فلسفۂ قربانی اور نظریہ ٔپاکستان

مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں ایک دن ہندوؤں کا ایک وفد حاضر ہوا اور شکایت کی کہ تھانیسر کے حاکم شیخ سلطان گائے کی قربانی کرتے ہیں اور اس ضمن میں حکومتی احکامات کو خاطر میں نہیں لاتے ۔بادشاہ نے اس ’’ جرم‘‘ کی پاداش میں شیخ سلطان کو جلاوطنی کی سزا سنائی اوروہ مذہب کی خاطر اپنے عہدے اور ریاست کی بھی قربانی دیتے ہوئے جلا وطن ہوگئے ۔ بظاہر معاملہ اتنا ہی تھا لیکن حقیقت میں بات کچھ اور تھی اور وہ حد سے بڑھی ہوئی تھی ۔یہ عقدہ اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب بعد ازاں خانِ خاناں کی سفارش پر شیخ سلطان کی جلاوطنی موقوف ہوئی اوروہ واپس تھانیسر لوٹے تو اس کے کچھ ہی عرصہ بعد لاہور سے دہلی جاتے ہوئے اکبر بادشاہ نے بھی تھانیسر میں کچھ دن قیام کا ’’ قصد ‘‘ کرلیا ۔ شاید اسے گمان تھا کہ شیخ سلطان ممنون ہوکر اب اس کی دیرینہ خواہش پوری کر دیں گے ۔ لیکن شیخ سلطان بھی بادشاہ کے عزائم سے پوری طرح واقف تھے اور انہوں نے بھی شاید تہیہ کر لیا تھا کہ ریاست کے بعد اپنی جان بھی قربان کردیں گے لیکن اﷲ اور اس کے دین کے ساتھ غداری نہیں کریں گے ۔ چنانچہ حاکمِ تھانیسر کی حیثیت سے بادل ناخواستہ حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے کہا ’’ سلطان ہم نے تم سے ایک بار کہاتھا کہ تم ہمارے لیے ایک قرآن لکھ دو مگر تم نے اب تک اس حکم کی تعمیل نہیں کی ؟‘‘ ۔

شیخ سلطان نے جواب دیا ’’ تم جبریل کو آسمان سے بلاؤ۔ وہ تمہارے لیے قرآن اتاریں گے تو میں تمہارے حکم کی تعمیل کروں گا ‘‘

بادشاہ نے غصے سے کہا ’’ تونے بارہ سال سے سرکاری خزانے میں ایک پیسہ بھی جمع نہ کیا بارہ سال کا خراج کہاں گیا ؟‘‘

آپ نے بڑی دلیری سے جواب دیا ’’ تو مذہب سے پھر کر مرتد ہوگیا ہے ۔ ایسے مرتد کا مال عالموں ، فقیروں اور حاجت مندوں میں تقسیم کرنا جائز ہے ۔ اس لیے میں نے بارہ سال کے لگان اور مالیے کی رقم مسکینوں اور فقیروں میں تقسیم کردی ‘‘۔

اکبر کا پارہ چڑھ گیا ۔وہ کوئی حکم دینے والا تھا کہ شیخ سلطان نے ایک پتھر اٹھا کر اس کے چہرے پر دے مارا ۔ اسکی پیشانی لہولہان ہوگئی ۔ اس نے اسی وقت شیخ سلطان کو سولی چڑھانے کا حکم دیا ۔جس پر فوراً تعمیل ہوئی اور آپ کو شہید کردیا گیا ۔

یہ دو حکمرانوں کی داستان ہے ۔ ایک وہ جو پورے برصغیر پر بلا شرکت غیرے حاکم تھا اور اس کی حکومت اسلام کی تبلیغ و ترویج اور اشاعت کے لیے مکمل آزاد تھی ، اس کے پاس طاقت بھی تھی اور وسائل بھی ۔ اگر وہ چاہتا تو تھوڑے بہت وسائل بروئے کار لاکر برصغیر میں اسلام کی تبلیغ ، ترقی اور سربلندی کے لیے سعی کرتا تو شاید آج برصغیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔ وہی وقت تھا کہ جب برصغیر سے ایک بہت بڑا دجالی فتنہ(اکھنڈ بھارت Math) صفحۂ ہستی سے مٹایا جاسکتا تھا ۔ نتیجہ میں برصغیر میں اسلام کا اور مسلمانوں کا غلبہ ہوجاتا اور اس کا سارا کریڈٹ اکبر بادشاہ کو جاتا اور یوں تاریخ میں واقعی اس کا نام زندہ ہوجاتا ۔لیکن اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا ۔ اس نے مذہب پر ریاست اور سلطنت کو اہمیت دی اور پھر اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے اپنے مذہب کو قربان کردیا ۔ ’’متحدہ ہندوستان ‘‘میں ’’ مستحکم حکومت‘‘ کے لیے اس نے ہندو اور مسلمانوں کو ایک قوم بنانے کے لیے خود ساختہ دین ایجاد کیا جو سراپا ہندو مت کا عکس تھا ۔ اس نئے دین کے تحت اس نے مسجدیں گرا کر مندر تعمیر کیے ، گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی ، مسلمانوں پر دینی تعلیم کے دروازے بند کردئیے گئے ،اسلامی روایات کی جگہ ہندو رسوم و رواج کو فروغ دیا گیا ۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد میت کو جلایا یا پانی میں بہایا جانے لگا ، سورج پرستی، آگ پرستی اور بت پرستی عام ہونے لگی ۔الغرض اسلامی تہذیب و تمدن ، روایات اور تعلیمات کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے جعلی قرآن لکھنے کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ جس کی فرمائش شیخ سلطان سے کی گئی جو کہ حاکم تھانیسر کی حیثیت سے اکبر بادشاہ کے خاص آدمیوں میں شمار ہوتے تھے لیکن انکار پر پہلے ان کو جلا وطن کیا گیا اور پھر شہید کردیا گیا ۔

دوسری طرف شیخ سلطان تھے جنہوں نے طاغوت کی بجائے صرف اﷲ کی خوشنودی کے لیے پہلے گائے کی قربانی کی اور پھر اپنی ریاست اور حتیٰ کہ اپنی جان کی قربانی بھی دے کر ایمان کے اس قرآنی تقاضے کو پورا کردیا ۔
ترجمہ:’’کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا صرف اﷲ کے لیے ہے‘‘۔(سورہ الانعام: ۱۲۶)

چنانچہ شیخ سلطان نے اپنا حق ادا کردیا ۔ اب باقی کام اﷲ کا تھا اور دیکھیئے کہ اﷲ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے ۔ شیخ سلطان کی شہادت سے کچھ ہی عرصہ قبل ان کی صاحبزادی کا نکاح شیخ سرہندی ( مجدد الف ثانی) سے ہوا تھا ۔ شیخ سرہندی جو کہ پہلے سے ہی اکبر کی اسلام دشمنی اور ہندو نوازی سے خائف تھے اور دل ہی دل میں اکبر کی پھیلائی جانے والی بے دینی ، کفر والحاد ، شرک وبدعت اور ہندو مت کے فروغ کے خلاف شدید نفرت رکھتے تھے اب ان کی نفرت کی چنگاریاں بالآخر ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں بھڑک اُٹھیں ۔ وقت کے ساتھ اس تحریک نے ایک نظریہ کی صورت اختیار کرلی اور بالآخر اکبر جانشین جہانگیر کو مجدد الف ثانی ؒ کے سامنے ان سات شرائط پر گھٹنے ٹیکنے پڑے کہ سجدہ تعظیمی کو موقوف کیا جائے ، گائے کی قربانی کا حکم جاری کیا جائے، جن مساجد کو شہید کر کے مندر بنوائے گئے ہیں وہاں دوبارہ مساجد کی تعمیر شروع کی جائے ، دربار عام کے قریب مسجد تعمیر کی جائے ،دینی مدرسے قائم کیے جائیں ،شہروں میں مفتی اور قاضی مقرر کیے جائیں ، شریعت کے خلاف تمام قانون منسوخ کردئیے جائیں ۔ ان شرائط پر عمل درآمد اور مجدد الف ثانی کی احیائے دین کی تحریک کے نتیجے میں برصغیر میں مسلم اُمہ کا مٹتا ہوا قومی تشخص دوبارہ اُجاگر ہوا اور اسی نظریہ کی بنیاد پر اﷲ نے تھانیسر سے کئی گناہ بڑا ملک مسلمانوں کو عطا کر دیا ۔ جبکہ برصغیر کے طول وعرض پر پھیلی وہ بادشاہت جس کے لیے دین اسلام اور مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے تصور کو مٹایا جار ہا تھا ، کوخود مٹنے میں دیر نہیں لگی ۔

درجہ بالا دو کرداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج ہم بحیثیت قوم اپنے جائزہ لیں کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ آج ہم بھی اقامت دین کے لیے آزاد ہیں ۔ ہمارے پاس طاقت بھی ہے اور وسائل بھی لیکن اس کے باوجود ہم اسلام کی سربلندی اور غلبہ کی بجائے اسلام کو دبانے کے لیے کوشاں ہیں ،پہلے ہم نے سیاست سے مذہب کو الگ کیا اب ریاست سے ہی دیس نکالا دیا جارہا ہے ۔ ہمارے اربا ب واختیار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے طاغوتی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے لفظ’’ اسلامی‘‘ حذف کرنے کے درپے ہیں تاکہ ریاست سے مذہب کو الگ کردیا جائے ۔نام نہاد ’’ روشن خیالی‘‘ کے نام پرمذہب سے بیزار ی پھیلائی جارہی ہے ۔مدرسوں پر پابندیاں، اسلامی نصاب کی تحلیل ، اسلام کی دعوت و تبلیغ ممنوع لیکن علی العلان گانا بجانا جائز لہٰذا ہماری تہذیب پر اسلامی رنگ کی بجائے مغربی چھاپ گہری ہوتی چلی جارہی ہے ، ہماری رسوم ورواج پر ہندو کلچر کا غلبہ ہے ، غیر اﷲ سے حاجت روائی اور اﷲ سے سرکشی ، یہاں تک کہ نوجوان نسل کے خیالات و تصورات بھی ہندوانہ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ ہماری سیاست ، معیشت ، معاشرت ، تجارت سب غیر اسلامی ہیں ۔ ہم نے جمہوریت کے غلبہ کے لیے سیاسی جماعتوں میں بطور کارکن ساری زندگیاں کھپا دیں ، نعرے لگائے ، جیلیں کاٹیں لیکن اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی جماعت میں شمولیت کی توفیق نہ ہوئی ۔ ہم نے بطور حنفی ، بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث اپنے اپنے مسلک کے پرچار اور برتری ثابت کرنے کے لیے ساری توانائیاں صرف کردیں لیکن اسلام کے بطور دین غلبہ اور نظام کے قیام کے لیے سوچ تک پید ا نہ ہوئی ، باطل کے پجاری اور کفر کے ٹھیکیدار سرے عام کفر و شرک پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن مذہبی جماعتوں کی طرف سے ان منکرات کے خلاف آواز تک نہیں اُٹھائی جاتی ، ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس کی بنیادی ذمہ داری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت تھی آج غیر اسلامی کلچر اور تہذیب کے فروغ کے لیے سرگرم ہے ۔ غرض کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں سے پتہ چلے کہ ہم اسلام کے ساتھ مخلص ہیں ۔

ان حالات میں ہمارا انجام درجہ بالا دو کرداروں میں سے کس کے ساتھ ہونا ہے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ صرف سال میں ایک بار مہنگے سے مہنگے جانور خرید کر دکھاوے کی قربانی کردینا اﷲ کو مقصود نہیں ہے ۔قربانی کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ جس رب نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اپنا سب کچھ انسان اسی کے حوالے کردے ، پھر وہ جانے اور اس کے کام ۔ چنانچہ جوانسان یا جو قومیں اپنے آپ کو خالق حقیقی کے حوالے کردیتی ہیں پھر اس کے تمام تر معاملات کا ذمہ اﷲ کے سپرد ہوجاتا ہے اور اﷲ ایسے افراد اور قوموں کو کیا خوب رفعتوں کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے ۔ اس کی عظیم ترین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو اﷲ کے لیے خالص کرلیا ۔ پھر اﷲ نے انہیں خیر کثیر عطا کیااوراتنی برکتیں عطا فرمائیں کہ تما م اُمتوں میں ان کا ذکر بلند کیا اور بنی نوع انسان میں ان کو اعلیٰ و ارفع مقام دیا ۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ کی جماعت کہ جس کا تکیہ صرف اﷲ پر تھا ، اﷲ نے انہیں بحرو بر میں حکمرانی عطا کی ۔

آج دنیا بھر میں مسلمان ہر سال کروڑوں کے حساب سے قربانیاں کرتے ہیں ، مہنگے ترین جانور خرید کر قربان کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود روز افزوں پستیاں اور زوال مسلمانوں کا مقدر ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم قربانیاں تو کرتے ہیں لیکن قربانی کے اصل فلسفہ اور اس کی روح سے ناواقف ہیں ۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اﷲ کے لیے خالص کرلیں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی کو اﷲ کی توحید کے لیے خالص کرلیا ،جس طرح شیخ سلطان نے محض اﷲ کی رضا کے لیے قربانی کی ، پھر اسی کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن طاغوت کے ساتھ کمپرومائز نہیں کیا ۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے بھی ان کی عظیم قربانی کو رائیگاں نہیں کیا بلکہ اس کی بدولت برصغیر کی تاریخ کا رُخ موڑ ڈالا ۔ وہ جابر حکومت جو پورے خطۂ برصغیر پر قابض تھی اور اس نے اپنی پوری طاقت اور پورے وسائل اسلام کو مٹانے میں لگادیے تھے ، اس قربانی کی برکت سے صرف ایک اﷲ کے خالص بندے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور اس کے ذریعہ اﷲ نے اسلام کو دوبارہ زندہ کردیا ۔ یہ ہوتی ہے حقیقی قربانی کی طاقت ۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ سال میں ایک دفعہ لاکھ روپے کا جانور لے کر قربانی کردواور باقی سارا سال اﷲ سے سرکشی اختیار کرتے ہوئے طاغوت کے لیے اپنے آّپ کو وقف کیے رکھو ۔ تو ذرا سوچیئے ۔ اﷲ کیوں ایسی قربانیوں کی بدولت مسلمانوں کی مدد اور نصرت فرمائے گا ۔ چنانچہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی پستی اور زوال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اﷲ اور اس کے دین کے لیے خالص نہیں ہیں ۔ جب ہم قربانی کی اصل روح کو پالیں گے اور یہ عہد کرلیں گے کہ ہمارا سب کچھ اﷲ کا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو ہم یقینا اس کی نصرت کے حقدار ٹھہریں گے ۔
Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.