صحافت کی اہمیت، افادیت اور مثبت و منفی پہلوؤں کاجائزہ
(Ataurrahman Noori, Hyderabad)
آج چند تنگ نظر صحافیوں نے اپنے
مطلب کے ’’سچ‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹنا کیوںشروع کردیا؟
ایک ہی واقعہ ایک اخبار کے یہاں سچ اور دوسرے کے یہاں جھوٹ کیوں ؟
صحافت کی اہمیت، افادیت اور مثبت و منفی پہلوؤں کاجائزہ
صحافت (Journalism) کسی بھی معاملے کے بارے میںتحقیق اور پھر اسے صوتی،
بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے
کے عمل کا نام ہے۔ صحافت سے وابستہ افراد کو صحافی کہتے ہیں۔ تکنیکی لحاظ
سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے
منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔حکومتی اداروں اور تجارتی منڈیوں کے
بارے میںمعلومات فراہم کرنے کے علاوہ صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی
اجاگر کرتی ہے جس میں فنون لطیفہ، کھیل اور تفریخ کے اجزاء شامل ہیں۔ شعبہ
صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت، تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ
بنیادی کام ہیں۔جدید دور میں، صحافت مکمل طور پر نیا رخ اختیار کر چکی ہے
اور عوامی رائے پر اثرانداز ہوئی ہے۔ عوام کا بڑے پیمانے پر اخباروں پر
معلومات کے حصول کے لیے اعتماد صحافت کی کامیابی کی دلیل ہے۔صحافت ایک
سماجی خدمت ہے اور اخبار ایک سماجی ادارہ ہے۔ سماج کو آئینہ دکھانے کا کام
صحافت کا ہے۔ سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعہ ہی سامنے آتی
ہیں۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنا، صحت مند ذہن اور نیک
رجحانات کو پروان چڑھانا، صالح معاشرے کی تشکیل کرنا، حریت اور آزادی کے
جذبے کو فروغ دینا، مختلف اقوام میں دوستی کے جذبے کو بڑھانا، جذبہ ہمدردی،
رواداری، الفت و محبت کو فروغ دینے کا کام صحافت کا ہے۔ عام طور پر صحافت
کو چوتھی مملکت(Fourth State of Realm) کہا جاتا ہے۔ کسی بھی جمہوری حکومت
میں تین ادارے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ بے حد ضروری ہوتے ہیں اور ان
تینوں کی بقاء اور سلامتی کے لئے صحافت کا وجود ناگزیر ہے۔
صحافت کا اہم مقصد دنیا کے واقعات اور حالات کی تازہ ترین صورتحال سے عوام
کو واقف کروانا اور ان واقعات کو پیشکش میں معروضیت، صداقت اور راست بازی
سے کام لینا ہے۔ واقعات میں اپنی رائے شامل کرنا یا خبر کو توڑ مروڑ کر پیش
کرنا، صحافت جیسے معزز پیشے کو داغدار بناناہے۔ بعض خبریں یا واقعات ان کے
پس منظر کا تقاضہ کرتی ہیں۔ اس لئے صحافی کو چاہئے کہ وہ خبروں اور واقعات
کا پس منظر بھی دے لیکن پوری ایمانداری کے ساتھ پس منظر تحریر کرتے ہوئے
اپنی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھے۔آج کا دور تو ابلاغیات کا دور ہے۔
صحافت کی بے پناہ قوت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صداقت
اور راست بازی صحافت کی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو معاشرے میں اس کی اہمیت
کے غماز ہیں۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ مظلوم، مجبور
اور مقہور عوام کے جذبات اور احساسات کی پیامبر ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ
جب کبھی سماج میں ظلم و ستم نے سر ابھارا تو صحافی کے نوک قلم نے ظالم کا
سر قلم کرکے رکھ دیا۔ اسی لئے جارج ہشتم نے صحافت کی بے پناہ قوت کا اندازہ
لگاتے ہوئے کہا تھا کہ’’اخبار ٹائمز (لندن) دریائے ٹائمز سے زیادہ خطرناک
ہے۔‘‘ایک اچھا، ذی اثر، حق گو اور بے باک اخبار خود بہ خود معاشرے میں اپنی
ڈھاک بٹھاتا ہے۔ اخباروں کی بدولت ہی حکومتیں بنتی بھی ہیں اور ٹوٹتی بھی
ہیں۔ اسی لئے نپولین نے اخبار کی بے پناہ قوت اور جادوئی اثر سے متاثر ہو
کر کہا تھا :’’میں سوفوجی دوستوں کے مقابلے میں ایک اخبار سے زیادہ ڈرتا
ہوں‘‘
صحافت کی اہمیت، افادیت اور ان کے مثبت و منفی پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے
کنور محمد دلشاد اپنی تصنیف ’’ابلاغ عامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:’’صحافت ایک جادو
ہے جس کے بول میں خیروشر کی بجلیاں روپوش ہیں۔ ایک معمولی سی خبر، ایک
افواہ یا ایک غلط بیانی کے وہ دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں جن پر قابو پانا
مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی شخص کو بام شہرت پر پہنچانا ہو یا قعر مذلت میں
ڈھکیلنا ہو، کسی جماعت یا تحریک کو قبولیت کی سند عطا کرنا ہو لوگوں کو اس
سے متنفر کرنا ہو حکومت کی کسی پالیسی کو کامیاب بنانا یا ناکام کرنا ہو یا
مختلف اقوام میں جذبات، نفرت یا دوستی پیدا کرنا ہو تو یہ صحافت کا ادنیٰ
کرشمہ ہے‘‘۔پریس کی آزادی کا بنیادی مقصد خبر رسانی اور حقیقت بیانی ہے۔
سچ کی دریافت اور تلاش اس کی ذمہ داری ہے۔ پریس خواہ کتنا ہی آزاد کیوں نہ
ہو اس پر کچھ نہ کچھ اخلاقی پابندیاں ضرور ہوتی ہیں۔ فحش، غیراخلاقی مواد
کی اشاعت اور فرد کی توہین عدالتی دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ چند تنگ نظر
صحافیوں نے اپنے مطلب کی ’’سچ‘‘ کا خوب ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیاہیں۔فحش
اشتہارات اور سودے بازی کی لت کیوں کر پڑ گئی ہے؟مذہبی، علاقائی اور نسلی
تعصب نے بھی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دینے کے لئے پریس اور اس کی
آزادی کا استحصال کیا۔آخرکار آزاد پسند نظریہ بھی عوام میں مشکوک ہونے
لگا۔ عوام میں تشکیک و انتشار کا ماحول پیدا ہونے لگا۔ وہ یہ سمجھنے سے
قاصر ہیںکہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ ایک ہی واقعہ ایک اخبار کے یہاں سچ
اور دوسرے کے یہاں جھوٹ کیوں قرار پاتا ہے ؟ بعض اخبارات اپنی مقبولیت اور
اہمیت کو فروغ دینے کے لیے فحش نگاری اور جذباتی تحریر و انداز بیان کا
سہارا لے رہے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اپنے ہی وضع کردہ خوشنما اصولوں کے
پرخچے اڑائے جا رہے ہیں۔ آج سنجیدہ قارئین یہ سوال کیوں کر رہے ہیں کہ اگر
عوام کے اخلاق و کردار کی تعمیر کی بجائے یہ تخریبی مشغلہ پروان چڑھتا رہا
اور نسل نو اخلاقی دیوالیے پن کا شکار ہوتی گئی، تو کیا اخبارات اپنے اس
سنگین جرم کو قبول کرنے کو تیار ہیں؟آج یہ فکر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے
کہ ہم اگر دنیا کو کچھ مثبت مواد دے سکتے ہیں تو پھر آگے بڑھنا چاہیے ورنہ
اس دنیا میں منفی فکر اور گھٹیا اخلاق و کردار کو عام کرنے والے بے شمار
ہیں۔ اس لیے اگر ہم بھلائی اور خیر کو انجام دینے سے قاصر ہیں تو کم از کم
فواحش کی تشہیر کے مجرم تو نہ بنیں۔ |
|