اہل ِ علم کے حق پر ڈاکہ

پچھلے دنوں ملک کی سپر ماڈل ایان علی جنھوں نے کہ ایک سمگلرکی حیثیت سے بھی شہرت پائی نے کراچی یونیورسٹی میں فنانس پر لیکچر دیا ایان علی کو اس لیکچر کے لیے کراچی یونیورسٹی کے پبلک ایڈمنسڑیشن ڈیپارٹمنٹ نے مدعو کیا ۔ اس لیکچر کو سننے والوں نے بعد میں ایان علی کے ساتھ تصاویر بنوائی ۔بات یہاں تک محدود نہیں ایان علی کو یونیورسٹی کی جانب سے ایک اعزازی souvenir بھی دیا گیا۔یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق ایان علی کو دو طالب علموں نے نجی طور پر مدعو کیا تھا لیکن انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اس نے لیکچر کیونکر دیا یہ سوال باہر حال توجہ طلب ہے ۔انتظامیہ کا اس طرح کا بیان نبعید القیاس ہے ۔ واضع رہے کہ ایان علی کو سیکورٹی فورسز نے کراچی ایر پورٹ پر مارچ 14,2015کو پانچ لاکھ ڈالر سمگل کرنے کی کوشش میں قید کیا تھا ۔ ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا اور چند ماہ کی قید کے بعد جولائی 14,2015 کو ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا گیا ۔اس تمام عرصہ کے دوران وہ متنازعہ خبروں کی زینت بنی رہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے تعلقات سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ثابت کیے گئے ۔ اسی یونیورسٹی کے طلبا ء و طالبات جن کا تعلق اسلامی جمیت ِ طلبہ نے ماڈل ایان علی کے کراچی یونیورسٹی میں بطور مہمان بلائے جانے پر احتجاجا ـایک گدھے کو پھولوں کے ہار پہنا کریونیورصٹی لے آئے اور اس پر لکھا تھا کہ اگر ایان علی آسکتی ہے تو میرا بھی حْ ہے کہ مجھے بھی بطور مہمان بلایا جائے ۔ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے اس گدھے کے ساتھ سیلفیز بھی بنوائی کیونکہ ماڈل آیان علی کے ساتھ بھی طلباء نے سیلفیز بنوائی تھی ۔ان باغیرت طلبا ء و طالبات نے انتظامیہ کو متنبہ کیا تھا کہ اگر آیان علی کو بلائے جانے کا نوٹس نہ لیا گیا تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ اگر یونیورسٹی کو لیکچر ہی دلوانا تھا تو پاکستان میں ان گنت باکرداراور قابل ِ تقلیداہل ِ علم موجود ہیں ۔ جن میں سرِفہرست ڈاکڑ عطاء الرحمٰن ( کئی کتابوں کے مصنف اور سائنس میں ایک اتھارٹی) ، نائلہ عالم ، یاسمین درانی ( جنھیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے ہوپ ایوارڈ دیا گیا )،پروفیسر عاصم خواجہ ( جنھیں ہارورڈ یونیورسٹی نے اعزازلیکچر کے لیے مدعو کیا ) نوید آئی سید ( جنھوں نے انسانی دماغ کے خلیوں کو سیلکون چپ کے ساتھ جوڑا ) ، علی معین نوازش ( جنھیں کئی ایوارڈ دیے گئے )، ان سب کے علاوہ بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو استاد کے مقام پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ان بے انتہا اچھے اور اعلیٰ پائے کے اساتذہ کو چھوڑ کر ایک ایسی عورت جس کو کرپشن کے الزام میں قید کیا گیا ہوجس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے ہوں دوسرے لفظوں میں ایک بدکردار خاتون کو استاد کے مقام پر لا کھڑا کیا گیا ، اس سے ایک یونیورسٹی میں لیکچر دلوایاگیا۔ اس عمل سے اس عورت کا مقام ، اس کا کردار بلند نہیں ہو ا بلکہ استاد کے مقا م اور اس کے کردار کی بے حرمتی کی گئی ۔ ان سب فناس اینالسٹس ، ان تما م اساتذہ کی نہ صرف بے حرمتی اور بے عزتی کی گئی جو اس شعبے میں عالمی شہرت یافتہ ہیں بلکہ ان سب کی موجود گی میں آیان علی جیسی بدنام ِزمانہ ماڈل کو لیکچر کے لیے بلانا علم کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ بلکہ یہ عمل اس بات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ اس ملک میں کسی کو بھی اس کی اہمیت یا حیثیت جانچے بنا کسی بھی مقام پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔ اس اقدام پر کراچی یونیورسٹی پر اساتذہ کی ہتک ِ عزت کا دعوی ٰ کرنا چاہیے اور یونیورسٹی کو ان تمام اساتذہ سے معافی مانگی چاہیے جو کہ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں ۔ اور جنھیں یونیورسٹی کے اس اقدام کی وجہ سے یقینا بہت افسوس ہو ا ہو گا ۔یونیورسٹیز ، اعلی ٰ تعلیمی اداروں ، حکومت کو اساٹذہ کی اس قسم کی بے توقیری اول تو کرنا نہیں چاہیے دوئم اگر کوئی ادارہ اس کا مرتکب ہو جائے تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہیے تاکہ معاشرے میں استاد کی عزت باقی رہے ۔ کیونکہ اگر اسی طرح اہل ِ علم کی بے حرمتی ہوتی رہی توان قریب ہم پر وہ وقت آئے گا جب اہل ِ علم ، ہمارے وہ اساتذہ جو مختلف شعبوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں وہ بددل ہو کر اس ملک سے چلے جائیں گے ۔ دوسری قومیں ان کے علم سے تو فائدہ اٹھائیں گی لیکن ہماری قوم جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی رہے گی۔ہماری نسلیں ایسی جہالت میں ڈوبی رہیں گی جہاں ڈگریاں تو ضرور ہوں گی لیکن علم ، کردار اور عمل نہیں ہوگا ۔ جہاں ڈگریوں کی بیناد پر نوکریاں تو ضرور حاصل کی جا سکیں گی لیکن علم کی بنیاد پر معاشرے میں بھلائی نہیں پھیلائی جا سکے گی ۔

اس قوم کی حالت کا اندازہ لگائیے جہاں ایک مجرم ، ایک ماڈل علم پر لیکچر دے گی ۔یہ ہماری قوم ، ہماری موجودہ نسل کی ذہنی پس ماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ایان علی کو یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر مدعو کیا گیا تو بھی یونورسٹی انتظامیہ کو انھیں لیکچر دینے سے روک دینا چاہیے تھا اور مدعو کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے تھی ۔ لیکن ایسا نہیں ہو ایونیورسٹی انتظامیہ نے اسے لیکچر مکمل کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ طلباء و طالبات نے اس کے ساتھ سیلفیز بنوائی ۔آیان علی نے یونیورسٹی میں بلا کسی روک ٹوک کے وقت گزارا۔یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔واضع رہے کہ یونیورسٹیاں ،تعلیمی ادارے صرف عمارتیں نہیں بلکہ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں ہماری اگلی نسل کی ذہنی نشوونما اور ان کے اخلاق و اطوار کی تعمیر ہوتی ہے ۔ ان اداروں میں لیکچر دینا اور استاد کی جگہ پر (چاہے وہ کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ ہو)ان لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے جو اخلاقی اعتبار سے قابل ِ تقلید ہوں جن پر کسی قسم کی بدنامی کا کوئی داغ نہ ہو ۔ ایک ایسی عورت جو خود کرپشن ، منی لانڈرنگ میں ملوث رہی ہو وہ طالب علموں کو کیا سکھائے گی اور ایسے طالب علم جواس لیکچر میں موجود تھے وہ اس سے کیا سیکھ رہے ہوں گے ؟وہ ایان علی سے علم حاصل تو کرنے سے رہے ۔

علم کا شعبہ نہایت ہی نازک شعبہ ہے اور استاد کا مقام ایک عظمت کا حامل ہے ۔یہ شعبہ اس قسم کے مذاق اور بے حرمتی کا حامل نہیں ہو سکتا ۔ استاد کا مقام ایک ایسا مقام ہے جس پر نہ صرف ہر ایک فائز نہیں ہو سکتابلکہ اس مقام پر کھڑاہونے والے کا اپنا ایک تقدس ہے ۔ تعلیم دینا پیغمبروں کا شیوہ ہے اس شعبے کو اختیار کرنے والے چاہے وہ اعزازی ہوں یا پھر مستقل وہ چنیدہ لوگ ہونے چاہیے جن کا نہ صرف کردار پاک و صاف بلکہ وہ اس مقام کے اہل بھی ہوں ۔ نہ کہ ایسے لوگ جو خود جرائم میں ملو ث ہوں ۔جیل کی ہوا کھا چکے ہوں ، اور ان کی کرپشن کے قصے زبان ِ زدِ عام ہوں ۔

جہاں رحمٰن ملک اور آصف زداری کو اعزازی ڈگریاں دی جائیں گی وہاں اہلِ علم کی قدر کیا ہو گی ؟۔وہاں علم حاصل کرنے کے لیے کون کوشش کرئے گا ؟وہاں استاد کی عزت ہو سکے گی ؟ کیا یہ لیکچر اس ملک میں موجود اہلِ علم کے لیے ایک تازیانہ نہیں ؟ کیا اس ملک میں وہ لوگ جو علم کے میدان میں پوری دنیا میں ملک کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ملک کے باعثِ فخر ہیں وہ اور یہ ایک کرپشن میں ملوث ماڈل برابر ہو سکتے ہیں ؟ نہیں ۔لیکن اس طرح کے لیکچر یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور ہے کہ اہل ِ علم کی ہمارے معاشرے میں کوئی قدر نہیں ۔جو چاہے استاد کے مقام پر جا کھڑا ہو ۔ ہمارے معاشرے کی تنزلی کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم اہل ِ علم کو وہ مقام نہیں دے پائے جو ان کا حق ہے ۔ ہمارے ملک میں چاہے وہ اعزازی ڈگری ہو یا اعزازی لیکچر ، اچھے برے ، قابل ناقابل ۔ کردار بدکردار کا فرق نہیں رکھا جاتا ۔
یہ امر مسلم ہے کہ ہم اس وقت تک ایک فلاحی معاشرے کی تعمیر نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمارے اساتذہ باکردار لوگ نہ ہوں ، جب تک کہ ہم یہ تقسیم نہ کر لیں کہ جو بھی کسی تعلیمی ادار ے میں لیکچر کی غرض سے جائے گا وہ اس کا اہل ہوگا اس کا کردار اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والو ں کے لیے قابل ِ فخر نہ ہو گا ۔جب تک ہم استاد کی وہ عزت نہیں کریں گے جس کا وہ حق دار ہے تب تک ہمارے معاشرے میں کسی قسم کی کوئی بہتری نہیں آئے گی ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164272 views i write what i feel .. View More