نظام تعلیم میں بہتری کی ضرورت

 ہمارے ملک میں رائج نظام تعلیم کے بارے میں بات کرتے وقت معلوم نہیں کیوں ہم اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ ایف اے اور ایف ایس سی کے امتحان پاس کئے ہوئے اور مسلسل بارہ برس اردو اور انگریزی کو لازمی مضامین کے طور پر پڑھنے والے طلبہ میں بیشتر طلبہ ان دونوں زبانوں میں چار جملے درست طور پر نہ تو لکھ سکتے اور نہ ہی بول پاتے ہیں۔ اگر کسی عمارت کے بنیاد کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے توجتنی بھی بلندی تک اس عمارت کی تعمیر کی جائے وہ عمارت ٹیڑھی ہی ہو گی۔ابتدائی تعلیم ہی اس کی اصل وجہ ہے جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیں ،ابتدائی تعلیم کا اصل مقصد حرف شناسی اور ارد گرد کی چیزوں کے ناموں اور خواص سے تعارف اور ان کا وہ شعور ہوجن اشیاء کے بارے میں بچوں کے بنیادی تصورات متعین اور واضح ہوتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے بنانے والوں کے ذہن خود ہی ان تصورات کے ضمن میں واضح نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے اور عالمی سطح پر بھی یہ تسلیم شدہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان سے بہتر تعلیم کسی اور زبان میں نہیں دی جا سکتی لیکن ہم اس حقیقت پر تیار ہی نہیں۔ دنیا بھرمیں کوئی ترقی یافتہ قوم ایسی نہیں جو اپنے بچوں کو سات سے آٹھ سال کی عمر سے پہلے کسی غیر زبان میں تعلیم دیتی ہواور وہ بھی صرف زبان کی حد تک کسی نے بھی ا س کو ذریعہ تعلیم بنایا ہو۔ہمارے ملک میں اگر دیکھا جائے تو جو بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے وہ ناکافی ہے ۔ اب آتے ہیں ان تلخ حقائق کی جانب کہ اساتذہ وہ بھرتی کئے گئے ہیں جن میں اکثریت سفارش،رشوت یا سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی گئی ہے ۔خاص طور پر استانیوں میں اکثریت ہی ایسی استانیوں کی ہے جنھیں خود پڑھنا نہیں آتا وہ بچیوں کو کیا پڑھائیں گی۔ سب سے پہلے تو ان اساتذہ اور استانیوں کو پڑھانے کی ضرورت ہے جن کو خود پڑھنا ہی نہیں آتا۔ انھیں مناسب تربیت فراہم کرنا ہوگی یاپھر ان کو فارغ کرکے ان کی جگہ ان اساتذہ اور استانیوں کو بھرتی کرنا ہو گا جو اس معیار پر پورا اتر سکیں۔کم از کم تیسری جماعت تک اپنے مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ہمارے ہاں تو یہ صورتحال ہے کہ سرکاری اسکولوں کے بچے غیر تسلی بخش نصاب تعلیم،کم تربیت یافتہ اساتذہ اور ناقص امتحانی نظام کی وجہ سے صرف اورصرف نقل کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرتے۔امتحان میں نقل کرنے اوروہ بھی پوری آزادی کے ساتھ جس نے بچوں کو پڑھنے سے دور کردیا یہ ایک ایسا ناسور ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔نقل روکنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ آنے والی نسلیں ڈگری لئے چھٹی کی درخواست بھی نہیں لکھ سکیں گی۔فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ مڈل اور میٹرک تک تعلیم لازمی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً20 فی صد بچے کسی اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتے جب کہ باقی80 فی صد میں نصف سے زیادہ پرائمری یا مڈل تک پہنچتے پہنچتے اس مدار سے باہر نکل جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد سرکاری اور اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ہوتی ہے۔مڈل سے آگے کی منزل تک رسائی پانے والوں میں سے بیشتر کا تعلق ایک یا دو نمبر کے انگلش میڈیم اسکولوں سے ہوتا ہے جن کی اکثریت میٹرک کے بجائے اے اور او لیول کے امتحانات پاس کرکے آگے بڑھتی ہیں۔ان بچوں کی کتابیں اور طریقہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور اس طرح ایک ہی ملک میں ایک ہی جماعت میں پڑھنے والے بچے ایک ایسی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے پورا معاشرہ ایک شدید الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے اوربچے اکیڈمیوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ انگلش میڈیم میں پڑھنے والے اپنے ملک کی تہذیب،تاریخ،زبان ،معاشرت اور جذبہ حب الوطنی سے دور کر دیئے جاتے ہیں ، اور ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جاتا ہے جو قافلے کے بجائے ایک بے قابو بھیڑ اور ہجوم کی شکل اختیار کر رہا ہے۔اگر ہمارے ملک میں ایک ہی نصاب تعلیم رائج کر دیاجائے خواہ وہ سرکاری اسکول ہوں یا پرائیویٹ اسکولز ہوں سب میں یکساں تعلیم دی جائے تو ہمارے خیال میں سب درست ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک کے اندر جتنے بھی پرائیویٹ اسکولز ہیں ان کا نصاب تعلیم ایک دوسرے سے مختلف ہے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ کاروباری لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اس سے بہتر کاروبار اس دور میں کوئی اور نہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں چار سے دس برس تک عمر کے بچے کم از کم چار نظام ہائے تعلیم میں بٹے ہوئے ہیں جن کی درجہ بندی کچھ یوں ہے ،سرکاری اسکولز،دینی مدارس،نیم پختہ اور نام نہاد گلی و محلہ ٹائپ انگلش میڈیم اسکول اوربھاری بھر کم فیسوں والے باقاعدہ انگلش میڈیم اسکول۔جب کہ یہ چوتھی اور آخری قسم کے اسکول گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل پھل پھول رہے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہیں اور ایسے نظام تعلیم کے باعث ہماری عوام کی اکثریت شدید بے چینی کا شکار ہے۔ ایجوکیشن بورڈ کے امتحانی نظام میں بھی شدید بے قائدگیاں پائی جاتی ہیں ۔ مذید دکھ کی بات یہ کہ ہزاروں روپے فیس وصولی کے باوجودطلباء و طالبات کو ری چیکنگ کے لیے مہینوں انتظار کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، اور پیپرز کی ری چیکنگ کے نام پر صرف سوالوں کے نمبروں کی کیلکولیشن کی جاتی ہے ، اگر کسی سوال کے نمبر نا جائز طور پر کم لگے ہوں تو ان کو قطعاً درست نہیں کیا جاتا۔

قصہ مختصر یہ کہ اگر ہمیں اپنے مستقبل کو روشن بنا نا ہے تو نظام تعلیم میں اصلاحات کرتے ہوئے یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا، اور پالیسیاں بناتے وقت غریب طبقہ کو مد نظر رکھنا ہوگا، مذید یہ کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم اسی زبان یا زبانوں میں دیجئے جن سے ان کے کان پہلے سے آشنا ہیں اور ان کو وہ کچھ پڑھائیے جس سے آگے چل کر وہ جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے قابل ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا قومی تشخص بھی قائم ہو تاکہ وہ اقوام عالم کی بھیڑ میں بے نام اور بے شکل نہ ہوں بلکہ اپنی ایک پہچان رکھتے ہوں جو ان کو دنیا کی دوسری قوموں سے متعارف کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ممتاز بھی کرتی ہو، خدارا اپنی قومی زبان اردو سے پیار کیجئے کہ سب سے زیادہ علمی ترقی کے مواقع مادری زبان میں ہی ہوتے ہیں۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817112 views Journalist and Columnist.. View More