اسلامی معاشرہ اور سودی نظام

سودی نظام معیشت نے ہمارے معاشرے کو برکت سے محروم کر دیاہے جس معاشرے میں نفسا نفسی ، خود غرضی ، مکر و فریب اور دھوکہ دہی عام ہوجائے وہاں انسانیت پرسکون زندگی بسر نہیں کرسکتی۔سودی نظام نے ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیاہے۔ سود ی نظام کی موجودگی میں ملک کی معیشت ترقی نہیں کرسکتی ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے صیہونی اداروں کے چنگل سے نکلنے کیلئے ہمیں اسلامی معیشت اور خود انحصاری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ پاکستا ن کے معا شی بحر ان کی سب سے بڑی وجہ بھاری سود ی قرضوں کا بو جھ ہے ، جس نظام کو خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے آپ سے جنگ قرار دیا ہے اس کو برقرار رکھ کر ہم کیسے معاشی ترقی اور خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں،قرآن و سنت سے متصادم سو دی نظام کے با عث ملک میں غر بت ، مہنگا ئی ،بے رو زگا ری ،چو ر با زاری ،لاقانو نیت، کر پشن کا راج ہے۔اسلام ہر علاقے اور قوم کی روایات کااحترام سکھاتا ہے، البتہ اس تہذیب میں موجود اسلامی تعلیمات اور اْصولوں سے متصادم روایات کی اصلاح بھی ضروری سمجھتا ہے۔کسی معاشرے کی روایات سے غلط عقیدے اور غلط رویوں کونکال دیا جائے تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دور حاضر، جس میں خاندانی اقدار تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں ، اگر یہ تبدیلی اسلامی تعلیمات اور سوچ کے زیراثر ہوتی تو یقینا ہم اس کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتے۔رسول پاکﷺکی اْمت کو قرآن کریم میں بہترین قوم قرار دیا گیا ہے، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بنی نوع انسان کیلئے ایک مکمل فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔ یوں تو ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ شہری کے طور پر اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ادا کرے لیکن بطور مسلمان ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی دی ہوئی نعمتوں کو دوسروں کی فلاح کیلئے استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم خدا کے ایک ہی ارشاد پر عمل کریں تو ہمارے معاشرے میں مکمل انقلاب برپا ہو سکتا اور وہ ارشاد یہ ہے کہ ’’بھلائی اور بْرائی ایک جیسی نہیں، تم بْرائی کو بہترین چیز (نیکی) سے ختم کرو۔‘‘ اگر آپکے جسم کیساتھ ساتھ آپکی روح بھی بدعنوان ہو جائے تو پھر آپ کبھی معاشرے کی فلاح اور اصلاح کیلئے کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اﷲ تعالیٰ نے شراب نوشی اور جوئے کو گندے شیطانی کاموں کا نام دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام کرنیوالا شیطان کی راہ پر چلنے والا ہے۔ شیطان کی پیروی کرکے آپ معاشرے میں کوئی بہتری نہیں لا سکتے ہیں۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے تو معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہو سکتا ہے۔اسلام جہاں معاشرے کو گناہوں سے بچانے کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا وسیع نظام دیتا ہے، وہاں خاندانوں اور ان کی عمدہ روایات کو تحفظ دینے کے لیے صلہ رحمی کے اْصول کو لازم قرار دیتا ہے۔ اسلامی حکومت ہر فرد کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔اس کے بعد رشتہ داروں اور تمام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی اخوت کے جذبے سے محروم طبقے کا دست و بازو بنیں۔ اس طرح ایک صحت مند اور مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر محروم طبقوں کو کسی طرف سے جذبہ خیرسگالی یا تعاون کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو وہ پس کر رہ جاتے ہیں اور جرائم کی دنیا میں قدم رکھ کر معاشرے سے انتقام لیتے ہیں یا پھر مایوسی کاشکار ہوکر خود کشی کی حرام موت مرتے ہیں۔سرمایہ دارانہ ذہن نے ناگہانی حالات سے نمٹنے کے لیے انشورنس کی صورت میں حل پیش کیا ہے لیکن اس سْودی نظام سے کسی کو ریلیف تو کیا ملتا یہ تو خود بہت ساری خرابیوں کی بنیاد ہے۔جب ہم ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شیطانی دھندوں کو سختی سے روکنے کیلئے موثر اقدام کرے۔ ہمارے حکمرانوں کو اﷲ کے سچے خادم بن کر سیدھے راستے پر چلنے اور ہر بْرائی سے نفرت کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ کیا ہمارے حکمران خالق کائنات سے اپنی سچی وفاداری کے رشتے کو نبھا رہے ہیں، کیا ان کا دامن مالی بدعنوانیوں کے داغوں سے بھرا ہوا نہیں ہے؟ کیا ظلم و ناانصافی ان کا چلن نہیں بن چکا؟ کیا وہ اﷲ سے ڈرتے ہوئے اپنی حکمرانی کے فرائض ادا کر رہے ہیں یا انکا ہر اقدام اﷲ کے احکامات سے بغاوت کا مظہر ہے۔ اگر ہمارے حکمران اﷲ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرینگے تو اﷲ کی مدد بھی اْنکے ساتھ شامل ہو گی اور اﷲ ہمیں اپنے ایسے غیبی خزانوں سے عطا کریگا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔جدید دور میں آزادی اور حقوق کے دل فریب اور پْرفتن نعرے کی آغوش میں مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل پارہا ہے جس میں ایک طرف کسی قسم کی قدغن نہ ہونے کی وجہ سے گناہ اور غیراخلاقی سرگرمیاں معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کے حصے بخرے ہورہے ہیں۔ خاندانوں میں رائج عمدہ روایات دم توڑ رہی ہیں۔ صلہ رحمی، باہمی تعاون، غم خواری اور انسانی ہمدردی کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں جب اسلامی اْصولوں کو بھی نظر انداز کیا جاتاہے تو اس سے تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرے کی ابتری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔صحت مند تعمیری معاشرتی سرگرمیوں کے لیے صرف مادی وسائل کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک انسان خوشی اور غمی کے مواقع کو بانٹناچاہتا ہے۔ خوشی کے موقع پر رشتہ داروں اور دوست احباب کی شمولیت خوشی کو دوبالا کردیتی ہے اور مصیبت و پریشانی کے وقت انہی لوگوں کا ساتھ غم کے زخم مندمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر وقت رشتہ داروں کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ بھلائی کا حکم دیا جائے اور بْرائی سے روکا جائے۔ خاندان میں رائج غیر شرعی کاموں کی اصلاح کی جائے۔ ایک سنجیدہ اور باوقار انسان اگر خاندان کے معاملات میں دلچسپی لے تو اسے تبلیغ دین کے لیے بہترین پلیٹ فارم مل سکتا ہے۔رشتہ داروں کی طرف سے اگر کوئی ناپسندیدہ بات سامنے آئے تو اس کی اچھی تاویل کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر وہ معذرت کریں تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ ہر وقت بدلہ لینے کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ جہاں تک ہوسکے، برائی کا بدلہ احسان سے دینا چاہئے۔ البتہ کسی کی تربیت کے لیے اور غیر شرعی کاموں پرتنبیہ کے ساتھ ناراضگی کا اظہار بھی ہونا چاہئے۔ہنسی مزاح میں اعتدال کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بسا اوقات یہ ہنسی مزاح حد سے بڑھ جاتا ہے اور بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔ جس حد تک ممکن ہو، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے رہناچاہئے۔ حدیث ِنبوی ﷺ کے مطابق اس سے محبت بڑھتی ہے۔مالی معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ خاندان کاایک باہمی تعاون کافنڈ بنا لیا جائے جس میں ہر فرد بقدرِ استطاعت حصہ ڈالتا رہے۔ اس فنڈ سے خوشی، غمی کے موقعوں پر خاندان کے ضرورت مند افراد سے تعاون کیا جائے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہئے۔ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ اور غمی کے مواقع کے لیے کچھ عجیب و غریب رسومات رائج ہوچکی ہیں جن کوپورا کرنے کے اصرار پر جھگڑے ہونا معمول کی بات بن چکی ہے۔ لاحاصل باتوں میں اْلجھ کر توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہربڑے کا احترام اور چھوٹے پر شفقت ہونی چاہئے۔بلکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے اور اسکے قوانین سب لوگوں کے واسطے ہیں اور وہ تمام مردوں،عورتوں ،مالدار ،فقیر ،کالے ،گورے،شہری یا دیہاتی بلکہ ہر طبقہ اور ہر صنف کے لئے ہدایت ہے-
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.