کچھ روز پہلے عنوان "آج کی لڑکی"
کے ٹائٹل کے ساتھ ایک آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جسکا لب لباب یہ تھا کہ
لکھنے والے بھائی صاحب کے دوست نے سوشل میڈیا سے ایک دوست بنائی پھر اسکے
ساتھ محبت میں مبتلا ہوئے۔ پھر ایک اور دوست نے مریج محبت دوست کے ساتھ شرط
لگائی کہ لڑکی کو ان سے بھی محبت ہو جائے گی۔ لڑکی کا فون نمبر لیا اور جب
بات کی تو لڑکی ایسی نکلی کہ ان نئے صاحب سے بھی محبت کر بیٹھی۔ بات کھلی
تو لڑکی نے پہلے والے صاحب کو چھوڑ کر دوسرے والے سے ہی محبت کو جاری رکھا۔
اور آخر میں کچھ اسی قسم کا اختتام تھا کہ آج کل کی لڑکیاں کس قسسم کی ہیں
محبت کو کیا سمجھ رکھا ہے ہر ایک سے کرنے کو تیار ہیں اور اسی طرح کی دیگر
باتیں بھی۔
سب سے پہلے تو جس بات نے مجھے اس آرٹیکل کو اور بھی بہت سے لوگوں کو پڑھنے
پر مجور کیا ہوگا وہ اسکا ٹائٹل تھا جس نے مجبور کیا۔ کہ آج کل کی لڑکی کے
بارے میں نہ جانے کون سا نیا نالج اور انوکھا راز بتایا جانے والا ہے۔
تعریفی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس آرٹیکل کے ویوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف آجکل کے لوگوں کو اتنا شدید شوق
ہے آج کل کی لڑکیوں کو جاننے کا۔
یہ سچ ہے کہ آج کل کی لڑکی نے ہر میدان میں خود کو منوانے کی ٹھانی ہوئی ہے
اور اس نے منوایا بھی ہے اور ہر میدان میں ہی خود کو مرد کے شانہ بشانہ
کھڑا کرنا ضروری سمجھ لیا ہے جیسا کہ فلرٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا شعبہ بھی
دیکھ لیا جائے تو اس میں بھی مردوں کو پیچھے نہیں چھوڑا۔
پہلے یہ مہارت صرف مردوں کے پاس تھی کہ وہ ایک وقت میں کئی کئی ناریوں کو
لارا لگا سکتے تھے اب یہ کام لڑکیوں نے بھی پکڑ لیا ہے۔ آخر کو آج جب
انٹرنیٹ موبائلز ہاتھوں میں موجود ہے تو اسکا کچھ تو استعمال کیا جانا
چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس
ٹیکنالوجی کا انقلاب تو آیا ہے مگر ہمارے ہاں لوگوں کو ٹیکنالوجی کا ستعمال
ویسا کرنا نہیں آیا جیسا کہ آنا چاہئے ۔ آج بھی ٹیکنالوجی ہمارے لئے سوشل
میڈیا پر لعن طعن چھیڑ چھاڑ یا گانے سننا یا فلمیں دیکھنا تک ہی محدود ہے۔
ٹیکنالوجی کی جو رفتار اور معیار میسر ہے استعمال میں وہ رفتار تو برابر ہے
مگر معیار میں گراوٹ ہے۔
ہم لوگ جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں پر بھی اب یوتھ میں بوائے فرینڈ اور
گرل فرینڈ باعث افتخار اور سٹیٹس کی نمائندگی سمجھا جارہا ہے مگر ابھی بھی
لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے تک بھی ماں باپ کے سامنے گرل فرینڈز کا تعارف اور
نام اور تعلق اسطرح نہیں بتا سکتے جس طرح یار دوستوں میں بھڑک لگا سکتے ہیں۔
بہت سے والدین کی جوتیاں اب بھی عشق کا بخار اتارتے اتارتے ٹوٹی ہیں۔
یعنی چھپن چھپائی کا رواج اس حوالے سے ابھی بھی ویسا ہی ہے جیسا خط و کتابت
کے زمانے میں تھا۔
پھر آج عورت جب نوکری جیسے غیر گھریلو معاملات میں بھی ساتھ ساتھ ہے مرد
کے۔پر ابھی بھی ہم لوگ وہیں کھڑے ہیں کہ گھر بھی پرفیکٹ ہو اور جاب بھی
بہترین ہو۔ اس حوالے سے سوچ قطعی نہیں بدل سکی۔
عورت پر آج بھی اگر کوئی الزام لگ جائے تو اسکو مورد الزام اور گناہ گار ہی
سمجھا جائے گا اور کوئی بھی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ ہم مرد کی غلطی کو دور
کی نظر سے دیکھتے ہیں عورت کی غلطی کو انتہائی قریب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
عورت کا گنا ہ کبھی دھل نہیں سکتا۔
اللہ کی مہربانی ہے اس نے گناہ گار مرد ہو یا عورت نیک مرد ہو یا عورت اسکو
اسکے اعمال کے مطابق اجر دینے کا ہی وعدہ کیا ہے۔
ہم آج چاہے لڑکا ہوں یا لڑکی ذیادہ زور اس بات پر دینے کے لئے تیار رہتے
ہیں کہ کون کتنا پاکباز اور دوسرا کتنا معصوم ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں دو
لوگ اگر فون پر بات کر رہے ہیں تو ایک فریق مرد ہے دوسرا عورت۔
لڑکی کو تو سلام کہ اسکو پتہ ہے کہ اگر رسوائی ہوئی تو معافی نہیں ملنی مگر
پھر بھی باز نہیں آئے گی۔ لڑکے کو سلام کہ اسکی نیت تو صرف یہ چیک کرنا ہے
کہ دوسری طرف موجود لڑکی کتنی نیک ہے یہ جانے بغیر کہ اس کھیل کا ایک فریق
وہ خود بھی ہے۔ برابر کا قصور وار برابر کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |