حرم مکی اور منیٰ سانحہ۰۰۰مسلمانوں کو اپنے محاسبہ کی ضرورت

 بہترین سیکیوریٹی انتظامات کے باوجود موت کا وقت ٹل نہیں سکتا

اﷲ رب العزت کی مرضی و منشاء کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت کسی کو گزند نہیں پہنچا سکتی۔ موت کا فرشتہ بھی کسی انسان کی روح بغیر حکمِ الٰہی نکالنے کا مجاز نہیں۔ کئی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ موت کے فرشے( حضرت عزرائیل علیہ السلام) کو کسی انسان کی روح ایسے مقام پر قبض کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جہاں وہ شخص موجود نہیں رہتا یا اسکی موجودگی اتنی جلدی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔اس صورتحال پر حضرت عزائیل علیہ السلام تدبذب کا شکار رہتے ہیں لیکن لمحہ بھر میں یعنی جس وقت اُس انسان کی روح قبض ہونے کا وقت آپہنچتا ہے اسی وقت وہ شخص کسی نہ کسی طرح اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اور ملک الموت مالک حقیقی کا حکم بجالاکر انسان کی روح قبض کرلیتے ہیں اب یہ اور بات ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق انسان کی موت کسی حیلے بہانے، حادثہ یا کوئی اور وجوہ کی بناء پر ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔۱۰؍ ذی الحجہ کو مزدلفہ سے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی منیٰ کی جانب ضیوف الرحمن (اﷲ کے مہمان)مناسک حج کی ادائیگی کے لئے تلبیہ پڑھتے ہوئے جوق در جوق جمرات گزرگاہ سے گزر رہے تھے کہ اسی اثناء چند حاجیوں کی جانب سے سیکیوریٹی کے لئے لگائی گئی حصار بندی کو توڑدیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں حاجی بھگڈر کی وجہ سے خالق حقیقی سے تلبیہ پڑھتے ہوئے جاملے۔ موت تو برحق ہے، اس کا وقت ٹل نہیں سکتا، لیکن اس کے باوجود انسان کسی حادثہ کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو قرار دیتا ہے یا مرنے والوں کی غلطی بتائی جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہیکہ ۱۰؍ ذی الحجہ بروز جمعرات ، جمرات کے راستہ پر ملک الموت اﷲ رب العزت کا حکم لے کر اﷲ کے ان مہمانوں کی روح قبض کرنے کے لئے آچکے تھے جو ایک بڑے سانحہ کی شکل میں رونما ہوا۔عالمِ اسلام کے مسلمان اس شدید المناک واقعہ کی خبر سن کر اﷲ رب العزت کے حضور رنج و غم کے باوجودصبر کا دامن تھامے ہوئے اسکے بتائے ہوئے کلمات’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَےْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘۰ پڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اس سال حج کے موقع پر دو بڑے سانحے ، مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کردیئے ہیں اگر اس کے باوجود مسلمان بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں تو اس کیلئے انہیں بُرے انجام کے منتظر بھی رہنا ہوگا۔ حج کے موقع پرمرنے والے تو شہیداء کا مقام حاصل کرچکے ہیں ، انکی زندگیاں تو کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہیں ، بیشک انکے عزیز و اقارب اور دنیا بھر کے مسلمانوں کوشدید رنج و غم پہنچا۔ ان دو بڑے واقعات کے بعد اﷲ رب العزت سے سجدوں میں اوردست بہ دعا ہوکر کروڑوں مسلمانوں نے اﷲ رب العزت ، رحمن و رحیم سے معافی مانگے اور ان ضیوف الرحمن جنہوں نے مناسک حج کی ادائیگی کے دوران اپنے خالق حقیقی سے جاملے جو ابھی ایک روز قبل ہی عرفات کے میدان میں اور اسی رات مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے اﷲ کے حضور گریہ وزاری کرتے رہیں ہونگے، اﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کوجنکی دنیوی اعتبار سے بھگڈر مچنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی ہے بلند مرتبہ پر فائز فرمایا ہوگا، جس کی ہم مسلمان اﷲ رب العزت سے قوی امید رکھتے ہیں۔ ۱۰؍ ذی الحجہ کی صبح رمی جمار کے لئے حجاج کرام کے قافلے منیٰ کے پانچ منزلہ راستوں سے لاکھوں کی تعداد میں گزررہے تھے اسی اثنا چند حجاج کرام ذرائع ابلاغ کے مطابق کم و بیش تین سو ایرانی حجاج کرام نے سعودی عربیہ کی سیکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے لگائی گئی حصار بندی کو توڑکر جانے کی کوشش کرنے لگے جس میں وہ کامیاب تو ہوگئے لیکن چند منٹوں میں جوبھگڈر مچی اسکی وجہ سے سینکڑوں افراد دب گئے اور شدید دھوپ و گرمی کی شدت کے درمیان انکی روحیں پرواز کرگئیں۔ سعودی حکومت کے مطابق 1100کے لگ بھگ حجاج کرام شہید ہوچکے ہیں اور کم و بیش اسی تعداد میں زخمی ہیں کئی حجاج کرام کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا جس کے لئے انکے افرادِ خاندان پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں۔

دنیا کے کونے کونے سے آنے والے اﷲ کے مہمانوں کے لئے مملکتِ سعودی عربیہ وسیع تر سیکیوریٹی کے انتظامات کرتی ہے اور لاکھوں کے ہجوم کو بغیر کسی تکلیف کے مناسک حج ادا کرنے کے لئے سہولہات فراہم کرتی ہے۔ ۸؍ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ سے منیٰ جانے والے حاجیوں کے لئے راستوں میں کھانے پینے کا وسیع ترانتظام، ضروریات سے فراغت حاصل کرنے کیلئے حمامات اور باوضورہنے کے لئے پانی کا بہترین نظم شاید ہی دنیا کے کسی اور عبادت کے لئے کوئی حکومت کرتی ہو۔ منیٰ سانحہ میں ہندوستان کے ۴۶حجاج داعی اجل کو لبیک کہا، اﷲ تعالیٰ منیٰ سانحہ میں شہید ہونے والے تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور انکے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔آمین۔سعودی فرمانروا و خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو واقعہ کی ہر زاویہ سے تحقیقات کرکے شاہ سلمان کو رپورٹ پیش کرے گی۔ منیٰ سانحہ میں مختلف ممالک بشمول ایران، نائجریا، ہندوستان، پاکستان، برطانیہ، مصر، مراقش، صومالیہ، جاڈ وغیرہ کے حجاج کرام شہید ہوئے ہیں۔منیٰ کا حادثہ گذشتہ پچیس سالوں میں حج کے دوران پیش آنے والا سب سے بڑا جان لیوا حادثہ ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حاجیوں کی حفاظت کے لئے سیکیوریٹی انتظامات کا جائزہ لیا اور یوم عرفہ کے موقع پر وہ خود فضائی معائنہ کئے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداﷲ نے اس سانحہ کے وقوع پذیر کو روکنا انسانی اختیار سے باہر قرار دیا ہے۔ انہوں نے شہزادہ محمد بن نائف وزیر داخلہ ، نائب وزیر اعظم اور حج کمیٹی کے سربراہ کو ان سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ جو کچھ ہوا آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ جو چیزیں انسانی کنٹرول میں نہیں ہیں آپ کو انکے لئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ قسمت اور تقدیر کو روکنا ناممکن ہے۔ مفتی اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایران کی جانب سے منیٰ سانحہ پر سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ایران کے روحانی پیشوا (سپریم لیڈر) آیت اﷲ خامنہ ای نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرے اور معافی مانگے۔ اسی طرح ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب میں حج کے دوران پیش آنے والے بھگڈر کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے منیٰ میں بھگڈر کے اس واقعہ کو دل دہلا دینے والا قرار دیا۔ ایران کے پراسیکیوٹر جنرل سید ابراہیم رائیسسی نے سرکاری ٹی وی پر دیئے گئے ایک بیان میں کہا کہ ایران کوشش کرے گا کہ سعودی شاہی خاندان کے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ایرانی وزیر خارجہ جو گذشتہ دنوں سعودی عرب کے دورہ کئے ہیں انہوں نے اس واقعہ کی تفصیلات حاصل کرنے کے بعد سعودی انتظامیہ کی جانب سے منیٰ سانحہ کے بعد کئے جانے اقدامات کی ستائش کی۔ جبکہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیرجو منیٰ سانحہ کے وقت اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک میں موجود تھے انہوں نے کہا کہ ایران منیٰ سانحہ پر سیاست کررہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ ’’میں امید کرتا ہوں کہ ایرانی قیادت ہلاک ہونے والوں کی خاطر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات کے نتائج آنے کا انتظار کرے گی‘‘۔ عادی الجبیر نے تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی ) کی رکن ریاستوں کے وزارت ِ خارجہ کے سالانہ رابطہ اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ مملکت منی بھگڈر کے بعد مستقبل میں اسی طرح کے واقعات کو ٹالنے کی غرض سے نہایت فیصلہ کن اور شفاف طریقہ سے اس معاملہ سے نمٹ رہی ہے۔ عادل الجبیر نے اس سانحہ کا سیاسی مقاصد کیلے استحصال کرنے کے لئے غیر شفاف بیانات کی مذمت کی اور کہا کہ ہم اس طرح کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ سمجھتے ہیں جن کا مقصد ہماری اسلامی دنیا میں تفریق و اختلاف پیدا کرنا ہے۔

منیٰ میں اس طرح کے جان لیوا سانحات اس سے قبل بھی پیش آچکے ہیں اور سعودی عرب انتظامیہ نے ان واقعات کے بعد مزید بہتر انتظامات کی کوشش کی ہے تاکہ مستقبل میں ضیوف الرحمن کی حفاظت ہوسکے ۔ 2006ء میں بھی بھگڈر کا واقعہ پیش آیا تھااور یہ عجیب اتفاق ہے کہ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز اسی ہجری سال شاہ فہد بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد اقتدار پر فائز ہوئے تھے۔ منیٰ میں پیش آئے اس سانحہ میں تقریباً ساڑھے تین سو حجاج کرام نے شہادت پائی تھی۔ اس کے بعد شاہ عبداﷲ مرحوم نے جمرات کے راستے کو سہولت بخش بنانے کیلئے پلوں کی تعمیر کے منصوبہ کو قطعیت دی اور آج پانچ منزلہ پلوں کے راستے سے حجاج کرام رمی جمار کے لئے پہنچتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے وسیع تر سیکیوریٹی انتظامات کے باوجود منیٰ کا سانحہ پیش آنا اﷲ رب العزت کی مرضی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ رمی جمار کے موقع پر سیکیوریٹی انتظامات کے تحت حجاج کرام کو مختلف راستوں سے وقت متعینہ کی پابندی کرتے ہوئے شیطان کوکنکریاں مارنے کاموقع فراہم کیا جاتا ہے ۔ بھگڈر جیسے واقعات کے وقوع پذیر نہ ہونے کے لئے سعودی شاہی حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اس کے باوجود پیش آنے والے ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کو اﷲ کی مرضی و منشاء ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کے آگے کچھ کہنے اور لکھنے سے ہماری زبانیں اور قلم کارکرد نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ حرم شریف میں اسی سال مناسک حج سے قبل یعنی ۱۱؍ ستمبر کو طوفانی ہواؤں اور بارش کے درمیان کرین گرنے کا واقعہ پیش آیا جس میں کم و بیش 111عازمین جاں بحق ہوئے اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس کے بعد ۱۰؍ ذدی الحجہ کو منیٰ میں واقع ہونے والا یہ بڑا سانحہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر ذمہ داروں کے علاوہ مسلمانوں کے لئے شدید تکلیف دہ اور رنج و غم میں ڈوبا ہواہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اسی سال ۲۳؍ جنوری کو شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد مملکتِ سعودی عربیہ کی باگ ڈور سنبھالی اور یہ ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا حج ہے۔ مکہ سانحہ کے بعد شاہ سلمان نے سیکیوریٹی انتظامات کو مزید بہتر بنانے کے احکامات جاری کئے تھے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہیکہ عرفہ کے روز خادم الحرمین الشریفین فضائی معائنہ بھی کیا۔ حج کے انتظامات کے سلسلہ میں سعودی حکومت بڑی مستعدی اور خشوع و خضوع کے ساتھ انتظامات کرتی ہے ۔ بادشاہ سے لے کر دیگر تمام منتظمین و عہدیدار اپنے فرائضِ منصبی کی انجام دہی میں کسی قسم کی تساہلی نہیں کرتے اس کے باوجود ایسے حادثات کا وقوع پذیر ہونا اﷲ کی مرضی کے سوا کچھ نہیں۔البتہ حجاج کرام کو انتظامیہ کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ ماضی میں جب جب مسلمانوں نے اپنے امیر یا انتظامیہ کی بات نہیں مانی حادثات یا ناکامی کا شکار ہوئے ۔منیٰ کے سانحہ کے سلسلہ میں تقریباً تین سوایرانی حجاج کرام پر الزام ہیکہ انہوں نے سیکیوریٹی حصار بندی کو توڑااور رمی جمار کیلئے جو وقت انہیں دیا گیا تھا اسکی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخالف سمت سے چلنے لگے اور یہی اس بڑے سانحہ کا سبب بنا اس سلسلہ میں ایرانی حجاج کرام یا جو کوئی گروپ اس سیکیوریٹی حصار بندی کو توڑے ہیں انکے خلاف تحقیق ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ویسے ہم مسلمانو ں کا ایقان ہے کہ جب موت کا وقت معین ہے تو کتنے بھی بہترین سیکیوریٹی انتظامات کئے جائیں سب کے سب بیکار ہوجاتے ہیں البتہ انسانوں کو زندگی کے ہر موڑ پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہے ، جو قاعدے و قوانین وضع کئے گئے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، مناسب حج کے دوران صبر و استقامت کا مظاہرہ بے حد ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمام حجاج کرام کے حج کو مقبول و مبرور کرے اورمرحوم حجاج کرام کو جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور انکے افراد خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
***
 
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.