قربانی مذہب اسلام کا ایک خصوصی وصف و کمال اور قرب
خداوندی حاصل کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ اور سبب ہے ساتھ ہی سنت ابراہیمی
اور سرکارمدینہ ﷺ کی بھی پیاری سنت ہے ۔ اﷲ کے مقدس خلیل حضرت سیدنا
ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما ا لصلاۃ و ا لسلام کی ان کے رب عزو جل سے
ایسی عظیم محبت کی یاد دلاتی ’’عظیم یادگار اور سنت‘‘ ہے کہ اس یادگار کو
صبح قیامت تک باقی رکھنے کے لئے اﷲ رب ا لعزت نے اپنے حبیب محمد عربی ﷺ کے
ذریعے ان کی امت میں شرعی مالدار (ساڑھے باون تولا چاندی یا ساڑھے سات تولا
سو نا کی ملکیت رکھنے وا لے مالک نصاب ) عاقل ، بالغ اورمقیم پر ایام نحر (دس
ذی ا لحجہ کے صبح صادق سے عید ا لاضحیٰ کی نماز پڑھنے کے بعد سے بارہویں کی
عصر تک )میں واجب قرار دیا۔ اور یہ عمل اﷲ کی بارگاہ میں اتنا پسندیدہ اور
موجب اجر و ثواب ہے کہ’’ ابن آدم کا کوئی بھی عمل یوم ا لنحر (دس ذی ا لحجہ
)میں خدا کے نزدیک خون بہانے (جانور کی قربانی کرنے )سے زیادہ محبوب نہیں
اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت میں پہونچ
جاتا ہے اور جانور کے ہر بال کے بدلے میں ثواب ملتا ہے‘‘ ۔
قربانی کے دائرے کو وسیع کریں تو پتہ چلے گا کہ کسی نہ کسی شکل میں قربانی
کی شروعات اس وقت سے ہوچکی تھی جس وقت سے اس دنیا پر حضرت آدم علیہ السلام
کی تشریف آوری ہوئی کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں جب ہابیل
اور قابیل کے مابین(بیچ) ان کی بہن سے شادی کے سلسلے میں لڑائی وجود میں
آئی تو ان کے تصفیہ (حل ) کے لئے قربانی کی تجویز حضرت آدم علیہ السلام نے
پیش فرمائی چنانچہ ہابیل کی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ۔ اور اس
وقت سے لے کر اب تک کسی نہ کسی شکل میں قربانی پائی جاتی رہی ہے ۔خواہ وہ
وطن عزیز ہندوستان کے لئے جنگ آزادی 1857 ء میں قوم مسلم اور سنی اسلامی
اسکالروں کی جانی مالی قربانی ہو یا اپنے سماج اور معاشرے میں سماجی اور
فلاحی کام کاج کے فروغ کے لئے اپنے مال کی یا وقت کی قربانی ہو ۔
لیکن اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم ا لحرام کی دسویں تاریخ میں کربلا کے
میدان میں حق کی حفاظت کے کے لئے سید ا لشہدا امام حسین رضی ا ﷲ عنہ اور ان
کے اہل خانہ کی قربانی اور آخری مہینے ذی الحجہ کی دسویں تار یخ میں سیدنا
ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام کی قربانی کی ابتدا اور انتہا کے ذریعے
پیغام ملتا ہے کہ اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت ہے اور صرف عید ا لاضحی کے
موقع پرحلال جانوروں کی قربانی دے کر ہم قربانی جیسے اہم ذمہ داریوں سے
سبکدوش (بری )نہیں ہو سکتے بلکہ ہمیں اپنے رب عز و جل کی رضا اور خوشنودی
اور اس کے حبیب ﷺ پر نازل ہونے والے ’’دین حنیف‘‘ دین اسلام کی حمایت کے
لئے اپنی غلط اوربری حرکتوں کی بھی قربانی دینی پڑے گی مثلاً اظہار آزادی
کے نام پر جنم لینے والی مادہ پرستی، مغربی تہذیب و ثقافت ، اپنے گھر کی
عورتوں میں بے پردگی، جنسی بے راہ روی ،جھوٹ ، وعدہ خلافی ،باہمی حسد جلن،
مسلمانوں سے بغض و کینہ ، چغل خوری ، عیب جوئی ، دوسروں کی حق تلفی، دینی
اور دنیوی معاملات میں خیانت، کو فروغ دینے والی جیسی بیماریوں کی قربانی
ہمیں دینا چاہئے۔
اس لئے کہ اسلام جیسے مہذب اور پاکیزہ دین میں موجود ’’سنت ابراہیمی ‘‘
کامقصد صرف یہ نہیں کہ حصول گوشت کے لئے جانور کی قربانی کرلیں کیوں کہ
شرعی اعتبار سے ’’ چھوٹے جانور یا بڑے جانور مثلاً گائے، بیل، بھینس اور
اونٹ و غیرہ جس میں سات حصے لگائے جاتے ہیں ان حصے داروں میں اگر کسی کی
نیت قربانی سے محض(صرف) گوشت حاصل کرنامقصود ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی
‘‘کیوں کہ قربانی کا مقصد اعظم جہاں یہ ہے کہ بندہ قربانی جیسے مقدس عمل کو
نام و نمود کے بجائے محض اس ذات والا ستودہ صفات رب عز و جل کی رضا کے لئے
نہایت ہی خوش دلی سے انجام دے کر اس کا قرب حاصل کرے اور اس ذبیحہ گوشت کے
ذریعے دوست ،احباب اور غربا و مساکین کی ضیافت (میزبانی) کرے اور ان کو
اپنی خوشیوں میں شامل کرے ۔ ایک دوسرے مسلمان بھائی کے دکھ درد کی صورت میں
اس کے زخم کا مداوا کرنے کا جذبہ اپنے اندر بیدارکرے ۔وہیں قربانی کے
پاکیزہ عمل سے یہ درس حیات ملتا ہے کہ بندہ کوحق کی سربلندی ،صالح معاشرہ
کی تشکیل اور اپنے رب عز و جل کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی محبوب ترین
چیزوں اور اپنی خوہشات نفسانی کو قربان کرکے اپنے اندر فیاضی باہمی ہمدردی
اور ایک دوسرے کے تئیں ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قربانی کے
مقصد کی تکمیل بحسن و خوبی انجام پذیر ہوسکے
بر سر اقتدار بی جی پی اور اس کی حمایت یافتہ شدت پسند تنظیموں اور تحریکوں
کی جانب سے ملک میں نفرت اور بیزارگی کا ماحول برپا کرنے کے کے لئے قربانی
جیسے پاکیزہ عمل کے خلاف ماحول بنانے میں لگے ہیں اور وہ بعض سادہ
لوحمسلمانوں کو بھی اپنے اس پروپیگنڈہ کا شکار بنانے میں رات دن کوشاں ہیں
وہکہتے ہیں کہ’’ جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘ لہذا جانوروں کی قربانی نہیں کرنا
چاہئے ایسے لوگوں سے ہم نہایت ہی محبت سے عرض کریں گے بلا شبہ بے مقصد
جانوروں کا ذبح کرنا بے زبان کی جان لینا ہے جو اسلام میں بھی جائز نہیں ہے
لیکن جب جانوروں کا ذبیحہ خاص مقصد کے تحت وجود میں آئے تو’’ جیو ہتیا پاپ
‘‘ہے کے زمرے میں نہیں آئے گاورنہ تو آپ بتائیں کہ ’’ حلال قسم کے پالتو
جانوروں‘‘کے گوشت سے فائدہ حاصل نہ کئے جانے کی صورت میں انھیں پیدا کرنے
کی وجہ کیا ہے ؟ اور پھر ان جانور کی دیکھ ریکھ کا کیا فائدہ ہوگا ؟ اگر ان
جانوروں سے گوشت کی شکل میں منافع حاصل کرنا مقصود نہ ہو تو کیا آپ جیسے
لوگ ان جانوروں کی دیکھ ریکھ کا مقدس فریضہ انجام دیں گے ؟ اور ان کے گوشت
نہ کھانے کی صورت میں انسانوں کی خوراک کی ہورہی کمی کی بھرپائی کیسے کی
جائے گی ؟ اور آخرکثرت کے ساتھ گوشت خوری کر نے والے عید ا لاضحی کے موقعہ
قربانی پر ہی کیوں’’ جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں ؟حالانکہ خود
ہندو دھرم کی کتابوں میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے اور’’ رام چرت مانس‘‘
میں تو یہ صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’رام جی‘‘ ہر روز ایک ہرن کا شکار
کرتے تھے ۔ اور خود ہندو دھرم کے پجاری بڑی شد و مد کے ساتھ یہ بیان کرتے
ہیں کہ ’’جب ’’سیتا جی ‘‘ کو ’’ جادو گرراون ‘‘ اپنی لنکا میں اٹھا لے گیا
تھا تو اس وقت ’’رام جی اپنے بھائی لکشمن ‘‘ کے ساتھ شکار پر نکلے ہوئے تھے
‘‘اورآج بھی ہندو دھرم میں کئی فرقے ہیں جو کثرت کے ساتھ اپنے ’’خود ساختہ
(بنائے ہوئے) خدا‘‘ کے نام پر جانوروں کی بلی (قربانی) کے ساتھ انسانوں کی
قربانی بھی دے ڈالتے ہیں جیسا کہ زمانہ ماضی کی بات ہے اسلام کی آمد سے
پہلے سر زمین ہند میں ’’ہندو دھرم کے پجاری کسی عورت کے بیوہ ہونے کی صورت
میں اسے بھی اس کے شوہر کے ساتھ ’’جلتی چتا ‘‘پر جلادیتے تھے ( اس سے قطع
نظر کہ اسلام میں کسی انسان کا ’’قتل نا حق‘‘ پوری انسانیت کے قتل کے
مترادف(طرح)ہے ۔اور ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ بیمار ہونے پر نہ دوا
کرائیں اور نہ ہی زندہ رہنے کے لئے سانس لیں کیوں کہ دونوں ہی صورت میں جسم
میں موجود جراثیم مرجاتے ہیں اور جیو ہتیا پا پ کے وہ مرتکب کہلاتے ہیں ۔
اسی طرح ملت کے درد سے نڈھال بعض نام نہاد علما و دانشوران یہ کہتے ہوئے
نظر آتے کہ ’’مسلمان گاؤکے ذبیحہ سے پرہیز کریں اور ہندوؤں کے جذبات کا
احترام کریں ‘‘حالانکہ اس طرح کے بیان سے فرقہ وارا نہ اور با ہمی اتحا د و
یکجھتی کے تا رو پو د بکھیرنے میں زیا دہ یقین رکھنے والی جماعت آر ایس ا
یس اور اس کی ذیلی تنظیمں وشو ہندو پر یشد ، بجر نگ دل وغیرہ فرقہ پر ست
عناصر کو تقویت ملتی ہے جوملک کی دیگر ریاستوں کی طرح سرزمین بنگال میں بھی’’
گاؤ کشی ‘‘پر پابندی عائد کرانا چاہتے ہیں در حقیقت ’’گاؤ کشی‘‘ سے متعلق
نام نہاد ملت کے غم میں سوکھ کر کانٹا ہوجانے والوں کا’’ہندو مذہب کے جذبات
کا احترا م کرنے کا ‘‘مشورہ دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی دیگر ریاستوں
میں فرقہ پرست لیڈران کے حوصلے بلند ہوئے اور گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی
گئی۔ اورپھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’ ہندو دھرم ‘‘میں بھگوان کی تعداد کروروں
سے متجاوز ہیں اور ’’گاؤ ماتا‘‘ کی طرح آئے دن ا ن کے یہاں ’’بھگوان‘‘ معرض
وجود میں آتے ہیں تو کل اگر مسلمانوں سے ہندو مذہب کے پرستار کہیں کہ ہم
’’شیو جی‘‘ کی لنک پوجا کرتے ہیں اس لئے مسلمان اپنے بچوں کا ختنہ کرانا
بند کردیں یا مسلمانوں کے یہاں گاؤ کشی کی طرح خصی وغیرہ کی قربانی ضروری
نہیں اس لحاظ سے مسلمانوں کو چاہئے کہ ہندو مذہب کے احترام میں ان چیزوں کو
ترک کردیں تو کیا اس وقت بھی ان کے احترام میں مسلمانوں کو ایسے لوگ ان
چیزوں کے چھوڑنے کا مشورہ د یں گے؟؟ اور پھر اگر اسی طرح احترام کا سلسلہ
جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ’’جیو ہتیا پاپ ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے سرے
سے قربانی پر ہی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگے گا ۔ خصوصاً دارا
لعلوم دیوبند کوایسے فتوے سے گریز کرنا چاہئے جس سے امن و سلا متی کے د شمن
فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھیل نے کا موقع فراہم ہو اور قوم
مسلم با ہمی انتشا ر و افتر اق کے خطرا ت سے شدید دو چا رہو ۔
اخیر میں ہم اسلامک انفارمیشن اینڈ ریسرچ سینٹر آف انڈیا اورتنظیم ابنائے
اشرفیہ شاخ ہوڑہسمیت ملت کی بھلائی کے لئے سرگرم تمام تنظیموں اور تحریکوں
کی جانب سے آپ کی بارگاہ میں گذارش کریں گے عید ا لاضحی کے موقع پرقربانی
جیسی اہم عبادت نہایت ہی ادب و احترام سے منائیں اور غریب مسلمانوں کو بھی
اپنی خوشیوں میں ضرور شامل کریں تاکہ اﷲ کی رحمتیں ہم پرہمیشہ سایہ فگن رہے
۔اور اس بات کا خاص خیال رہے کہ ہندو دھرم کا’’ درگا پوجا‘‘ اور مسلمانوں
کا عظیم تہوار’’ عید ا لاضحی ‘‘قریب قریب ایک ساتھ ہورہے ہیں اس ضمن میں
کچھ فرقہ پرستوں کی کوشش ہوگی کہ سماج میں فتنہ پیدا کریں اوراس طرح
مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے تمام تر تدابیر اختیار کی جائیں ایسی
صورت میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ انسانیت دشمن ان فرقہ پرستوں کے منصوبے کو
ناکام بنانے کے لئے ایڈ منسٹریشن کی جانب سے دئے گئے وقت کے مطابق جانوروں
کی خرید و فروخت کریں ،جانوروں کو لانے لے جانے میں گاڑیوں کا استعمال کریں
اور کھلے عام قربانی کرنے کے بجائے پردہ لگاکر اپنا کام کریں ، اور کسی نا
گہانی صورت میں پولیس کنٹرول روم پر فون کر کے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت
پیش کریں اور اس طرح باہمی اتحاد و یکجہتی کی بہترین مثال پیش کرتے ہوئے
ملک میں امن و آشتی کی فضا برقرار رکھنے میں حکومت کی مدد کریں تاکہ فرقہ
پرستوں کے ناپاک مقاصد اور ناجائزحوصلے ناکام ہوجائیں ۔ رب تعالی کی بارگاہ
میں دعا ہے کہ بطفیل مدنی سرکار ﷺ ہمیں قربانی کا مقصد سمجھنے، اس پر عمل
کرنے کے ساتھ ہی ہم سب مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت
فرمائے (آمین) |