ہم ایک اعتدال پسند معاشرےمیں جی
رہے ہیں جسے کسی حد تک قدامت پسند بھی کہا جاتا ہےجہاں جنسی مسائل کے حوالے
سے بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہےاور شاذونادرہی اس بارے میں بحث کی جاتی
ہے۔کبھی کبھار ہم اس پہلو پر دوستوں یا خاندان کی ایسی شخصیات سے گفت و
شنید کر لیتے ہیں جو کہ بہت زیادہ قربت رکھتی ہیں جن کے ساتھ ہر موضوع پر
بات ہو سکتی ہے ۔لیکن ہم اپنے بچوں سے اس بارے میں کبھی بات نہیں کرتے اور
نہ ہی انہیں اس حوالے سے کم از کم اتنی معلومات فراہم کرتے ہیں کہ وہ اچھے
برے کی تمیز کر سکیں ۔اگر کچھ لوگ ایسا کرنا بھی چاہیں تو انہیں یہ سمجھ
میں نہیں آتاکہ اس موضوع کو کس طرح چھیڑا جائے۔اور کس طرح بچوں کو بدسلوکی
کے اس پہلو سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے معصوم ذہنوں اور اجسام کو ان
لوگوں سے محفوظ کر سکیں جو ان کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ انہیں اس بارے میں
ضروری معلومات سے آگاہ کر کے اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ جنسی بدسلوکی
سے اپنا بچاؤکرسکیں اور اس بات کا امکان بہت کم ہوجائے کہ کوئی انہیں ہدف
بنا سکتا ہے۔ماضی قریب میں ان گنت ایسے واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے ہیں
جب بچوں کو اجنبی افراد،ڈرائیورں،مالیوں،اسکول یاگھر کے چوکیداروں یہاں تک
کہ اُستادوں کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا رہا اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ
ہمارے ملک میں یہ مسئلہ شدید نوعیت اختیار کرتا جارہا ہےاور جنسی بد سلوکی
ایک سنجیدہ خطرہ بن کر نمودار ہوئی ہےیہ کہنا درست نہ ہوگا کہ یہ معاملہ
دورحاضر کی پیداوار ہے کیونکہ ایسے مسائل توازل سے معاشرے کا حصہ رہے ہیں
اور شاید کسی حد تک ابد تک رہے گے مگر انہیں روکا یا کم کیا جا سکتا ہے جس
کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے کہ اپنے بچوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے ۔
بچوں کے خلاف ایک گھناؤنے جرم کے مترادف اس مسئلے سے متعلق مکمل آگاہی نہ
صرف والدین کی ذمہ داری ہے بلکہ ٹیچرز ،ڈاکٹر ،اور مختلف شعبہ ہائے زندگی
کے افراد بھی اس میں موثر کردار کر سکتے ہیں نیز میڈیا کا مثبت رویہ بھی اس
ضمن میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
چھ سے سات سال کی عمر کے بچے جنسی بدسلوکی کے بارے میں عموماً اپنے دوستوں
کی سنائی ہوئی کہانیوں کے زریعے واقف ہو تے ہیں یا ایسی صورت میں جب انہیں
خود اس ناخوشگوار تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ہم اپنے بچوں کو اس گھناؤنی
صورت حال سے بچا سکتے ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ خود بھی مضبوط ہوں اور
بچوں کو بھی مضبوط کریں۔بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی چند اہم وجوہات ہیں
جن سے واقفیت ہی انہیں اس قبیح فعل سے بچا سکتی ہے۔ اگر ان وجوہات کے آگے
رکاوٹ کھڑی کی جائے تو بچوں کی حفاظت کسی حد تک یقینی بنائی جا سکتی ۔ بچوں
کی مخلوط تعلیم خواہ ان کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ کمبائنڈاسٹڈی کے
مواقع،جہاں پڑھائی کے علاوہ بہت کچھ ممکن ہے۔ غیر ضروری طور پر گہری
دوستیاں ۔ والدین کا خلوت کے اوقات میں احتیاط نہ کرنا ،یا بچوں کے سامنے
غیرضروری حرکات وسکنات۔ بڑھتےہوئے بچوں کو تنہا گھر میں چھوڑ جانا۔ اس
مسلئے کا حل صرف ماں،باپ اور اساتذہ کے پاس ہے۔ جو کہ اپنے طور پر پوشیدہ
رکھتے ہوئے اس کو قابو کر سکتے ہیں۔ماں اپنے بچے کی پہلی درسگاہ ہے جو کہ
باآسانی بچے کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کر سکتی ہے۔ بچے اس بدسلوکی کا شکار
قریبی رشتہ داروں یا ایسی جگہوں پر ہوتے ہیں جہاں وہ کسی بھی طرز کی تعلیم
کے حصول کی غرض سے جاتے یہ بہت بڑی بد قسمتی ہےکہ ہمیشہ وہ رشتے ایسے
واقعات میں ملوث ہوتے ہیں جن کے بارے میں انسان بدگمانی نہیں کر سکتا ۔بچہ
جب اس حوالے سے شکایت کرے تو والدین انتہائی عقلمندی سے مثبت سوچ کے ساتھ
اس کا حل تلاش کریں اور کوشش یہ ہو کہ اگر کوئی ناخوشگوارواقعہ رونما ہوتا
ہے تو اپنے بچوں کے ذہن سے کھرچ ڈالیں تاکہ ان کی آنے والی زندگی پر اس کے
مضراثرات مرتب نہ ہوں اور وہ نارمل زندگی گزار سکیں۔
(قصور اسکینڈل کے بعد کیا آپ بچوں میں جنسی تعلیم کے حق میں ہیں یانہیں) |