حرمت انسانیت اور متوازن معاشرہ
(Mujahid Hussain, Karachi)
انسانی تمدن کی بنیاد جن قوانین
پر قائم ہے اس میں اولین جان کو محترم کہا گیا ہے یعنی انسان کے تمدنی حق
میں پہلا حق زندہ رہنے کو دیا گیا ہے جبکہ اس کے تمدنی فرائض میں بھی اول
فرض زندہ رہنے دیے جانے کا فرض عائد کیا گیا ہے ۔ آپ اس بات سے بخوبی
اندازہ کرسکتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی شریعتیں اور مہذب قانون موجود ہیں
ان میں احترام نفس کا قانون ضرور موجود ہے البتہ جن قوانین یا مذاہب میں
اسے تسلیم نہیں کیا گیا وہ مہذب انسانوں کا قانون تو بن سکتا ہے لیکن اس کے
ماتحت رہ کر کوئی انسان یا انسانی گروہ پرامن زندگی گذار سکتا ہے اور نہ ہی
اسے فراغ حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہ بات ہر عاقل و باشعور شخص ہی سمجھ سکتا ہے کہ
جہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ ہو ، اس کا کوئی احترام نہ ہو اور نہ ہی
حفاظت یعنی امان کا بندوبست نہ ہو وہاں کیسے چند افراد بھی رہ سکتے ہونگے ،
ان میں باہم کاروبار یا دیگر معاملات بحسن و خوبی انجام پاسکتے ہیں کیونکہ
ہر شحص کو تجارت، صنعت کا ری ، گھر داری ، سیر وتفریح اور متمدن زندگی
گذارنے کی ضروت ہوتی ہے ۔ پھر اگر ضروریات زندگی سے قطع نظر خالص انسانیت
کی نظر سے دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی فائدے کی خاچر یا کسی
ذاتی عداوت کسی دوسرے انسان کو قتل کرنا بدترین قساوت اور سندگی دلی ہے ۔
دنیا کے سیاسی قوانین تو احترام حیات انسانی کو صرف سزا اور قوت کے زور سے
قائم کرتے ہیں لیکن ایک سچے اور حقیقی مذہب کاکام تو دلوں میں اس کی درست
قدر و قیمت کا پیدا کرنا ہے تاکہ جہاں انسان کو کسی کو تعزیر کا خوف ہواور
نہ ہی اسے کوئی قانون کے اہلکار کے روکنے کا ڈر ہو۔یہ احترام انسانیت کی
موثر اور جامع تعلیم اسلام ہی میں دی گئی ہے جس کا کسی اور دوسرے مذہب میں
ملنا یقینا مشکل ہے ۔ قرآن کریم جو کہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایک ضابطہ حیات
ہے اس میں جگہ جگہ انسانی جان کے احترام کی مختلف پیرائیوں میں نہایت
دلنشین انداز میں تعلیم دی گئی ہے ۔ سورۃالمائدہ میں حضرت آدم ؑ کے دوبیٹوں
کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ :۔ــ ً اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل
کو یہ لکھ دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے بغعی اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی
ہو یا زمین میں فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا۔ اور جس
نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی ۔ن ان لوگوں
کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی ہدایت لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں سے
بہت ایسے ہیں جو زمین میں حد سے زیادہ تجاوز کرجاتے ہیں ً۔
سورۃ الفرقان میں حدائے بزرگ و برتر نے اپنے نیک بندوں کی صفات اس طرح
بنیان کی ہیں کہ :۔ ً وہ اس جان کو جسے اﷲ نے محترم قرار دیا ہے ناحق ہلاک
نہیں کرتے ۔اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ کئے کی سزا
پائے گا ۔ ً
اسی طرح سورۃ الانعام میں ارشاد ہوا کہ :۔ ًاے محمد ﷺ ! کہو کہ آؤ میں تم
کو بتاؤں اﷲ نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں ۔ تم پر واجب ہے کہ اﷲ کے
ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین سے نیک سلوک کرو، اپنی اولاد کو مفلسی اور
تنگ دستی کے باعث قتل نہ کرو ، ہم جہا ں تم کو رزق دیتے ہیں ان کو بھی دیں
گے،بدکاریوں کے قریب نہ بھٹکو خواہ چھپی ہو یا کھلی،کسی ایسی جان کو جسے اﷲ
نے محترم قرار دیا ہو ہلاک نہ کرو سوائے اس صورت میں کہ ایسا کرنا حق کا
تقاضہ ہو ۔ اﷲ نے ان باتوں کی تمہیں تاکید کی ہے ۔ شاید تم کو کچھ عقل آئے۔
ً
ان آیات میں وہ لوگ خصوصی طور پر مخاطب ہیں جن کے نذدیک انسانی جان کی کوئی
نہیں ہے اور جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اولاد جیسی نعمت کو بھی قتل کردیتے
ہیں ۔ احادیث مبارکہ میں کثرت سے اس قسم کے ارشادات پائے جاتے ہیں جن میں
بے گناہوں کا خون بہانا بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے ۔
حضرت انس ؓ بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔ ًبڑے
گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا ہے ، اور قتل نفس ،والدین
کی نافرمانی اور جھوٹ بولنا ۔ ًحضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ بنی پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا :۔ ً مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب
تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔ ً سنن نسائی میں حدیث ہے کہ :۔ ً قیامت
کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس
کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائے گا وہ خون کے دعوے ہونگے۔ ً
ایک مرتبہ ایک شخص بنی آخرالزمان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ سب سے
بڑاکون سا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو کسی کو اﷲ کی نظیر و مثیل قرار دے ۔ اس
نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا بڑا گناہ ہے ۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اپنے
بچے کو قتل کردے اس خیال سے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہوگا ۔ اس نے عرض
کیا کہ اس کے بعد کون سا گناہ ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ یہ کہ اپنے ہمسائے کی
بیوی سے زنا کرے۔ ً
حرمت نفس کی یہ تعلیم کسی فلسفی یا معلم اخلاق کی فکر نتیجہ نہیں بلکہ یہ
در حقیقت رب کائنات اور بنی رحمت ﷺ کی تعلیمات ہیں جن کا ہر ہر لفظ کسی بھی
صاحب ایمان کا جزوایمانی ہے اور جس کی تعمیل ، تلقین اور نفاذہر اس شخص پر
فرض ہے جو کلمہ ء حق کا قائل ہے ۔
نبی ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے خونخوار ماحول میں انسانیت کا احترام اور امن
پسندی کا نظام تباہ ہوچکا تھا پھر وہیں رحمت العالمین ﷺ کی موجودگی میں
مہذب معاشرہ تشکیل پایا جس کا اثر چہار سو پھیل گیا اور اسلامی تعلیمات نے
انسان کی بے شمار غلط کاریوں اور دیگر گمراہیوں کے ساتھ ساتھ انسانی جان کی
بے قدری کا بھی استحصال کردیا ۔ آج دنیاکے مہذب قوانین میں حرمت نفس کو وہ
درجہ ملا جو کسی بھی لحاظ سے کسی انقلا ب سے کم نہیں ہے ۔ قیدیوں اور
غلاموں کو درندگی سے محفوظ کردیا ورنہ جاہلانہ عرب معاشرے میں قیدیوں اور
غلاموں کو پھڑوادیا جاتا تھا یا اہل عرب انہیں جانوروں کی طرح ذبح کردیتے
یا پھر ان کے جلنے کا تماشا برپا کردیتے گویا مختلف انداز میں ان لوگوں کو
عذاب سے دوچار کیا جاتا تھا ۔ افسوس یہ ہے کہ ایک بار پھر وہی جاہلانہ
کیفیت دکھائی دی جارہی ہے ۔ دنیا بھر میں لوگ بغیر کسی وجہ یا اپنی ذاتی
خواہشات کے بل بوتے پر کشت وخون کا بار گرم ہوگیا ہے ۔ حالانکہ قرآن مجید
میں واضح فرمایا دیا گیا ہے کہ :۔ ً انسانی جان کو اﷲ تعالیٰ نے حرام قرار
دیا ہے، اس کو قتل نہ کرو مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے۔ ًیعنی
صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ انسانی جان کی حرمت صرف اسی وقت تک ہے جب تک اس
پر حق قائم نہ ہوجائے ۔ ہر شخص کواس وقت تک زندہ رہنے دیا جائے جب تک وہ
معاشرے میں فتنہ و فساد یا انتشار پھیلانے میں اپنا حصہ نہ ادا کرے یعنی
اسے اس وقت تک امان حاصل ہے جب تک وہ کسی دوسرے کی جان پر ناحق حملہ نہ
کردے اگر کسی بھی صورت ایسا ہوجائے تو گویا اس نے حرمت نفس کی نفی کی ہے ۔
اب اسے قتل کردینے کا حکم ہے چاہے وہ کسی قوم یا کسی ملک نے اسلام کی حلقہ
بگوشی اختیا کی ہو یا نہ کی ہو ۔ اجتماعی تاریخ کا کوئی قانون و انصاف پسند
معاشرہ اس سے انکاری نہیں کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں انسانی جان کی حرمت
قائم کرنے کا فخر جتنا اسلام کو حاصل ہے اتنا کسی اور مذہب کو حاصل نہیں ۔
ہم جب بھی کسی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی بات کرتے ہیں تو یہ بات
ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہر شخص دوسرے کے حقوق کا ذمہ دار ہے ، چاہے وہ
امیر ہو یا غریب ، صاحب ثروت ہو یا ایک عام آدمی ہر ایک کے حقوق یکساں ہیں
اور ان کا احترام کرنا دوسرے کیلیے فرض عین ہے ۔ ہمارے پاس تاریخ میں المیہ
یہ ہے کہ ہم مال و متاع اور جاہ و ہشم کو عزت کی نگاہ سے دیکھت ہرے ہیں
جبکہ قانون کی عمل داری صرف غریب اور مفلس و محکوم افراد پر لاگو کی جاتی
رہی ہے حالانکہ عدل و انصاف کے پیمانوں میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ۔ ایک
بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں فاطمہ نامی عورت کا مقدمہ پیش ہوا، کئی معتبرین
نے اس کے معاملہ میں سفارش کی مگر نبی محترم ﷺ نے اس پر برہمی کا اظہار کیا
اور فرمایاکہ اگر اس کی جگہ فاطمہؓ بنت محمد ﷺ بھی ہوتی تو قانون کے مطابق
فیصلہ کیا جاتا ۔ پاکستان پر گزشتہ دودھائی سے ایک پرائی جنگ مسلط ہے ۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باعث ملک تبایہ کے دھانے پر کھڑا ہے اس کی
کئی وجوہات میں اہم وجہ پھانسی سمیت کئی کڑی سزاؤں کی معطلی ہے ۔ 2008ء سے
2015ء کے اوائل تک ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ملک ہر طرح
کے انتشار کا شکار رہا ہے ۔ اب نیشنل ایکشن پلان کے باعث ان سزاؤں سے
پابندی ٹک ہوجانے سے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں دوسری جانب دہشت گردوں اور
انتہاپسندوں کیخلاف ضرب عضب کے باعث امن و امان کی ملک گیر صورتحال بہتر
ہوتی جارہی ہے ۔ ایسے ماحول میں بالخصوص یورپی ممالک اور امریکہ پھانسی
جیسی سزاؤں پر عمل درآمد کے مخالف ہے اور اس کا دباؤ ہے کہ ان سزاؤں پر
فوری طور پر عمل درآمد بند کیا جائے ۔ ان کے نذدیک یہ سزائیں انسانیت سوز
ہیں جو حرمت نفس کے عین خلاف ہیں جبکہ دین خداودندی کے نذدیک جب حق کا
اطلاق ہوجائے وہاں کسی کی نہیں سنی جاتی ۔ انسان بنیادی طور پر اپنی جبلت
میں نیکی کے ساتھ بدی اور اطاعت کے ساتھ معصیت بھی رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس کی
سرکش طبیعت کو اطاعت پر مجبور کرنے کیلئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے جس میں
حکم دینے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر س کی تعمیل نہ کی گئی تو سزا کیا ہے ۔
اور منع کرنے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر فعل ممنوعہ سے اجتناب نہ کیا گیا تو
اس کا نتیجہ کیا بھگتنا پڑے گا ۔چنانچہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہ ہوگا کہ ً
جس جان کو اﷲ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرو ًبلکہ جب تک یہ بتادیا کہ
اگر اس عظیم گناہ سے اجتناب نہ کیا اور فساد فی الارض پھیلایا گیا تو اسے
کیا سزا ہوگی ۔ انسانی تعلیم میں اس نقص کا رہ جانا ممکن ہے البتہ خدا کے
قانون میں ایسا ہونا غری فطری ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے
نذدیک انسانی خون کی حرمت اس وقت تک ہے کہ جب تک اس پر حق نہ لاگو ہوجائے ،
اسے زندگی گزارے کے تمام حقوق حاصل ہیں جب تک کہ وہ حدود سے تجاوز نہ
کرجائے ، جوں ہی وہ حدود سے باہر نکلا اور زمین پر فساد و انتشار کا باعث
بنا اسے سزا کا دیا جانا فرض عین ہے تاکہ ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل ہوسکے۔ |
|