میر تقی میرؔ۔ اردو غزل کے بے تاج بادشاہ

( 205 سال قبل 20 ستمبر 1810ء کو دنیا سے رخصت ہوئے)
دنیائے اردو ادب کے بے تاج بادشاہ ، غزل کی دنیا کے شہنشاہ میرتقی میرؔ کو دنیا چھوڑے 205سال ہوگئے۔ وہ اکبر آباد میں 1722 ء میں پیدا ہوئے ، انتقال 20 ستمبر 1810ء مطابق 1135 ھ لکھنؤ میں ہوا۔ طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود میرؔ دنیائے ادب پر آج بھی حکمرانی کر رہے ہیں اور زندہ و تابندہ ہیں۔ میرؔ ان استاد الاساتذہ میں سے ہیں کہ جن کو اردو شاعری کے بڑے بڑے شاعروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کی شاعری کی برملا تعریف و تو صیف میں کنجوسی سے کام نہیں لیا۔ شعرائے متاخرین نے انہیں ’’خدائے سخن‘‘ کا خطاب دیا۔ ایک عالم میرؔ کی شاعری کا مُعتَرف و معتقد رہا اور یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔مرزا غالبؔ جیسے استاد شاعر نے بر ملا میرؔ کے معتقد ہونے کا اقرار کیا ؂
اپنا تو عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہیں جو معتقدِ میر نہیں

پھر غالبؔ نے میرؔ کے معتقد ہونے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیا کو یہ باور بھی کرایا کہ غالب ؔ ہی ریختے کے استاد نہیں ، ان سے پہلے میرؔ بھی زبان و بیان کے استاد رہ چکے ہیں۔ غالب ؔ کا یہ شعر بہت معروف ہے ؂
ریختے کے تُم ہی استاد نہیں ہو ، غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

’ذکرِ میر ‘ میر تقی میرؔکی خود نوشت سوانح حیات ہے۔جو ان کی نجی زندگی کے واقعات ، ان کی شخصیت پر تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس خود نوشت کو میرؔ پر معلومات کا اَساسیِ ماخذ تصور کیا جاتا ہے۔ میرؔ کی شاعری اور ان کی زندگی پر گزشتہ دوصدیوں سے کام ہورہا ہے۔ بے شمار مورخین ،محققین و مصنفین نے میر ؔ کو اپنا موضوع بنایا اور تحقیق کی، شاعروں نے میرؔ پر شاعری کی اور نظم میں میرؔ کو خرجِ تحسین پیش کیا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہوگا کہ جس نے میرؔ کی غزل گوئی کا مطالعہ نہ کیاہو۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتاب ’کلیاتِ میرؔ‘ عمدہ کاوش ہے؛یہ اُن کا ڈی لٹ کامقالہ بھی تھا۔جسے انہوں نے مطبوعہ صورت میں لکھنؤ یونیورسٹی میں ڈی لٹ کے لیے پیش کیا تھا۔ میرتقی میرؔ کی نجی زندگی اور ان کی شاعری کے حوالے سے انتہائی محنت و جستجو کے ساتھ حقائق کو جمع کردیا ہے۔اس کتاب کو میرؔ پر ایک مستند تحقیق کی حیثیت حاصل ہے۔

میرؔ کے اجداد کا وطن ’حجاز‘ تھا ، وہ حجاز سے ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر دکن سے ہوتے ہوئے گجرات میں پناگزیں ہوئے،جہاں سے وہ اکبرآباد آئے جو اس وقت ہندوستان کا مرکزی شہر اور دارالخلافہ بھی تھا، میرؔ کا خاندان نسلاً ایک اعلیٰ خاندان تھا، عربی ہونے کے ناطے ان میں عرب کے باسیوں کی اعلیٰ روایات اور خاصیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔غیض و غضب،غصہ،قہر،، شدت، گرمی، جوش، ولولہ، شدت پسندی ، غیرت، ندامت ، حمیت ، شرافت ، ثابت قدمی، برداشت، درگزر، ایثار ، قربانی،ندامت ، اضطراب ، کَسَمساھَٹ، بے چینی و بے کلی ان کی شخصیت اور شعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔خاندانی اثرات کے ساتھ ساتھ میرؔ پر حالات اور واقعات جو ان کی زندگی میں گزرے کے اثرات بھی ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ میرؔ کے مطابق ’ان کے دادا نے فوج میں ملازمت اختیار کی لیکن وہ جلد ہی ہندوستان کے شہر گوالیار جاکر انتقال کرگے‘۔ میرؔ کے والد محمد علی ’علی متقی‘ کے نام سے معروف تھے وہ اپنے اس خطاب کی مناسبت سے پرہیز گار ، متقی اور درویش صفت انسان تھے۔ میرؔ کا کہنا ہے کہ ان کے والد روز و شب یاد الٰہی میں مصروف رہا کرتے۔قدرت کا نظام بھی خوب ہے کہ باپ درویش، متقی و پرہیز گار اور بیٹا بلا کا غزل گو۔

میرتقی میرؔ اکبر آباد میں 1722ء میں پیدا ہوئے۔ تحقیق کے بعد میرؔ کی پیدائش کا یہی سال سامنے آیا ۔ میرؔ کا خاندان مالی اعتبار سے مستحکم نہ تھا بلکہ غربت کا دور دورہ ہی رہا۔ میرؔ نے بھی غربت ہی دیکھی۔ میرؔ کی ابتدائی تربیت اپنے درویش صفت والد کی زیر سایہ ہوئی لیکن وہ تو دنیا سے دور کی دنیا کے مکین تھے۔ میرؔ سات سال کی عمر میں سید امان اﷲ کے سپرد کردئے گئے جنہیں میرؔ نے ’عم بزرگوار‘لکھا ہے۔ بہت جلد میرؔ اپنے والد اور اپنے ان بزرگوار سے محروم ہوگئے۔ اب میرؔ کی نجی زندگی مشکلات و مصائب کا شکار ہوگئی، سوتیلے بھائیوں نے میرؔ کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ کیا۔میرؔ کا یہ دورغربت، تنگ دستی ، افلاس کا دور تھا۔ میرؔ میں اپنے والد کی ایک خصوصیت خود داری بھی تھی۔ وہ انتہا درجہ کے خود دار واقع ہوئے تھے۔ تلاش معاش کے سلسلے میں شہر شہر نگر نگر گئے، اس وقت میرؔ صرف دس برس کے تھے۔ آگرہ میں کوشش کی کہ معاش کاکوئی ذریعہ بن جائے لیکن ناکامی ہوئی مجبوراً دلی کا رخ کیا۔ یہاں بھی میرؔ کو پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ حد سے زیادہ پریشانی، بے بسی، غربت نے گویا میرؔ کو چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ دوبارہ آگرہ چلے گئے لیکن پھر مجبور ہوکر دلی واپس آگئے اور اپنے سوتیلے ماموں سراج الدین خان آرزوؔ کے یہاں رہنے لگے۔یہاں بھی میرؔ کی مشکلات کم ہونے کے بجائے زیادہ ہی ہوگئیں۔ یعنی خاندانی مصائب نے بھی گھیرا تنگ کردیا۔ انسان مسلسل پریشانیوں اور مشکلات میں گھرا رہے تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوہی جاتا ہے۔ شکر ہے کہ میرؔ نے اپنے آپ کو ذہنی دباؤ سے محفوظ رکھا ، میرؔ کے خاندان میں ذہنی مریض ہونے کے آثار پائے جاتے تھے، ان کے چچا ذہنی طور پر مفلوج تھے۔ حالات کے ہاتھوں میرؔ مجنو ٔ ں ضرور ہوگئے تھے، تنگ آکر اپنے خاندان کے احباب سے لاتعلق ہوگئے اور دلی میں معاش کی غرض سے کئی جگہ ملازمتیں بھی کیں۔ان حالات میں بھی شاعری جاری رہی۔ اپنے درد و غم کا ذکر میرؔ نے اپنے اس شعر میں بھر پور طریقے سے کیا ہے ؂
مجھ کو شاعر نہ کہومیرؔ کہ صاحب میں نے
دردو غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

اب وہ دور آچکا تھا کہ میرؔ کی شاعری نے اپنا سکہ جما لیاتھا، ہر جانب میرؔ کی غزل گوئی کے چرچے عام تھے۔ دوسری جانب دلی کے حالات ابتری کی جانب رواں دواں تھے، مغلیہ سلطنت روبہ انحطاط تھی، ابدالیوں نے دلی پر حملہ کرکے اس کا حال برا کردیا تھا،مرہٹوں نے انتشار کی فضاء پیدا کی، روہیلوں نے مظالم در مظالم کرکے ظلم کی تاریخ رقم کردی تھی، نادر شاہ دلی پر حملہ آور ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے رہی سہی کثر پوری کرکے دلی کو تاراج کرلیا ، دلی کو خوب لوٹا گیا، سارا نظام درہم برہم کردیا گیا،یہی وقت تھا جب دلی کے اجڑنے کی داستان رقم ہوئی۔ 1857 ء کے غدر نے مغلیہ سلطنت کے ساتھ قدیم تہذیب و تمدن کی بساط الٹ کر رکھ دی۔اس طرح درانیوں، ابدالیوں، مرھٹوں، جاٹوں اور روھیلوں نے یکے بعد دیگرے دلی کو خوب خوب لوٹا اور قتل و غارت گری سے دلی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ یہاں تک کے مغل حکمراں انگریزوں کے ملازم بن کر رہ گئے۔ میرؔ دلی کی کاھِش پزیری کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ وہ ایک حساس دل لیے ہوئے تھے ان واقعات سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے تھے۔ دلی کے اجڑنے کی داستان رقم کی۔ میرؔ نے کہا ؂
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اُنھیں
تھا کل تک دماغ جنھیں تاج و تخت کا

دلی کے ابتر حالات نے وہاں کے باسیوں کو دلبرداشتہ کردیا تھا، شاعروں کی اکثریت نے دلی سے لکھنؤ کا رخ کیا ۔ میر تقی میرؔ نے بھی دلی کو خیر باد کہنے کا ارادہ کیا ۔ میرؔ شاعر کی حیثیت سے اپنی شہرت کا ڈنکا بجوا چکے تھے۔ نواب وزیر الملک آصف الدولہ بہادر نے میرؔ کو لکھنؤ بلوا بھیجا۔ میر نےؔ بھی اس پیش کش کو غنیمت جانا اور دلی کو چھوڑ لکھنؤ جا بسے۔ اس وقت میرؔ ساٹھ کے ہوچکے تھے۔ یہاں آکر اطمینان کا سانس لیا اور پھر لکھنؤ سے واپس مڑکر نہ دیکھا ۔ گو وہ لکھنؤ میں اداس ضرور تھے لیکن اس کے باوجود لکھنؤ کو اپنی آخری پناہ گاہ و آرام گاہ بھی بنا لیا اور زندگی کے اختتام تک لکھنؤ ہی کو آباد کیے رکھا ۔ وہ لکھنؤ گئے تو اپنی دلی کیفیت اور اداسی کا اظہار کچھ اس طرح کیا ؂
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اُداس
میرؔ کی سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا

دبستان ِدہلی کا اپنا رنگ ہے ، دہلی اسکول آف اردو غزل کی وسعت اور اثرات اردو شاعری پر ہمیشہ سایہ فگن رہیں گے۔دبستانِ دلی کی شاعری داخلیت پسندی کے گرد گھومتی ہے جس میں سوز وگداز، درد مندی، غم والم، تصوف، حسن و جمال، احساسات ِ حسن، خوبصورت تشبیہات، شفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔دبستان دہلی نے میر تقی میرؔ،سوداؔ، دردؔ، مصحفیؔ، انشاءؔ، میرحسن، داغؔ دہلوی، بیخودؔدہلوی اور بے شمار عظیم شاعر پیدا کیے۔میرؔ کا انداز اور شاعری سب سے جد ا، گفتگو کا انداز مختلف اور سخن نرالا ہے، جس کا اعتراف خود میرؔ نے اس شعر میں کیا ؂
نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے
ہماری گفتگو کا ڈھب جُدا ہے

ایک اور جگہ اپنی بات کے مستند ہونے اور سارے زمانے میں بلند و بالا ہونے کا فخریہ انداز اس طرح سے کیا ؂
سارے عَالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

دلی اور لکھنؤ شاعروں کے شہر تھے، اردو کی ترویج و ترقی کے شہر ، ادیبوں اور دانشوروں کا منبع و مرکز، اردو تہذیب و تمدن کے گڑھ تصور کیے جاتے تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں لکھنؤ کے شعرا اپنے نام کے ساتھ لکھنؤ ی اور دہلی یا دلی کے شعرا اپنے نام کے ساتھ دہلوی فخریہ طور پر لگایا کرتے تھے۔ ’دہلی‘
اور’ لکھنؤ‘شعرا کی پہچان تھا۔دہلی اجڑی تو لکھنؤ میں اردو کے چرچے تیز ہوئے۔ کسی شاعر نے لکھنؤ کے حوالے سے کہا ؂
دعویٰ زبان کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہار بوئے مشک غزالوں کے سامنے

میرؔنے ’ذکر میر‘کے علاوہ ایک کتابچہ ’فیضِ میر‘ کے عنوان سے لکھا۔ یہ کتابچہ میر ؔ کے مذہبی عقائد و خیالات کا پتا دیتا ہے۔ساتھ ہی ان کی بعض مختلف قسم کی دلچسپیوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتاہے۔ مورخین نے میرؔ کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کی اہمیت و ضرورت کو بنیاد قراردیا ہے۔ اردو تذکرہ نگاری میں بھی میر تقی میرؔ کانام سرِ فہرست ہے۔ میرؔ نے اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ’’نکات الشعراء‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا جو 1751 ء میں منظر عام پر آیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ا س تذکرے میں ستر یا بھتر(70-72) معروف و غیرمعروف شعراء کا تذکرہ ہے۔ ہر شاعر کی شخصیت اور اس کا منتخب کلام ساتھ ہی اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ تذکرہ اس دور کے شعراء کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس میں خود میرتقی میرؔ کی شخصیت اور اس دور کے شاعرانہ ماحول کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے۔

میرؔ بنیادی طور پر شاعرانہ مزاج رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تمام عمر شعر و شاعری کی دنیا میں بسر کی ، اسی کے سہارے زندہ رہے، ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم سرمایہ یہی ان کی شاعری ہی ہے۔ وہ اپنی شاعری کو درد غم کا مجموعہ قرار دیتے ہیں، ان کی شاعری ہنگامہ اور اس ہنگامہ خیز شاعری نے شاعری کے ماحول میں ھلچل بھی بپاکی۔ اردو غزل کے اس شاعر نے تمام عمر غزل سرائی کی ۔ اس کا اعتراف انہوں نے اپنے اس شعر میں اس طرح کیا ؂
کچھ مشغلہ نہیں ہے ہمیں
گاہ و بے گہ غزل سرائی ہے

میرؔ کی شاعری احساسِ حسن اور ذوقِ جمال کے گرد گھومتی ہے ، زندگی میں جن حادثات و واقعات سے وہ دوچار ہو ئے ، اگر وہ نہ ہوئے ہوتے، ان کے دل پر پتھروں سے وارنہ کیے جاتے، وہ غموں سے چور چور نہ ہوئے ہوتے، وہ اپنوں اور پرائیوں کی بے اعتنائیوں کا شکار نہ ہوئے ہوتے، انہیں در در کی ٹھوکرے کھانے کو نہ ملتیں، غربت اور افلاس کی چکی سے نہ گزرے ہوتے، ان کے جذبات کو پاؤں تلے نہ روندا گیا ہوتا، دلی سے لکھنؤ اور پھر لکھنؤ سے دلی کے چکر نہ لگانے پڑتے، ان کی خواہشوں کا، آروزؤوں کا خون نہ ہوا ہوتاتو وہ میرتقی سے میرؔ نہ بنتے۔میر نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہے۔ انہیں عربی
کے علاوہ فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ میر ؔ جب کِبر سِنی کو پہنچے تو انہوں نے اپنی شعری کیفیت کا حال اپنے اس شعر بیان کیا ؂
لُطفِ سخن بھی پیری میں رہتا نہیں ہے میرؔ
اَب شعر ہم پڑھیں ہیں تو وُ ہ شد و مد نہیں

غزل گوئی میں میر ؔ کی بلندی کو اب تک کوئی نہ چھو سکا۔ ان کی غزلوں کے بعض بعض اشعارضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرؔ کے کلام سے چند اشعار ؂
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا، اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گُلاب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے ، اگر خدا لایا
فقیرانہ آئے ، صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دعا کرچلے
ہنستے ہو روتے دیکھ کر ہم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
میر’ صاحب، زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
سو غُلم اُٹھا ئے تو کبھی دور سے دیکھا
ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بُلالے
چپکے سے آجاتے ہو آنکھیں بَھر بَھر لاتے ہو
میرؔ گُزری کیا ہے دل پر کُڑ ھا کرو ہو اکثر تم
ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میر’ ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ
افسوس ، تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
رفتہ رفتہ اُس پری کے عشِق میں
رفتہ رفتہ میرؔ سا دانا دِوانہ ہوگیا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
آئے ہیں میرؔ مُنھ کو بنائے جِفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
عِشق و محبت کیا جانو میں لیکن اتنا جانوں ہوں
اندر ہی اندر سینے میں میرے دِل کو کوئی کھاتا ہے
میرؔ صاحب رُلا گئے سب کو
کل وُہ تشریف یاں بھی لائے تھے
پتا پتا ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
سرہا نے میر ؔ کے آہستہ بولو ،
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ
کِس بھروسے پہ آشنائی کی
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
یہ زمانہ نہیں اَیسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو بُرا اپنا بھلا کرتے ہیں
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلویاں کہ بہت یاد رہو
لے سانس بھی آ ہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کے اِس کا ر گہ شیشہ گری کا
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میرؔ
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
صبح تک شمع سر کو دُھنتی رہی
کیا پتنگے نے اِلتماس کیا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اِس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رُو رُو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جا گے صُبح ہُوئی آرام کیا
کیا کیا عزیز دوست ملے میرؔخاک میں
نادان یہاں کِسو کا کِسو کو بھی غم ہوا
شعلہ بھڑک اٹھا مِرے اِس دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285676 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More