متوسط، نچلے متوسط اور خاص طور پر ملازمت پیشہ طبقے کے
افراد کے خواب ان کے بچوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس طبقے کے خاندان اپنا سب
کچھ داؤ پر لگا کر بھی اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلانے کی کوشش کرتے ہیں،
تاکہ ان کا مستقبل سنور جائے۔ ہمارے ملک کے سرکاری اسکول والدین کی اس آرزو
کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں، چناں چہ نجی اسکولوں کا در کھٹکھٹایا
جاتا ہے، اور پھر آپ کی آمدنی کا بڑا حصہ ان نجی اسکولوں کی تجوریوں میں
جاتا رہتا ہے۔
اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دینے کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جسم کا لہو
دان کرنا پڑتا ہے اور یوں فیس دینے کی آخری تاریخ یعنی ہر ماہ کی دسویں خون
خشک کر جاتی ہے۔ جو نہ دے سکے تو پندرہ کو جرمانے کے بعد،20 تاریخ کو ڈبل
جرمانے کے ساتھ فیس جمع کروانا ضروری ہوتا ہے ورنہ 21 کو تو بچے کا نام ہی
اسکول سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اب وہ کون ہو گا جو اپنے بچے کو اسکول میں
رسوائی کا سامنا کرنے دے لہٰذا کہیں سے بھی رقم کا انتظام کر کے فیس ادا کی
جاتی ہے۔
معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا۔ بڑا انگریزی میڈیم اسکول ہو یا چھوٹا، چونچلے
اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ گوروں کے تمام تہوار منانا تو ہم پر فرض ٹھہرا۔
مذہبی ’’فنکشنز‘‘ میں بھی پیسے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور یہ افسوس
ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ دین کی اصل روح تو کہیں فنا ہو چکی ہے جب کہ
اخراجات کی مد میں آنے والا تمام خرچہ والدین کی جیب سے پورا کیا جاتا ہے۔
5 سو، ہزار، منگوانا تو عام سی بات ہے، پھر ارتھ ڈے سے لے کر یلو، گرین،
بلو، ریڈ ڈے․․․ ہر دن کی مناسبت سے لباس کی تیاری الگ۔ ان سب پر رقم خرچ
کرنے کے بعد بھی سکون کا سانس لینا کسے نصیب ہے۔ کبھی بچے کو خرگوش بنانے
کے لیے کپڑے ضروری ہیں، تو کبھی شیر اور بھالو کے مختلف اقسام کے فینسی
ڈریس خریدنا۔ والدین کی مجبوری ٹھہری، جیب چاہے چیخ اٹھے لیکن اپنے بچے کو
اسٹیٹس مینٹین رکھنے کی دوڑ میں شامل کرنا ضروری ہے۔ سو اس قسم کے فینسی
ڈریس جن کی قیمت 500 روپے سے تین ہزار تک ہوتی ہے اور جنھیں بچہ فقط 15 سے
20 منٹ پہنتا ہے، خریدنا ہی پڑتے ہیں۔
یہ الگ بحث ہے کہ اسکولوں کے ساتھ اس طرح کے فینسی ڈریسز بنانے والوں کے
باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں اور ہر لباس پر اسکول انتظامیہ اپنا کمیشن رکھتی
ہے۔ جو اسکول کمیشن نہیں لیتے وہ پروگرام تو بہرحال ضرور منعقد کرتے ہیں تا
کہ اپنے اسکول کے طالب علموں کو جانوروں سے مشابہت رکھنے والی پرفارمینس
دکھانے پر ان کی تصاویر بنائیں اور نئے آنے والے گاہکوں․․․ میرا مطلب ہے
والدین کو ان تصاویر کی مدد سے پھانسا جاسکے۔
اب لیجیے کورس کی کتابوں کو، جو ادارہ زیادہ مراعات اور کمیشن کی بات کرے
جناب! اسی کی کتاب خریدنا ضروری ہے۔ میں آج تک یہ بات نہ سمجھ سکی کہ اردو
اور انگریزی میڈیم اسکولز میں کتابوں کا معیار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر
انگریزی اسکول دوسرے سے مختلف کورس کیوں پڑھا رہا ہے؟ پیسے بٹورنے کا نیا
حربہ یہ اپنایا گیا ہے کہ وہ اسکول جن کی لاتعداد برانچز ایک ہی شہر میں
قائم ہیں، ان اسکولز میں سال شروع ہوتے ہی فیس چالان کے ساتھ ایک اور چالان
تھما دیا جاتاہے اور یہ چالان کتابوں کی خرید کی مد میں جمع کروائی جانے
والی رقم کا ہوتا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہو، کتابوں کی ایک فہرست اسکول کی
طرف سے مہیا کی جاتی تھی اور وہ والدین جو نئی کتابیں خریدنے سے قاصر تھے
وہ پرانی کتابیں اور نئی کاپیاں دے کر بچے کی پڑھائی کے خواب کو آگے بڑھاتے
تھے۔ اب انھیں کتابوں کی فہرست ہی نہیں دی جاتی جس کی مدد سے وہ جان سکیں
کہ کون سی کتاب خریدنی ہے اور کون سی نہیں؟ وہ اس پر مجبور ہیں کہ اسکول کے
بک اسٹور یا بتائے گئے مخصوص بک اسٹور ہی سے کتابیں خریدی جائیں۔ یہ بھی
اچھی رہی کہ کتابوں کا نام ہی نہ بتایا جائے کیوں کہ اس صورت میں تو والدین
پرانی کتابیں خرید لیں گے اور اس طرح نہ ہی اسکول انتظامیہ کی روزی میں
برکت ہوگی اور نہ والدین پر مہنگائی کا عذاب نازل ہوگا۔
کتابوں کا معیار اتنا اعلیٰ ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ چھوٹا سا بچہ کس
طرح اس فلاسفی کو سمجھ سکے گا۔ اب مسئلہ سمجھنے نہ سمجھنے کا تو رہا ہی
نہیں۔ سمجھانے کی ذمے داری تو ماں باپ کی ہے لہٰذا ٹیوشن کا سہارا لیا جاتا
ہے۔ ٹیوشن کی فیس کی ادائیگی ایک چھوٹے اژدہے کی مانند گلے میں لٹکی ہوتی
ہے اور اسکول کی فیس کا بڑا اژدہا دو دو ماہ کی اکٹھی فیسوں کے ساتھ زبان
لٹکائے ڈرا رہا ہوتا ہے۔ پھر جیسے ہی سالانہ فیس دینے کا مہینہ یعنی اپریل
شروع ہوتا ہے، یہ اژدہا پورا منہ کھول کر والدین کو نگلنے کے لیے تیار ہو
جاتا ہے۔ اسکول وین کی فیس ادا کرنا تو واجب قرار پایا۔ اب ہمارا وین
ڈرائیور جون جولائی میں اپنا گھر کیسے چلائے گا سو بہتی گنگا میں ہاتھ
دھونا اس کے لیے بھی لازم ٹھہرا۔ پہیہ چلے نہ چلے دو ماہ کی تعطیلات میں یہ
فیس ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک اور رواج چل نکلا ہے، اسکول کی امتحان کی
کاپیاں فائلیں رنگ اور رنگ برنگی شیٹیں جو کہ اسٹیشنری کے زمرے میں آتی
ہیں، وہ بھی اسکول سے سال شروع ہوتے ہی خریدنا ہوتی ہیں۔ اب اس سامان سے
بچہ فائدہ اٹھاتا ہے یا اسکول کا مالک، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
اب تک ایک معیاری انگریزی میڈیم اسکول کی فیس کم سے کم ڈھائی ہزار روپے
تھی، جو حالیہ اضافے کے بعد مزید بڑھ گئی ہے، جب کہ اس سے کم فیس والے
اداروں کو معیار کی فہرست میں ہم والدین ہی نہیں لاتے اور زیادہ سے زیادہ
فیس 17ہزار تھی، جس میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔ اتنی فیس لینے کے باوجود ان
ٹیچرز کو بھرتی کیا جاتا ہے جو کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے پر آمادہ ہو
جائیں۔ اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تو جیسے ناپید ہو چکے
ہیں۔ آج سب سے آسان دھندا اسکول کھول کر کمائی کرنے کا بن گیا ہے۔ میں
مانتی ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ایسے مخلص لوگ بھی موجود
ہیں جو اس شعبے سے ایمان داری برت رہے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے
میں نمک کے برابر ہے۔
انگریزی میڈیم اسکولز کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں
پرائیویٹ اسکولوں کی تنظیموں سے سوال کرتی ہوں کہ آخر کیوں ایسے اصول و
ضابطے مقرر نہیں کیے گئے جن کی رو سے اسکول انتظامیہ جواب دہ ہوں کہ وہ فیس
کس پیمانے پر مقرر کرتے ہیں۔ کتابیں کیوں اسکول سے خریدنا ضروری ہیں۔ آئے
دن ہونے والے فنکشنز پر اٹھنے والا پیسہ کس کی جیب سے جاتا ہے۔ چلیں آپ کچھ
نہ کریں اتنا تو بتا دیجیے کہ انگریزی اسکولز کو آپ جتنی کیٹگریز میں تقسیم
کرتے ہیں، آخر ان کیٹیگریز کی فیسیں کیوں مختلف ہوتی ہیں؟
اس اندھیر نگری میں اسکول کا کاروبار کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں
اور سر کڑاہی میں ہے۔ تو اب کوئی بھی میٹرک فیل بے روزگار اپنے گھر کے
احاطے میں اسکول کھول سکتا ہے، کیوں کہ یہاں قابلیت کون پوچھتا ہے۔ ہر بچہ
اس بھٹی میں قابلیت کی آگ میں نہیں جلتا، بلکہ اسکول مالکان کے ہاتھوں میں
ایک نئے کرارے نوٹ کی حرارت بنا رہتا ہے۔ |