قوم کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے لیکن زندہ قومیں اپنے قائدوں کو بُرا نہیں کہتی ان پر کیچڑنہیں اچھالتی بلکہ ان کے نظریات ان کی سوچ کو عملی جامہ پہناکر دنیا میں ترقی کے زینے طے کرتی ہیں کاش کوئی ایک لیڈر ایسا پاکستان کو مل جائے جو قومی خزانے کو عوام کا مال سمجھے اور عوام کی فلا ح و بہبود پہ استعمال کرے نہ کے اسلام آباد میں بیٹھ کر عوام کے پیسے سے لاہور سے ناشتے منگوا کر اپنے رشتے داروں کو کھلائے جبکہ عوام کو تین وقت کی روٹی بھی مشکل سے نہ ملتی ہو۔ گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب بچہ کسی غریب کا فاقوں سے مر گیا
 
Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 75281 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.