وقت کی ہر شے غلام

یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ جاپانی اور جرمن وقت کے پابند ہیں ۔ وہ ایک منٹ ضائع کئے بغیر اپنا کام مکمل کرتے ہیں۔آج کا کام کل پر نہیں چھوڑتے ۔کام کے دوران وقت کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں ۔ وقت کی غلامی ان اقوام کا خاصا ہے دفتر ہو یا فیکٹری ہر جگہ وقت کی پوجا ان کی فطرت ہے ۔وہ وقت کی قدر کرتے ہیں اورجبکہ وقت بھی ان پر مہربان ہے۔ا نہیں ترقی اور خوشحالی وقت کی بدولت ملی ہے۔رات گئے تک کام میں مشغول پائے جاتے ہیں ۔ آرام کے وقت وہ آرام کرتے ہیں ۔ اپنی زندگی کو مختصر جانتے ہوئے زندگی سے خوب انجوائے کرتے ہیں انجوائے کرتے ہوئے بھی وقت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں وقت کی پابندی کرنا سوسائٹی سکھاتی ہے۔ وہ کتابوں میں پڑھ کر وقت کی قدر نہیں جانتے بلکہ نظم و ضبط دیانتدای ، پابندی وقت اور اخلاق ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔ اسی لئے وہ ترقی و خوشحالی جیسی ان گنت نعمتوں سے مالا مال ہیں ۔ وہ مشینوں سے زیادہ تیز رفتاری سے چلتے ہیں ۔انہیں یہ ادراک ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی کے زینوں پر کس طرح چڑھ سکتے ہیں ۔ انہیں ہر لمحہ وقت کی پابندی کا احساس رہتا ہے ان کے شب و روز بڑے محتاط ہیں وہ اپنے مسائل و مشکلات پر قابو پانا جانتے ہیں ۔ انہیں کسی دوسرے کی مدد اور تعاون کی ضرورت نہیں بلکہ وہ دوسری اقوام کو اپنا تعاون دینے میں کبھی تعامل نہیں کرتے ۔ انہوں نے کئی ایک ترقی پذیر اقوام کوترقی کی شاہراہوں پر چڑھنے کے ہنر سکھائے ہیں۔ صنعتی ترقی میں ٹیکنالوجی دی ہے ۔مالی وسائل بھی فراہم کئے ہیں۔تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا ہنر دیا ہے۔ جرمن اور جاپان نے تیسری دنیا کے ممالک کو صحیح سمت چلنے کا سبق دیا ہے ۔ جبکہ ہم وقت کی پابندی نہیں سیکھ پائے اور نظم و ضبط سے عاری رہنے کی قسم کھائی ہے ۔ ترقی پزیر ملکوں کے عوام نے جرمن اور جاپان سے بہت کچھ حاصل کیا مگر وقت کی پابندی ، نظم و ضبط ، دیانتداری اور اخلاق کا سبق سیکھنا گوارا نہیں کیا ۔ ہم وقت کے بہت بڑے قاتل ہیں۔ ہمیں وقت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ۔ ہم وقت کی قدرو قیمت سے عاری رہنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ ہم سارا سارا دن فضول مشاغل میں ضائع کر کے خوش ہوتے ہیں اور پھر بغلیں بھی بجاتے ہیں ۔ وقت نے بھی ہمیں اس قدر ذلیل کیا ہے کہ دنیا میں ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ ہم وقت کے دشمن ٹھہرے ہیں اور پھر وقت نے ہمیں پاؤں تلے کچل کے رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ ہمارا دین ہمیں وقت کی پابندی سکھاتا ہے، نظم و ضبط کا درس دیتا ہے ۔ افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنے دین کو بھلا دیا ہے۔ ہماری مثال اس کوّے جیسی ہے جو اپنی چال ہی بھول گیا ۔ ہم نے یورپ اور مغرب کے وہ گندے مشاغل پلے باندھے ہیں جنکو دیکھ کر شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ ہم کتنے سنگدل ہیں کہ اپنی لڑکیوں سے شادی کرنے کی بجائے گوریوں کو ترجیح دیتے ہیں وقت کی ہر شے غلام ہے تو رہے ہمیں کیا ہم کسی کے غلام نہیں ۔ ہمیں وقت سے کوئی پیار نہیں ہے ۔ وقت جائے بھاڑ میں ہم اپنے وقت کے غلام نہیں ہمیں وقت نے کیا دینا ہے جو اس کے غلام بن کر رہیں ۔ وقت رُکتا نہیں کسی کے لئے تو نہ رُکے ہمیں اس سے کیا مفاد ۔ ہمیں اس سے کیا لینا ہے جو اس کی قدر کریں ۔ اگر وقت کی غلامی سے ترقی و خوشحالی ملتی ہے تو ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں چاہئے ۔ ہم وقت کے ناز نخرے نہیں اُٹھا سکتے۔ہمیں کچھ نہیں چاہئے۔ جعلی ڈگریوں اور ڈپلوموں کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے چاہئیں۔ دفتر میں کام نہیں من کو خوش رکھنے کے لیے مختلف نوع کے مشاغل چاہئیں ۔ ہم نے ترقی یافتہ قوم بن کر کیا لینا ہے ۔ جو لینا تھا لے لیا ۔ ’’ ایٹم بم‘‘ ہمارے پاس ہے بس اتنا ہی کافی ہے اس کا نام ہی کافی ہے بس لوگ ہم سے ڈرتے رہیں۔


 
Maqsood Anjum Kamboh
About the Author: Maqsood Anjum Kamboh Read More Articles by Maqsood Anjum Kamboh: 38 Articles with 32725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.