پاکستان پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی
(PPRA) کے نام سے قومی اور صوبائی دونوں سطح پر ایک ادارہ قائم ہے جس کا
مقصد سرکاری اداروں میں ضرورت کے مطابق خریداری کے بارے میں قانون سازی
کرکے اداروں کو ان قوانین کے مطابق خریداری کا پابند بنانا ہے۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ سرکاری خریداری لازوال گھپلوں کی زد میں ہوتی ہے۔ جہاں ایماندار
لوگ ہیں وہاں خریداری کا ریٹ دوسروں کی نسبت بہت کم ہوتا ہے اور جہاں مک
مکا کی زندہ و تابندہ روایات ہیں وہاں ہرریٹ اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ وہاں
کمیشن مافیا ہر خریداری میں اپنا حصہ پوری ڈھٹائی سے وصول کرتا ہے۔ میں نے
دیکھا ہے کہ جہاں لوگوں کے مالی مفادات کمیشن کی صورت وابستہ ہوتے ہیں وہاں
لوگ بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ جس طرح ساون کے اندھے کو ہر چیز ہری
ہری نظر آتی ہے اسی طرح سرکاری افسران کووہ لوگ جن سے ان کا مک مکا ہو جاتا
ہے ہر لحاظ سے بہتر نظر آتے ہیں۔ باقی نظروں میں جچتے ہی نہیں۔
لاہور کے ترقیاتی ادارے میں سٹیشنری کی سپلائی کا چھوٹا سا کام تھا۔ میرے
کچھ دوست اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اشتہار کی اشاعت پر وہ محکمے میں گئے
انہوں نے کہا کہ ٹینڈر ایک ہفتہ پہلے جاری کیا جائے گا۔ ایک ہفتہ پہلے تین
دن کی نوید سنائی گئی۔ تین دن پہلے کہا گیا کہ صرف ایک دن پہلے ٹینڈر دیا
جائے گا۔ ایک دن پہلے جب وہ گئے تو انہیں پہلے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پھر ڈپٹی
ڈائریکٹر اور کچھ دوسرے افسروں کوملنے اور درخواست پر دستخط کروانے کو کہا
گیا۔ نوجوان ہر جگہ ہو آئے مگر سب واپس برانچ میں بھیج دیں۔ آخر میں برانچ
والوں نے انہیں کہا کہ کیا تم لوگ پاگل ہو جو سمجھ نہیں آ رہی۔ ہم نے ٹینڈر
کسی کونہیں دینا۔ ہمارے کچھ دوست پہلے بھی ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ہیں وہی
کام کریں گے۔ وہ نوجوان پریشان میرے پاس آئے کہ کچھ کروں میں کیا کر سکتا
تھا لیکن کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔
محسن عباس صاحب آج کل پپرہ (PPRA) کے عارضی سربراہ ہیں۔ اس حوالے سے ان سے
بات ہوئی۔ انتہائی نفیس، خوش اخلاق اور ہمدرد انسان ہیں۔کہنے لگے جن کو
شکایت ہے وہ اگر لکھ کردے دیں توہم لوگ فوری کارروائی کرسکتے ہیں۔ میں نہیں
چاہتا تھا کہ وہ نوجوان جنہوں نے ابھی کاروبار کی ابتدا کی تھی شکایت کر کے
سرکاری افسروں کا نشانہ بنیں۔ سرکاری افسر انہیں بری نگاہ سے دیکھیں۔ اس
لیے شکایت لکھ کر دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن محسن صاحب نے بتایا کہ حکومت
سنجیدگی سے اس سارے عمل کی اصلاح کرنا چاہتی ہے۔ شاید چند دن میں تمام
خریداری اور تمام ٹینڈر الیکٹرونک طریقے سے ہوں جس کی کاپی پپرہ کو بھی
وصول ہو گی۔پھر کسی شخص کو سرکاری اہل کاروں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت ہی
نہ پڑیگی۔ شکایت کی صورت میں پیپرا کے علاوہ نیب سمیت بہت سے ادارے بھرپور
کارروائی بھی کریں گے اور آپ اب بھی ہمت کریں ضرور نتیجہ نکلے گا۔ بہرحال
ہر پاکستانی جو اس ملک کی فلاح کا طالب ہے محسن صاحب کے لیے دعاگو ہے اﷲ
کرے کہ وہ لوگوں کو کمیشن مافیا سے نجات دلا سکیں۔
مجھے یقین ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ کرپشن کا ناسور بہت پھیل چکا مگر اب اس
کاعلاج شروع ہے۔ نوجوان نسل میں بے حد بے چینی ہے۔ کراچی اور ملک کے دیگر
حصوں میں کرپشن کے خلاف ہونے والی کارروائیوں سے نوجوان نسل کو بہت حوصلہ
ہوا ہے۔ اگر اس عمل میں کوتاہی برتی گئی تو مجھے یقین ہے کہ آئندہ آنے والی
نسل بڑے سنگین اقدامات کرے گی۔ وہ کرپٹ عناصر کو قبروں سے نکال کر بھی سزا
دے گی اور ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ مگر بہت سوں کا خیال ہے بلکہ غلط فہمی ہے
کہ سب کچھ وقتی ہے کچھ نہیں ہو گا۔ جن لوگوں کا داؤ چلتا ہے وہ ابھی تک
پرانی ڈگر پر قائم اور دائم ہیں۔
شام کو ہم کچھ دوست بیٹھے ترقیاتی ادارے کے اسی واقعے کے حوالے سے بات چیت
کررہے تھے تو ایک دوست کاخیال تھا کہ محب الوطنی کا تقاضا ہے کہ کسی کرپٹ
کو معاف نہ کیا جائے اور جن لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے ان کے خلاف پیپرا کے
علاوہ نیب اور انٹی کرپشن میں بھی درخواست دے دی جائے۔ اس پرایک دوست نے
کہا کہ کچھ نہیں ہوگا۔ لاہور کے ترقیاتی ادارے میں کام کرنے والے بہت تگڑے
ہیں۔ اس نے ایک واقعہ سنایا کہ نیب پنجاب نے شکایت پر ادارے کے ایک
ڈائریکٹر کو بلایا۔ ڈائریکٹر صاحب نے وہاں جانا اپنی ہتک سمجھا اور ایک
ماتحت کو بھیج دیا۔ نیب نے سخت قسم کا نوٹس بھیجا۔ مجبوراً ڈائریکٹر صاحب
گئے۔ نیب افسران سے کچھ تلخی بھی ہوئی۔ انہوں نے دوبارہ آنے کا کہا۔
ڈائریکٹر صاحب کے پنجاب کی ایک بڑی شخصیت سے ذاتی تعلقات تھے۔ انہیں بلانے
والا افسر اگلے دن ٹرانسفر ہو گیا۔ میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔
ایسی کہانیاں لوگ ویسے ہی تراش لیتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو واقعی
افسوس ناک نہیں انتہائی افسوس ناک ہے۔ سرکاری اداروں کے حکام کو کسی بھی
دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اس ملک اور اس قوم سے وفاداری نبھانی ہے۔ ہمارے
ادارے اگر اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑے ہو جائیں تو ہمارے مشکل سے مشکل
مسائل بھی لمحوں میں حل ہو جائیں۔
سرکاری سپلائی میں سب سے بڑا مسئلہ سپلائی کی جانے والی اشیاء گھٹیا اور
جعلی بھی ہوتی ہیں اصلی پیکنگ میں جعلی چیزیں ڈال کر انتہائی کم قیمت پر دے
دی جاتی ہیں۔ سرکاری اہل کاروں کو پتہ ہوتا ہے مگر سب چلتا ہے۔ ضرورت ہے کہ
حکومت جعلی اور گھٹیا سپلائی دینے والوں اور لینے والوں دونوں کے خلاف
بھرپور کارروائی کرے۔ خصوصاً ہسپتالوں میں سپلائی ہونے والی دواؤں کے بارے
تو عوام کو بے پناہ شکایات ہیں۔ مگر یہ ایک معاملہ نہیں۔جہاں بھی اصل قیمت
سے بہت کم پرسپلائی ہو وہاں چیک کرنا کہ کوئی جوڑ توڑ تو نہیں بہت ضروری
ہے۔ پیپرا (PPRA) کو چیزوں کی کوالٹی کے بارے چیکنگ کااختیار بھی ہونا
چاہیے۔ ارنسٹ منی اور سیکیورٹی کے نام پر جو ادارے پندرہ سے بیس فیصد مانگ
لیتے ہیں وہ کوئی جیب سے ادا نہیں کرتا۔ چیزوں کی قیمت میں شامل کر کے دو
دفعہ وصول کرتا ہے اس بارے بھی پیپرا کو قواعد و ضوابط طے کر دینے
چاہیئں۔تا کہ سرکاری مال کو لوٹنے والوں لگام دی جا سکے۔ |