سڑکوں پر نصب مورتیاں بھی ہمارے عقیدے کو ٹھیس پہنچاتی ہے !!!

ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک کہلاتا ہے لیکن اکثر معاملے میں یہاں سیکولزم کے ڈھانچہ کو نظر انداز کرکے مذہبی عقائد اور جذبات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ لامذہبیت اور سیکولزم کی حیثیت قانون کی کتابوں سے نکل کر زمینی سطح پر اب تک نافذ نہیں ہوسکی ہے ۔ مذہبی عقائد وجذبات کو مدنظر رکھنے کا معاملہ بھی یکساں نہیں ہے ۔ اکثریتی فرقہ کے جذبات کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا ہے لیکن جب بات آتی ہے اقلیتوں کے جذبات کی بالخصوص مسلمانوں کی، ان کے مذہبی مسائل اور شرعی عقائد کی تو جمہوریت اور سیکولزم کے اصول بالکلیہ بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی رسوم کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔اور دہائی دی جاتی ہے کہ اس عمل سے ملک کے اکثریتی طبقہ کے جذبات مجروح ہوں گے ۔

ایسے کئی معاملے ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کے مذہبی عقائدسے ہے لیکن ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس پر پابندی عائد ہے ۔ اور اس کی تائید خود مسلمانوں کے بعض نام نہاد دانشوارن بھی کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہندؤوں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے ۔ایسے معاملات کی فہرست میں گؤکشی بھی شامل ہے جو ایک طویل عرصہ سے ہندوستان میں زیر بحث ہے اور یہاں کے اکثر صوبوں میں ہندوؤں کے جذبات کے پیش نظر قانونی طورپر جرم ہے ۔

گائے ہندؤوں کے نزیک انتہائی مقدس ہے ۔ وہ اسے اپنی ماں مانتے ہیں ۔ ہندو مذہب کے مطابق جب گائے کو ذبح کیا جاتا ہے تو اس سے ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ،ان کے عقائد کو ٹھیس پہچتا ہے اس لئے مسلمانوں کو گائے کا ذبیحہ نہیں کھانا چاہئے ۔ ان کی دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ گائے کے گوشت کھانے کا تعلق مسلمانوں کے عقائد سے نہیں ہے وہ اگر گائے ذبح نہیں کرتے ہیں، اس کی قربانی نہیں کرتے ہیں تو اس سے ان کے عقید پر کوئی آنچ نہیں آئے گی لیکن ہندوؤں کے عقائد پر اثر پڑتا ہے ، انہیں بے پناہ تکلیف پہچتی ہے ۔ ہندو فرقہ کے ان جذبات کا احساس مہاتما گاندھی کو بھی تھا اور انہوں نے پورے ملک میں جاکر گؤکشی کے خلاف تحریک چلائی اور یہی دلیل دی کہ’’ گائے نہ کھانے سے آپ کے مذہبی عقیدہ یہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن دوسری طرف آپ کے ہندو بھائیوں کے عقائد پر ضرب پڑے گی‘‘ اس لئے امن وسلامتی ، بھائی چارگی اور سیکولزم کے نظریہ کو فروغ دیتے ہوئے آپ لوگوں کو گؤ کشی بند کردینی چاہئے ۔ مہاتما گاندھی جب یہ تحریک لے کر بہار پہچے تو انہیں آرہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب بانی جمعیۃ علماء ہند و امارت شرعیہ نے روک کر کہاکہ آپ بہار میں آگے قدم سے بڑھانے کے بجائے یہیں سے واپس ہوجائیں ۔اگر یہ تحریک یہاں جاری رکھیں گے تو پھر جہاں آپ جلسہ کریں گے وہیں پر سامنے ہم اپنا اسٹیج لگاکر آپ کے خلاف تحریک چلائیں گے اور یہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ گاندھی جی نے مولانا کے سامنے وہی باتیں دہرائیں کہ ہم پرامن ہندوستان کے لئے یہ تحریک چلارہے ہیں اور آپ بلاوجہ ہماری راہ میں حائل ہورے ہیں مولانا نے کہاکہ بے وجہ آپ یہ تحریک چلارہے ہیں ۔ گاندھی جی نے سوال کیا وہ کیسے ۔ مولانا نے کہاکہ جس طرح گائے آپ کے نزدیک مقدس ’’ماں‘‘ ہے اور اس کے ذبح کرنے سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے اسی طرح ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس دنیا کا خالق و مالک صرف اور صرف اﷲ ہے ۔ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت اور پرستش ناجائز اور حرام ہے لیکن جب ہم لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سورج کی پوجا کررہے ہیں ، چاند کی پوجا کررہے ہیں ، سمندروں ، درختوں ، پتھروں ، اور دیگر چیزوں کو خدامان کر اس کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں ، سڑکوں پر ، چوڑاہوں پتھر کی مورتیا ں نصب کرکے ا سے بھگوان تسلیم کرتے ہوئے پوجا پاٹ کررہے ہیں تو ہم بیان نہیں کرسکتے ہیں کہ اس وقت ہم مسلمانوں کے دلوں پر کیا گذرتی ہے ، ہم کن کیفیات سے دوچار ہوجاتے ہیں ، ہمارے جذبات کس قدر مجروح ہوتے ہیں لیکن مجبوریوں کے سبب ہم یہ سب برداشت کرتے ہیں ورنہ تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ روئے زمین پر اﷲ کے علاوہ کسی اورکی پرستش نہیں ہونی چاہئے ۔ مولانا سجاد کا یہ جواب سن کر گاندھی جی لاجواب ہوگئے ۔ اس کے بعد مولانا نے کہاکہ آپ سے صرف اتنی گذارش ہے کہ سڑکوں ، چوڑاہوں اور دیگر پبلک مقامات پر مورتیوں کی پوجا پاٹ بندکردایں ،یہ تمام چیزیں آپ کھلے عام کرنا بندکردیں۔یقین جانئے ہم گائے کی قربانی بند کردیں گے اور کوئی بھی مسلمان گائے ذبح کرکے ہندؤوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر ے گا۔گاندھی جی مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ جواب سن کر وہیں سے الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے اور گؤہتھیا کے خلاف تحریک بہار میں نہیں چلاسکے ۔

مہاتما گاندھی نے گؤکشی کے خلاف ملک گیر سطح پر یہ تحریک ہندؤوں کے جذبا ت کا خیال کرتے ہوئے چلائی تھی انہیں اس بات کا احساس مولانا سجاد صاحب کے ساتھ ہوئے مباحثہ کے بعد ہوا کہ ہندؤوں کے بھی کچھ بلکہ اکثر ایسے اعمال ہیں جو مسلمانوں کے لئے باعث اذیت بنتے ہیں اور براہ راست ان کے عقائد کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔لیکن مسلمان کمیونٹی کے لوگ صبر کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کچھ بھی نہیں بولتے ہیں اور ہمارے عقائد و جذبا ت کا خیال کرتے ہیں ۔

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کے ماننے والوں کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تعلیم دی گئی ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کو کیا کھانا ہے اور کیا نہیں ۔ گائے ان جانوروں میں شامل ہے جس کا ذبیحہ مسلمانوں کے لئے جائز اور مرغوب غذا میں شامل ہے ۔کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں گائے کے گوشت کو کافی اہمیت حاصل ہے اوروہاں اس کے علاوہ دیگر جانوروں کا گوشت ناپسند کیا جاتا ہے ۔مولانا مودودی کے بقول ان ملکوں میں گائے کی قربانی لازم اور ضروری ہے جہاں گائے کو مقدس ماتا کے طور مانا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے مسلمانوں کا گائے کو ذبح نہ کرنا اس کو ماں تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو اسلامی عقیدہ کی خلاف ورزی ہے ۔ ہاں جہاں ایسا معاملہ نہیں ہے وہاں گائے کی قربانی کرنے کے معاملے میں اختیار ہے۔

گائے کے تعلق سے دو متضاد نظریہ ہے ۔ ہم مسلمان اسے عام جانور سمجھتے ہیں جبکہ ہندوسماج کے لوگ ماں مانتے ہیں۔ اب مسلمان اکثریتی فرقہ کا خیال کرتے ہوئے اس کی قربانی سے رک جائیں تو گویا وہ بھی اسے ہندوسماج کی طرح ماتا سمجھتے ہیں اور اس کی قربانی کرتے ہیں تو ہندوسماج کو تکلیف ہوتی ہے ۔معاملہ دونوں طبقہ کے عقیدے اور جذبے کا ہے۔ لیکن ملک کی عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ صرف ایک طبقہ کا خیال کرتی ہے ۔دوسرے کو یکسر نظر انداز کردیتی ہے۔مسلم دانشواران اور سیاست داں بھی ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اکثریتی طبقہ کا خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کو گؤکشی نہیں کرنی چاہئے ۔ چلئے ہم نے یہ مان لیا لیکن ہندوؤں کے وہ اعمال جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔براہ راست ہمارے عقائد کے کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ان کا کیا ہوگا ، اگر وہ سڑکو ،چوڑاہوں ، پبلک مقامات اور سرکاری دفاتر اپنے خودساختہ معبودوں کی پوجا پاٹ نہیں کریں گے تو اس سے ان کے عقائد کے کس باب کی خلاف وزری ہوگی ، اگر وہ خنزیر کو کھلے عام نہیں رکھیں گے یا اس کی پرورش نہیں کریں گے تو اس سے ان کے مذہبی امور پر کیا فرق پڑے گا یقینی طور پر ان سب چیزوں سے ان کا عقیدہ ذرہ برابر بھی متاثر نہیں ہوگا اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ ان کی بہت بڑی مذہبی خیر سگالی بھی ہوگی کیوں کہ ہم جب غیروں کی پرستش ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ، زمین پر کہیں بھی خنزیرنظر آتا ہے تو عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں اورناقابل بیان ذہنی و قلبی پریشانی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔دل یہ سوچ کر شرمندہ ہوجاتا ہے کہ کل ہم پروردگار عالم کو کیا جواب دیں گے جنہوں نے ہمیں روئے زمین سے ان چیزوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔اور اب گائے کی قربانی کے ساتھ بیل کی قربانی پر پابندی کیا معنی رکھتی ہے ۔ یہ جانوروں کے ساتھ خیر خواہی ہے یا مسلمانوں کے مذہب اور عقیدہ پر براہ راست حملہ اور قربانی جیسے اہم مذہبی فریضہ کی ادائیگی سے روکنا ؟؟\

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163716 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More