یہ ایک بہترین موقع ہے۔۔۔
تشویق آمیز۔۔۔
بچوں کے لئے، اساتذہ کیلئے۔۔ مشترکہ طور پر سیکھنے کے لئے۔۔ تبادلہ خیالات
اور افکار کی آہنگی کیلئے۔۔۔ ماحول کیراست طورپر مشاہدہ کیلئے۔۔۔۔
درختوں کے رقص میں،
ابر رواں کی تند و تیز دوڑ میں،
سورج کی کرنوں کی چمک میں،
چڑیوں کی چہچہاہٹ میں،
کنول کی پنکھڑیوں کی تابانی میں،
بچھڑے کی اچھل کود میں،
نونہالان کے ابتسام میں،
بارش کی جھڑی میں، زمیں بوس گرنے والے تاروں میں،
پانی میں تیرنے والی مچھلیوں میں، بارش کی بوندوں سے۔۔۔۔۔۔۔
سانپ کی پھنکار میں،
اٹھنے والی سمندر کی لہروں میں،
تالاب کے ٹہرے ہوئے پانی میں،
ابچنے والے بیجوں میں،
کھلنے والے غنچوں میں،
کچے اور پکے پھلوں میں،
ایک صدا گونج رہی ہے۔۔
ہمیں آئندہ نسلوں کے لئے جینے دو، جینے دو۔
اے حضرت انسان! ہمیں اشتیاق بھری نظروں اور تجربات سے پروان چڑھاؤ۔۔ تا
قیامت۔۔۔ تا قیامت۔۔۔ اپنی تشویق اور ایفا کے بناپر ہمیں مظہر قدرت بنادو۔۔۔
INSPIRE اور EXHIBIT ہونے دو۔۔۔ لفظ INSPIRATION,دراصل لاطینی زبان کے لفظ,
Inspire, سے ماخذ ہے۔ جس کے اصطلاحی معنی، تشویق، کے ہیں۔ یعنی کسی بھی
تخلیقی کام کی تحریک، جو دل سے پیداہو۔ دیگر تمام علوم کے بہ نسبت سائنس
ایک ایسا علم ہیجو انسانی زندگی میں گود تا گور تک روزمرہ کے کارہائیوں میں
جاری وساری تسلسل عمل اور رد عمل کا نام ہے۔
سائنس ہمیشہ، کیوں؟ کب؟ اور کیسے۔۔۔۔۔؟ سوالات و دلائل کے اثبات میں حقائق
پر انحصار کرتی ہے۔ جب تک کسی بھی طالب علم یا فرد کومدرکہ و مدﷲ مثبت
نتائج نہ ملیں، تب تک اپنے تجسس کو برقرار رکھتا ہے۔۔ اسی تجسس کو بچے
تسلسل دیتے ہوئیکمرہ جماعت، مدرسہ اور قرب و جوار کے ماحول میں اپنے معلم
کی رہنمائی میں، دو چند ماڈلس، تجربات اور پروکٹ کام کو انجام دیتے ہیں۔
اور سماج کے دسترس میں مظاہرہ کرپاتے پیں۔ اسی ایفا یا کارکردگی کو، سائنس
کی زبان، میں Science Exhibits کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ بظاہر یہ
Exhibitsبچوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنیاور انہیں موزوں ترتیب
وتشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو گھر، کنبہ، سماج اور گاؤں
کے ماحول میں سائسی مزاج فکر کے شعور کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سائنس ایکزیبٹس کیا ہیں…….؟ طلبا اور اساتذہ کے باہمی فہم اور باہمی ردعمل
کے بنا پرتیارکردہ منصوبایء کام، حرکی ماڈلس، طبعی، حیاتیاتی ونباتی متبادل
یا حقیقی اشیاء کوسائنس ایکزیبٹس کہاجاتاہے۔ سب سے قبل ہمارے ملک میں ان
ایکزیبٹس کا اختراع 1963تا1959اثنا ء کے درمیان بطور سمعی و بصری آلات کی
شکل میں کروایا گیا۔ جو کہ BEd کالیجس کے سطح پران مظاہروں کا اہتمام
کیاجاتاتھا۔ جیسے جیسے سائنس کے میدان میں رونما تبدیلیوں کی بنا پر1964کے
اثناء میں دیسی علاقوں میں ان کا تعارف عمل میں آیا۔
ریاست آندھراپردیش میں سب سے قبل1968کے اثناء میں حیدرآباد کے جواہر بالا
بھون میں انعقاد کیاگیا۔
موجودہ ایام میں ایکزیبٹس کا اہتمام و انصرام محکمہ تحقیقی برائے تعلیمی و
تربیتی ادارہ SCERTکے ماتحت کیا جارہا ہے۔۔ ایکزیبٹس کی ہیئت انعقاد۔۔ ۱۔
ضلعی سطح پر چار دن کی معیاد ۲۔ ریاستی سطح پر پانچ دن کی معیاد ۳۔ جنوبی
ہند کے سطح پر پانچ دن ۴۔ قومی سطح پر سات دن کی معیاد ۵۔ بین الاقوامی سطح
پر UNICEFکے زیر نگران سات دن کی معیاد سن 1989سے عمل میں لایا جارہاہے۔۔
مذکورہ بالا سائنسی مظاہروں کو مد نظر رکھتے ہوئیامسال ریاست آندھرا پردیش
کے پورے اضلاع میں ستمبر کے 10 تا12کے تواریخ میں انعقاد چل رہا ہے۔ لہذا
بروز بدھ ضلع پریشد مدرسہ فوقانیہ تیلگو، کربلا کوٹہ میں سہ روزہ انسپائرنگ
پروگرام کا آغاز ہوا۔
اس پروگرام میں ضلع چتور کے 18منڈل سیتیلگو مع اردو وسطانوی اور فوقانوی
مدارس کے طلبا و طالبات حصہ لے رہے ہیں۔ جو یہاں پر کم و بیش 574exhibits
کو مظاہرے میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے عمدہ و چنندہ ایکزیبٹس کوریاستی سطح
پر منعقد ہونے والے مقابلہ کیلئے انتخاب کیا جائے گا۔۔ اس پروگرام کا اہم
نصب العین، طلبا میں سائنسٹفک رجحانات کو فروغ دینا ہے، مزید یہ مستقبل کی
میراث کو تابناک شہری بنانا مقصود ہے۔
علاوہ بریں! ماحول کے بارے میں، ماحول کے زریعہ اور ماحول کے تحفظ کے شعور
کو فروغ دینا ہے۔
اس سہ روزہ پروگرام میں، زلزلوں سے آگہی، ایک ماڈل کوتریگنڈہ اردو ہایء
اسکول کی عائشہ نامی طالبہ نے تیار کیا ہے۔ اس قسم کے ماڈل کو گھروں، دفاتر
میں استعمال کرتے ہوئیقبل از وقت زلزلوں سے تحفظ یقینی ہے۔ جو اس ماڈل میں
ایک گھنٹی اہم کلیدی رول ادا کرتی ہے، جس کے بجنے سے آفات ارضی سے ہم
چوکننا ہوسکتے ہیں۔
دوسرا ماڈل جو اس پروگرام میں سامعین کی نظر کو اپنے طرف متوجہ کر رکھا ہے۔
وہ ہے۔ ہاریزونٹل بور سسٹم۔ اس ماڈل کو تیار کرنے والی طالبہ ثمرین فاطمہ
ہے۔ جو مدنپلی اردو ہای اسکول میں جماعت نہم میں زیر تعلیم ہے۔ اس ماڈل کی
افادیت اور خصوصیت کہ، بغیر تالاب، بورویل یا بارش پر انحصار کرتے ہوئے،
سمندر یا دریا کے ساحل پر افقی جانب بور کو زیر زمین حصہ میں ڈالاجاتاہے۔
بعد از بتدریج پانی کی وافر مقداراور پانی کی تہہ، قحط سے متاثرہ خشک
علاقوں تک پھیلتی جائے گی۔ جب کوء کسان اگر زیر زمین بور کی کھدواء کرتا
ہیتو بآسانی پانی کی دستیابی ہوگی۔ جس سے آبپاشی اور زرعی نظام میں حائل
آبی کمی کے مسائل سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جو ملک گیر سطح پر پانی کی دستیابی
ایک غیریقینی مسلہ ہے۔ اس کا ازالہ ہو پائیگا۔
ایک اور قابل تقلید و دیدہ زیب پروجکٹ، جو مرض، ڈینگی بخار، کے نام سے
انجام دیا گیاہے۔ اس پروجکٹ کو نہایت ہی مدلل شواہد کے ساتھ پیش کرنے والا
طالب علم، محمد امین اﷲ ہے۔ جو گرمکنڈہ اردو ہای اسکول میں جماعت ہشتم میں
زیر تعلیم ہے۔ اس مرض کی علامت، بچاؤ، اور روک تھام کیسے کیا جائے۔ اس
پروجکٹ میں صراحت کے ساتھ بتلایا گیا ہے۔
اب ضرورت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ، آیا ان نونہال سائنسدانوں کے تشویق
کو کس طرح مزید تعمیری و تشکیلی سبیل کے طرف گامزن کیا جائے۔ یہ ذمہ داری،
والدین، سرپرست، اساتذہ، اور محکمہ تعلیم کے شانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان
بچوں کی تقلید، تخلیق، تشویق میں ہم پیش پیش رہیں۔
مبادا: اگر ایسا نہ ہوپایا۔ تو
یہ طفلان سائنسدان اپنی مخفی صلاحیتوں سے محروم اور معدوم ہوجایئں گے۔
وہ وقت بعید نہی بلکہ بالکل قریب تر ہے۔۔۔
اگر ہماری فطرت میں، قبول کرنے والا کشادہ قلب ہوتوکبھی بھی، کہیں بھی اس
لا محدود کائنات میں تمام زاوئے ان طفلان کے اشتیاق بھری کارہایؤں میں،
حیرت انگیز نظر آتے ہی رہیں گے۔۔۔
آئیے۔۔ صدقہ دل اور ضبط قرار سے یہ عہد پیماں کو راسخ کردیں آنکھ کھول کر
دل کو تھام کریہ تگ و دو کریں۔۔۔
کہ قوم و ملت اور ملک کا درخشاں مسقبل، ان نوجوان اور طفلان سائنسدانوں کے
اشتیاق میں مضمر ہے۔۔ جو ہم سبھی کواس خواب کا اعتراف کرنا ہے۔ تب ہی ہم
جاکر آنے ولے کل کے لئے،عمدہ و مثالی اسلاف کہلایئں گے۔۔۔۔۔۔۔ |