بابائے اردو مولوی عبدالحق کے
خطبات میں اُردو زبان سے اُن کی محبت اور فروغِ اردو کے لیے اُن کی کوششیں
صاف عیاں ہیں۔ یہ خطبات اردو ادب کے وہ شہ پارے ہیں جنھیں بابائے اردو کے
اسلوب اور زبان پر عبور اور عام گفتگو میں عالمانہ تجاویز اور اُن کے حل کے
لیے مشورے بھی موجود ہیں کیوں کہ ہمارے تہذیبی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی
روّیوں میں زبان کا بہت بڑا حصہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھتی ہے
اور لسانی بنیادوں پر تفریق کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس تفریق کو ختم کرنے کے
لیے بابائے اردو نے ہمیشہ لسانی وصوبائی تعصبات سے بالاتر ہوکر قومی زبان
کے احیاء کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی۔
خطباتِ عبدالحق (حصہ اوّل)انجمن ترقی اردو ہند نے۱۹۳۹ء میں شائع کیا۔جس کا
سلسلہ مطبوعات نمبر ۱۲۴ ہے۔اس میں دس خطبات موجود ہیں۔(۱)جن کی فہرست درجِ
ذیل ہے۔واضح رہے کہ ان فہرستوں کی تفصیل محض اس لیے دی جارہی ہے تاکہ
قارئین کو علم ہو کہ متنوع موضوعات پر بابائے اردو نے اپنی بلیغ وبسیط آرا
کا اظہار کیا ہے:
۱۔خطبۂ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس (بڑودہ)
۲۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی (الٰہ آباد)
۳۔’’اردو کا حال اور مستقبل‘‘ (خطبۂ صدارت انجمنِ حمایت اسلام لاہور)
۴۔خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین ہند (لکھنؤ)
۵۔خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنس (پٹنہ)
۶۔خطبۂ آل انڈیا اردو کانفرنس (علی گڑھ)
۷۔ خطبۂ صدارت سندھ پراونشل اردو کانفرنس (کراچی)
۸۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس صوبۂ متوسط (ناگپور)
۹۔مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ایک تقریر۔
۱۰۔ ’’ہندستانی کیا ہے‘‘ (تقریر از نشرگاہِ دہلی)
اس کتاب کے پیش لفظ میں مرتب رقم طراز ہے کہ:
’’ڈاکٹر مولانا عبدالحق صاحب مدظلہٗ لائف آنریری سیکریٹری انجمن ترقی اردو
(ہند) کے خطبات جو انھوں نے مختلف موقعوں پر دیئے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان
میں سے بعض خطبات رسالہ ’’اردو‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں اور کچھ دوسرے
بلندپایہ رسائل میں ہیں۔ لیکن بعض خطبے جو الگ شائع ہوئے اُن کی مانگ اس
قدر تھی کہ دفتر سے فرمائشوں کی تعمیل مُحال ہوگئی۔ اربابِ شوق کا یہ اصرار
دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ جس قدر خطبات فی الوقت مل سکیں اُنھیں جمع کرکے
کتابی شکل میں شائع کردیا جائے۔ چنانچہ یہ مجموعہ پیش ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ
بہی خواہانِ اردو کے لیے یہ خطبے مفید اور بصیرت افروز ثابت ہوں گے اور
تاریخِ ادبِ اردو کے طلبہ خصوصیت کے ساتھ ان سے استفادہ کریں گے۔
دہلی۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۹ء
اسی طرح خطباتِ عبدالحق (حصہ دوم)از جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب بالقابہ
معتمداعزازی انجمنِ ترقی اردو (ہند) شائع کردہ انجمنِ ترقی اردو(ہند)
دہلی،سلسلہ مطبوعات نمبر ۲۰۹، طبع اول، ۱۹۴۴ء کے دوسرے حصے میں تیرہ خطبات
موجود ہیں(۲)۔جن کی فہرست درجِ ذیل ہے:
۱۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس، ناگ پور ۴؍مارچ ۱۹۴۰ء
۲۔خطبۂ صدارت شعبۂ صحافت اورینٹل کانفرنس، تروپتی (جنوبی ہند) ۲۲ما؍رچ
۱۹۴۰ء
۳۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس، لاہور ۸؍دسمبر۱۹۴۰ء
۴۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس، گوالیار۔ ۲۷؍جنوری ۱۹۴۱ء
۵۔خطبۂ صدارت کل پنجاب اردو کانفرنس، لائل پور، ۲۳؍فروری ۱۹۴۱ء
۶۔خطبۂ صدارت (یومِ اردو) انجمن حمایتِ اسلام، لاہور، ۱۲؍اپریل ۱۹۴۱ء
۷۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، علی گڑھ ۱۴؍فروری
۱۹۴۳ء
۸۔خطبۂ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس (دیناج پور) بنگال
۹۔ خطبۂ صدارت اردو کانفرنس، کالی کٹ (ملیبار)، ۷؍نومبر۱۹۴۳ء
۱۰۔ مخلوط زبان
۱۱۔ہندی اردو کا جھگڑا
۱۲۔حامیانِ اردو
۱۳۔ تقریر (سندھ پراونشل اردو کانفرنس، منعقدہ ۸؍اپریل ۱۹۴۴ء)
اس حصے میں پیش لفظ نہیں ہے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی نے پہلی بار۱۹۵۲ء میں خطباتِ عبدالحق
کوچھاپا۔ اس کتاب کا سلسلہ مطبوعات نمبر۲۵۶ ہے جس کے مرتب ڈاکٹر عبادت
بریلوی ہیں۔ اس کے اندرونی سرورق پر ’’بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق
صاحب قبلہ کے خطبات اور تقاریر کا مکمل مجموعہ‘‘ لکھا ہے۔اس میں کُل
۳۴خطبات(۳) اور اشاریہ موجود ہے۔ جس کی فہرست درجِ ذیل ہے:
پیش لفظ
۱۔خطبۂ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس
۲۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی
۳۔خطبۂ صدارت انجمن حمایتِ اسلام، لاہور
۴۔خطبۂ صدارت انجمن ترقّی پسند مصنفین ہند
۵۔خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنس
۶۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس علی گڑھ
۷۔خطبۂ صدارت سندھ پراونشل اردو کانفرنس کراچی
۸۔ خطبۂ صدارت اردو کانفرنس صوبہ متوسط ناگ پور
۹۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس ناگ پور
۱۰۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو آل انڈیا اورینٹل کانفرنس تروپتی (جنوبی ہند)
۱۱۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس لاہور
۱۲۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس گوالیار
۱۳۔خطبۂ صدارت کُل پنجاب اردو کانفرنس لائل پور
۱۴۔خطبۂ صدارت یومِ اردو انجمن حمایتِ اسلام لاہور
۱۵۔خطبۂ صدارت شعبہ اردو آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ
۱۶۔خطبۂ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس دیناج پور(بنگال)
۱۷۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس کالی کٹ (ملیبار)
۱۸۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس بمبئی
۱۹۔خطبۂ صدارت پنجاب یونی ورسٹی اردو کانفرنس لاہور
۲۰۔خطبۂ صدارت کُل گجرات اردو کانفرنس احمدآباد
۲۱۔خطبۂ صدارت سالانہ جلسہ بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن
۲۲۔خطبۂ صدارت مجلسِ ادب لاہور
۲۳۔خطبۂ صدارت خیرپور اردو کانفرنس
۲۴۔خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی
۲۵۔تقریر مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ
۲۶۔ہندستانی کیا ہے؟
۲۷۔مخلوط زبان
۲۸۔ہندی اردو کا جھگڑا
۲۹۔حامیانِ اردو
۳۰۔تقریر سندھ پراونشل اردو کانفرنس
۳۱۔تقریر اردو کانفرنس کراچی
۳۲۔آسان اردو
۳۳۔ملک کے نئے دور میں اردو کا مقام
۳۴۔حالی اور انسانیت
اشاریہ
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی نے دوسری بار خطباتِ عبدالحق ۱۹۶۴ء میں
چھاپی۔ اس کتاب کا سلسلہ مطبوعات نمبر۲۵۶۔۳۱۱ ہے۔ اس کے اندرونی سرورق پر
’’بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق(مرحوم)کے خطبات اور تقاریر کامجموعہ‘‘
لکھا ہے۔اس میں کُل۳۸خطبات(۴) اور اشاریہ موجود ہے۔جس کی فہرست درجِ ذیل
ہے:
حرفے چند جمیل الدین عالی
پیش لفظ ڈاکٹرعبادت بریلوی
۱۔خطبۂ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس
۲۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی
۳۔خطبۂ صدارت انجمن حمایتِ اسلام، لاہور
۴۔خطبۂ صدارت انجمن ترقّی پسند مصنفین ہند
۵۔خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنس
۶۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس علی گڑھ
۷۔خطبۂ صدارت سندھ پراونشل اردو کانفرنس کراچی
۸۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس صوبہ متوسط ناگ پور
۹۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس ناگ پور
۱۰۔خطبۂ صدارت شعبۂ اردو آل انڈیا اورینٹل کانفرنس تروپتی (جنوبی ہند)
۱۱۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس لاہور
۱۲۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس گوالیار
۱۳۔خطبۂ صدارت کُل پنجاب اردو کانفرنس لائل پور
۱۴۔خطبۂ صدارت یومِ اردو انجمن حمایتِ اسلام لاہور
۱۵۔خطبۂ صدارت شعبہ اردو آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ
۱۶۔خطبۂ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس دیناج پور(بنگال)
۱۷۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس کالی کٹ (ملیبار)
۱۸۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس بمبئی
۱۹۔خطبۂ صدارت پنجاب یونی ورسٹی اردو کانفرنس لاہور
۲۰۔خطبۂ صدارت کُل گجرات اردو کانفرنس احمدآباد
۲۱۔خطبۂ صدارت سالانہ جلسہ بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن
۲۲۔خطبۂ صدارت مجلسِ ادب لاہور
۲۳۔خطبۂ صدارت خیرپور اردو کانفرنس
۲۴۔خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی
۲۵۔تقریر مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ
۲۶۔ہندستانی کیا ہے؟
۲۷۔مخلوط زبان
۲۸۔ہندی اردو کا جھگڑا
۲۹۔حامیانِ اردو
۳۰۔تقریر سندھ پراونشل اردو کانفرنس
۳۱۔تقریر اردو کانفرنس کراچی
۳۲۔آسان اردو
۳۳۔ملک کے نئے دور میں اردو کا مقام
۳۴۔حالی اور انسانیت
۳۵۔خطبۂ صدارت اردو کانفرنس بنگلور
۳۶۔خطبۂ صدارت مرکزعلم وادب، میرپورخاص
۳۸۔خطبۂ صدارت پاکستان رائٹرز کنونشن، کراچی
اشاریہ
بابائے اردو مولوی عبدالحق اُردو زبان کو دیگرزبانوں سے بہتر زبان سمجھتے
تھے اور اُن کی کوشش تھی کہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کو یقینی بنایا جائے
تاکہ عام عوام اردو کے ثمرات سے استفادہ کرسکیں۔ڈاکٹر عبادت بریلوی فرماتے
ہیں:
’’اردو زبان کو اپنے سفرِ ارتقا میں بڑی کٹھن اور دشوار گزار منزلوں سے
گزرنا پڑا ہے۔ یہ زبان بدلتے ہوئے حالات کے ہاتھوں پیدا ہوئی۔ ایک زمانے تک
اُسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔اس لیے اس کی طرف کسی نے بھی خاطر خواہ
توجہ نہیں کی۔ اُن دنوں فارسی زبان کا دور دور ہ تھا اور فارسی کے مقابلے
میں اس نئی زبان کو بھلاکوئی کس طرح خاطر میں لاتا۔ لیکن زبان ایک ایسا
جادو ہے جو سر پر چڑھ کربولتا ہے۔ اردو زبان کی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں کی
گئی لیکن چوں کہ وہ عوام کی زبان تھی اور تاریخی تقاضوں نے اس کو جنم دیا
تھا اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ وہ دلوں میں گھر کرنے لگی۔……‘‘(۵)
بابائے اردو کے یہ خطبات عام جلسوں میں پیش کیے گئے تھے۔ لیکن ان میں وسعت
نظر اور عالمانہ سوچ موجود تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ زندگی میں تخیّلاتی
تبدیلی، اور مسائل کے حل کے لیے گہرے شعوروادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔نیزیہ کہ
معروضی حالات اور تحقیقی وتنقیدی شعور کے ذریعے ہی انسانی رویوں اور زندگی
میں تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ خطبات بابائے اردو کی انھی کوششوں کا پیش
خیمہ ہیں جن کے ذریعے بابائے اردو نے عوام سے براہ راست مخاطب ہوکر اردو کی
ترقی وترویج کے لیے بیش بہا مسائل اور اُن کے حل کی بابت گزارشات کی ہیں۔ان
خطبات میں تہذیبی وثقافتی مسائل پر بھی تجزیے کیے گئے ہیں۔بلاشبہ بابائے
اردو دُھن کے پکّے اور عمل کے سچے تھے، وہ جس بات کی کوشش کرتے اُس کے حصول
کے لیے تن من دھن لگادیتے تھے۔ انھوں نے اردو کے لیے اپنا زندگی وقف کردی
تھی۔ جہاں جہاں اردو کے خلاف آواز اُٹھی بابائے اردو نے اُس آواز کے خلاف
اردو کے حق میں زبردست دلائل دے کر اُن آوازوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش
کردیا۔اُن کا ہر ہر لمحہ اردو اور صرف اردو کی ترقی وترویج کے لیے وقف
تھا۔ان خطبات میں بھی جابجا اردو کے دفع میں بابائے اردو سینہ سپر نظر آتے
ہیں۔مثلاً خطبۂ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس (دسمبر۱۹۳۳ء) بڑودہ کے موقع پر
انھوں نے فرمایا:
’’جب اردو نے اپنی جگہ بنائی اور بول چال سے نکل کر ادب میں قدم رکھا تو
ابتدا، جیسا کہ اکثر زبانوں کی ہوئی ہے، شعروسخن سے ہوئی اور اس وقت الفاظ
ہی نہیں بلکہ فارسی ترکیببیں، اندازِ بیان، تشبیہات واستعارات اور تلمیحات
یہاں تک کہ بعض صرفی ونحوی صورتیں بھی خود بخود اس میں منتقل ہوگئیں۔ اس
زمانے میں ہمارے اکثر شعرا فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے،
اس میں ہندو مسلمان دونوں شریک تھے۔ رفتہ رفتہ فارسی کا زور کم ہوتا گیا
اور اردو کو فروغ ہونا شروع ہوا۔ مگر اس کی ساخت ہیئت وہی رہی جو قائم
ہوچکی تھی جس طرح ہندوؤں نے فارسی میں امتیاز حاصل کیا تھا اسی طرح انھوں
نے اردو میں بھی نام پیدا کیا جس کی شہادتوں سے ہمارا علمِ ادب بھرا پڑا
ہے۔‘‘(۶)
درجِ بالا خطبے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بتایا ہے کہ جب اردو نے
اپنی جگہ بنالی تو اس میں شعروسخن اور ہر طرح کی صنفِ ادب شامل ہوگئیں۔اس
طرح فارسی زبان پراردو نے غلبہ کرلیا اور اپنی وسعت کی بنا پر وہ تمام
چیزیں جو فارسی میں رائج تھیں اردو میں داخل ہوگئیں۔ یہی اردو کی خوبصورتی
ہے کہ وہ دیگر زبانوں کو اپنے اندر سمولیتی ہے۔
خطبۂ صدارت شعبہ اردو ہندستانی اکیڈمی کا یہ خطبہ ۱۲ جنوری ۱۹۳۶ء کو شعبہ
اردو کے صدر کی حیثیت سے ہندستانی اکیڈمی الٰہ آباد میں پڑھا گیا۔جس میں
بابائے اردو نے اردو کی ترقی کے لیے چلنے والی چار تحریکوں کا ذکر کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں:
’’اردو زبان وادب کا جدید دور گزشتہ صدی کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں
چار بڑی باقاعدہ اور منظم تحریکیں عمل میں آئیں۔ (۱) فورٹ ولیم کالج، کلکتہ
(۲)دہلی کالج (۳)سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ (۴) اورینٹل کالج، لاہور۔……‘‘(۷)
اردو کا حال اور مستقبل کے عنوان سے ۱۲ ؍اپریل ۱۹۳۶ء میں یہ خطبۂ صدارت
انجمن حمایت اسلام لاہور کے اکیانوے سالانہ اجلاس میں بابائے اردو نے
بحیثیت صدرشعبہ اردو پڑھا۔ اس خطبے میں اردو کا حال اور مستقبل کے حوالے سے
اپنے خطاب میں بابائے اردو نے کہا:
’’اس وقت اردو زبان کی ترقی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک میں عام
طور سے زبان کی اشاعت کے ذرائع اختیار کیے جائیں، مثلاً اردو مدارس اور کتب
خانوں کا قیام، سرکاری اور غیرسرکاری مدارس میں اردو کی شرکت، موجودہ نصابِ
اردو کی اصلاح، اردو کی انجمنوں کا قائم کرنا اور ایسے اردو اخباروں اور
رسالوں کا اجرا جو سلیس زبان میں زمانۂ حال کے حالات اور واقعات کو اس طرح
سنجیدگی اور صفائی سے پیش کریں کہ ہر پڑھا لکھا شخص سمجھ سکے اور مستفید
ہوسکے۔……‘‘(۸)
۴؍مارچ ۱۹۴۰ء کوخطبۂ صدارت اردو کانفرنس ناگ پورمیں دیا۔بابائے اردو نے اس
خطبے میں دیہاتوں اور شہروں میں بولی جانے والی زبانوں کا موازنہ کیا ہے وہ
کہتے ہیں کہ:
’’ایک بار نہیں بارہا اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ جب دیہاتیوں کے کسی مجمع میں
اس زبان میں تقریر کی گئی جسے ہمارے اس زمانے کے بعض معزز لیڈر ہندی کہتے
ہیں تو کسی کے کچھ پلّے نہ پڑا اور مجمع نے باتیں کرنی یا حقّے کے دم لگانے
شروع کردیے۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے بڑھ کر کسی نے ہندوستان کے دیہات کا
دورہ نہیں کیا۔ وہ نہ کسی دیہات کی بولی جانتے تھے اور نہ جدید ہندی سے
واقف ہیں۔ انھوں نے اسی زبان میں تقریریں کیں (اور ایک نہیں ہزاروں تقریریں
کیں) جسے ہم اردو اور انگریز ہندستانی کہتے ہیں۔……‘‘(۹)
درجِ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو مخالفت کے باوجود بھی وہ اس
بات پر مجبور تھے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اردو کو ہی اپنی تقاریر میں
استعمال کرتے تھے۔ یہ اُن لوگوں کی مجبوری تھی کہ ایک ایسی رابطے کی زبان
اختیار کریں جس کے ذریعے اپنے خیالات کو وسیع پیمانے پر پہنچایا جاسکے۔
اردو زبان استعمال کرنے کے باوجود وہ اسے ہندی کا نام دیتے رہے اور اردو
استعمال کرتے رہے۔
اردو کی خدمت بابائے اردو کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ انھوں نے ہمیشہ
اردو کی خود بھی خدمت کی اور دیگر لوگوں کو بھی اردو کی خدمت اور ترقی کے
لیے راغب کیا۔۸؍دسمبر ۱۹۴۰ء کو خطبۂ صدارت اردو کانفرنس لاہور کے موقع پر
بابائے اردو نے کہا کہ:
’’آپ کو معلوم ہے کہ میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ اردو کی خدمت ہے۔
کوئی کچھ کہا کرے، میں اس کو ملک کی بہت بڑی خدمت سمجھتا ہوں اور اسے ہر
خدمت پر ترجیح دیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح آج میں آپ کا شریک کار
ہوں آپ بھی اس کام میں میرے شریک ہوں اور شریک غالب ہوں۔‘‘(۱۰)
اس خطبے میں بابائے اردو نے مدرسۂ عالیہ کلکتہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ اس
ادارے نے بنگال میں اردو کے لیے جو خدمات پیش کی ہیں اُس کا ذکر کرتے ہوئے
بابائے اردو نے ۷؍مارچ ۱۹۴۳ء کو ایک خطبۂ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس
دیناج پور (بنگال)میں دیا:
’’زبان کے معاملے میں مدرسۂ عالیہ کلکتہ نے بھی کام کیا۔ اگرچہ وہاں عربی،
فارسی اور دینیات کی تعلیم ہوتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے لیکن ذریعۂ تعلیم
ہمیشہ اردو رہا۔ وہاں جو طلباپڑھنے آتے تھے اُن کی وساطت سے اردو کا رواج
بنگال کے مختلف اضلاع میں ہوا۔(۱۱)
بابائے اردو نے ایک افتتاحی تقریر سندھ پراونشل اردو کانفرنس میں کی۔جس کا
انعقاد منعقدہ ۸؍اپریل ۱۹۴۴ء کو ہوا۔اس تقریر میں انھوں نے اردو کے دامن کی
بات کی ہے کہ اس میں اتنی وسعت موجود ہے جوتمام زبانوں کواپنے اندر ضم کرنے
کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے علم وادب کی شاخیں مزید پھیلتی چلی جاتی ہیں:
’’اردو زبان کا دامن بہت وسیع ہوگیا ہے اور اس نے اپنی گوناگوں صلاحیتوں کی
وجہ سے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ مذہب، تاریخِ ادب اور دیگر علوم وفنون پر
کتابوں کی جو بُہتات اردو میں ہے وہ ہماری کسی زبان میں نہیں۔ ……‘‘(۱۲)
مئی ۱۹۵۱ء میں بابائے اردو ڈاکٹرمولوی عبدالحق نے کُل پاکستان اردو کانفرنس
کے پہلے اجلاس میں کی۔اس خطبے میں بابائے اردو نے انجمن ترقی اردو کے قائم
ہونے اور اُس کے پہلے صدر اور سیکریٹری کا ذکر کیا ہے۔سرسید کی خدمات اور
اردو سے اُن کی محبت کے حوالے سے بھی ذکر موجود ہے:
’’……مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے اپنا سالانہ جلسہ بھی اسی سال دسمبر کے آخری
ایّام میں دلّی میں کیا جس کے صدرہزہائی نس آغاخان تھے۔ کانفرنس نے اپنی
ایک قرارداد میں چار ذیلی شعبے قائم کیے۔ ایک مدارس کا، دوسرا اصلاحِ تمدّن
کا، تیسرا تعلیم نسواں کا اور چوتھا اردو کا جو انجمن ترقی اردو کے نام سے
موسوم ہوا۔اس شعبے کے صدر پروفیسر آرنلڈاور سکریٹری مولانا شبلی قرار
پائے۔……اردو والوں کو سرسید احمدخان کا بہت بڑا سہارا تھا۔ وہ اردو کی
حمایت میں آخر دم تک مردانہ وار لڑتے رہے۔……(۱۳)
بابائے اردو نے مادری زبان اور قومی زبان کے درمیان فرق پیدا کرنے والوں کو
دلیل کی بنیاد پر جواب دیا اور کہا کہ قومی زبان ہی قوم کو مضبوط ویکجا
رکھتی ہے۔۴؍جون۱۹۴۷ء میں بابائے اردو نے بنگلور کی اردو کانفرنس میں خطبۂ
صدارت دیا:
’’میں نے کہیں کہیں یہ کہتے سنا ہے کہ ہم اردو کی خاطر اپنی مادری زبان
کیوں چھوڑیں؟ بیشک مادری زبان کا بڑا درجہ ہے۔ مادری زبان ہر ایک کو عزیز
ہوتی ہے اور ہونی چاہیے اور اس کی ترقی میں حائل ہونا سراسرناانصافی ہے
لیکن مادری زبان سے بھی بڑھ کر اور مقدم ایک اور زبان ہے۔ یہ قومی زبان ہے
جو قوم کے شیرازے کو مضبوط رکھتی ہے۔ اگر ہم مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں
بولتے رہے تو ہم میں قومی اتحاد مفقود ہوجائے گا اور ہم قوم کہلانے کے
مستحق نہ رہیں گے۔ قومی زبان ہی کی بدولت یک دِلی و یک جہتی قائم رہتی ہے
اور اسی کی بدولت قومی روح کی نشوونما اور بالیدگی ہوتی ہے۔ قومی زبان سے
غفلت کرنا قومی انتشار اور افتراق کو دعوت دینا ہے۔‘‘(۱۴)
۲۲؍فروری ۱۹۵۹ء میں مغربی پاکستان اردو کانفرنس کے موقع پر خطبۂ صدارت دیتے
ہوئے بابائے اردو نے کہا:
’’……اردو زبان کی صلاحیتیں بے پایاں ہیں۔ اس میں ترقی و تو سیع کی بے حد
گنجائش ہے اور بین الاقوامی بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ یونی ورسٹی ان تمام
امکانات اور صلاحیتوں کو روشنی میں لائے گی اور ہماری قومی زبان وتہذیب اور
ہمارے تصورات کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کرے گی۔ یہ مقام علم و تحقیق کا
مرکز ہوگا اس وقت ہم یہ کہنے کے قابل ہوسکیں گے کہ آج ہم نے حلقہ غلامی سے
نکل کر آزادی کی سرحد میں قدم رکھا ہے۔اردو زندہ باد۔پاکستان پابندہ
باد!‘‘(۱۵)
اس میں کوئی شک نہیں کہ بابائے اردو نے اپنے ان خطبات میں اردو کے فروغ کے
لیے ہر سطح پر آواز اُٹھائی ہے اور اپنے خطبات کے ذریعے اردو کی اہمیت
وافادیت کو جابجا نمایاں کیا ہے۔پاکستان میں اردو کے فروغ کے لیے جتنا بھی
کام ہوا ہے اس میں ان خطبات کا بھی بڑا دخل ہے۔
حواشی
(۱)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،
۱۹۳۹ء، فہرست خطبات۔
(۲)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،
طبع اول،۱۹۴۴ء، (حصّہ دوم)،فہرست۔
(۳)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۵۲ء۔فہرست
(۴)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۶۴ء۔فہرست
(۵)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۵۲ء۔پیش لفظ، ص: د۔ہ۔
(۶)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۵۲ء، ص:۷۔
(۷)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،
۱۹۳۹ء،ص۲۸۔
(۸)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،
۱۹۳۹ء،ص۴۴۔
(۹)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،
طبع اول،۱۹۴۴ء، (حصّہ دوم)،ص۴۔
(۱۰)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند)
دہلی، طبع اول،۱۹۴۴ء، (حصّہ دوم)،ص۵۱۔
(۱۱)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند)
دہلی، طبع اول،۱۹۴۴ء، (حصّہ دوم)،ص۱۳۱۔۱۳۲۔
(۱۲)خطباتِ عبدالحق، جناب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (ہند)
دہلی، طبع اول،۱۹۴۴ء، (حصّہ دوم)،ص۱۸۹۔۱۹۰۔
(۱۳)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۶۴ء۔ص۵۱۶۔۵۱۷۔
(۱۴)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۶۴ء۔ص۵۸۰۔۵۸۱۔
(۱۵)خطباتِ عبدالحق، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹرعبادت بریلوی،
انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۶۴ء۔ص۵۸۹۔ |