11 اکتوبر بیٹیوں کا عالمی دن

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

UNOاور دیگر ممالک نے مل کر11 اکتوبر2012ء کو سب سے پہلے بیٹیوں کا عالمی دن منانے کا عزم کیا اس کے بعد پوری دنیا کے لوگ 11اکتوبر کو بیٹیوں کے عالمی دن کے طور پر منانے لگے اس دن کے منانے کا مقصد عورت یعنی بیٹی کے حقوق کو اجاگر کرنا اور سال بھر میں بیٹیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز کو اٹھا نا ہوتا ہے۔اہل کفر اور دنیا کے عالمی منشور وضع کرنے والے آج یہ آواز اٹھاتے ہیں جبکہ بیٹی کی شان وعظمت آج سے چودہ سو سال پہلے جناب محمد ؐنے بیان کر دی تھی اور اس بیٹی کی شان وشوکت کو سال میں صرف ایک بار ہی بیان کرنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ہردن ہر رات سال بھر بیٹی کو رب کی رحمت سمجھ کر اس کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔

ہندؤوں کے نزدیک‘جھوٹ بولنا، بغیر سوچے کام کرنا، فریب، حماقت، طمع، ناپاکی، بے رحمی یہ عورت کے کرداری عیوب ہیں۔ عورتوں کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی، عورتوں کے دل حقیقت میں بھڑوں کے بھٹ ہیں۔ رگ وید منڈل: (۱۰) سوکت:(۹۵) منتر:(۱۵)بیٹی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں ہے۔ اتھروید کانڈ: (۱) سوکت: (۱۷) منتر: (۱) یجروید: (۵؍۸)جین مت میں عورتوں کا مقام ان کی شاستروں سے معلوم ہوتا ہے مہابیر سوامی عورت کو تمام برائیوں کی جڑ گردانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے گناہوں کا سبب عورت ہی ہے۔ عورت سب سے بڑی آزمائش ہے جو انسان کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ مرد کو چاہیے کہ عورت سے کسی قسم کا سرو کار نہ رکھے، اس کی طرف دیکھے، نہ بات کرے اور نہ ہی اس کا کوئی کام کرے۔ ڈاکٹر مسز سٹیوسن کے بقول جب تک وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے دوسرے جنم میں مرد بن کر نہ آئے۔ ایم ایس ناز، اسلام میں عورت کی قیادت: (ص؍۴۴)’’بدھ مت‘‘ کے تاریخی مطالعہ سے عورت کو کوئی مقام حاصل ہونے کا ثبوت نہیں ملتا، اس کے برعکس عورت سے نفرت اور اس کی تذلیل و تحقیر کے ثبوت ملتے ہیں۔انسائیکلو پیڈیا آف ریلی جن اینڈ ایتھکس میں ایک بدھ مفکر چھلاواگا کا قول لکھا ہوا ہے ’’پانی کے اندر مچھلی کی ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے اس کے پاس چوروں کی طرح متعدد حربے ہیں اور سچ کا اس کے پاس گزر نہیں۔ انسائیکلو پیڈیا آف ریلی جن اینڈ ایتھکس : (جلد نمبر:۵)یہودیوں کا خیال تھا کہ حوا[ شیطان کا آلہ کار اور ازل کی گنہ گار تھیں جن کی وجہ سے آدمؑ کو جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا۔ ٹرٹیلین نے ایک موقع پر عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم سب حواء کی بیٹیاں ہو اس لیے خدا کا حکم تم پر آج بھی قائم ہے اور تمہارا جرم آج بھی باقی رہے گا تم ہی شیطان کا دروازہ اور شجر ممنوعہ کو استعمال کروانے والی، خدا کی پہلی مخالفت کروانے والی تم ہی ہوجنہوں نے خدائی مرقع کو اس آسانی کے ساتھ لپیٹ دیا۔ شمس تبریز خان، مسلم پرنسل لاء اور اسلام کا عائلی نظام: (ص؍۱۹۰)عیسائیت نے بھی عورت کو گناہ گار اور بدی کی جڑ قرار دیا کیوں کہ بائبل میں مرقوم ہے کہ حوا کو شیطان نے بھڑکایا اور اس نے آدم کو۔ [پیدائش باب سوم]اگر ہم پادریوں کے ارشادات عورتوں کے متعلق اکٹھے کرتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل ارشادات ملتے ہیں:
٭ سینٹ برنارڈ کا قول ہے: عورت شیطان کا ہتھیار ہے۔
٭ سینٹ گرلگوری کا قول ہے: عورت سانپ کا زہر رکھتی ہے اور اژدھے کا کینہ۔
٭ سینٹ خیر دم کا قول ہے: عورت شیطان کا دراوزہ، ظلم کی شرکت اور بچھو کا ڈنگ ہے۔

تاریخ‘ مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت ہمیشہ مظلوم رہی ہے اس پر تاریخ میں تاریک ترین اور بہیمانہ ادوار بھی آئے ہیں لیکن دین اسلام کا عورت پر بہت زیادہ احسان ہے کہ جس میں مبالغہ آمیزی بالکل نہیں ہے۔یورپ کا مشہور مفکر و مؤرخ آرتھر گلیمن لکھتا ہے:’’میں کافی تحقیقات کے بعد لکھتا ہوں کہ حضرت مسیحؑ سے چھ سو سال بعد تک عورت کو نہایت حقیر و ذلیل تصور کیا گیا تھا۔ اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ نہ کچھ حقوق تھے اسلام نے عورتوں کے حقوق بیان کیے اور انہیں عزت و عظمت کے عرش تک پہنچا دیا اور عورت کے حقوق کا احترام کیا۔ دنیا کے کسی مذہب نے اتنا نہیں کیا بلاشبہ محمدؐنے عورت کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچایا۔ ان سے پہلے دنیا کی عورت ذلت کی حد سے گزر چکی تھی۔ عرب میں لڑکیاں زندہ دفن کر دی جاتیں۔ یونان میں بعض لوگ اپنی بیویاں قرضے میں دے دیتے تھے۔ انگلستان میں عورت پر فرض تھا کہ وہ اپنے شوہر اور سر پرست پادری کی غلامی کرے۔‘‘ ترجمہ ہسٹری آف دی اسلام: (ص؍۱۴۱)

دور جاہلیت میں لڑکی کاوجود عار تصور کیا جاتا تھااور اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھاجیساکہ فرمان الٰہی ہے: ’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اسکا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے،جو بری خبر اسے دی گئی ہے اسکی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے ۔سوچتا ہے کہ کیا اسکو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے،یا اسے زندہ درگور کردے،آہ!کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔‘‘ [النحل:۵۸،۵۹]اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی حالت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی کو جب اسکے گھر میں بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اسکا چہرہ کالاسیاہ ہو جاتا اور مارے شرم کے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا،اور غم میں نڈھال ہوکر سوچتا رہتا کہ اب اس لڑکی کے وجود کو ذلت ورسوائی کیساتھ برداشت کرلے یا زندہ درگور کردے۔ امام بغویؒ کہتے ہیں:
’’عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کیلئے دور دراز بھیج دیتا،اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب چھ سال کی ہو جاتی تو کسی جنگل میں ایک گڑھا کھودتا ،پھر گھر آکر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال (یااسکے دادا، دادی)سے ملا لائے۔پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا:اس گڑھے کے اندر دیکھو،چنانچہ وہ اسے دیکھنے کیلئے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا وہ اس میں گر جاتی اور یہ اسکے اوپر مٹی ڈال دیتا۔‘‘ [معالم التنزیل:(۵؍۲۵]
یہ تو تھا زمانہ جاہلیت میں ایک بیٹی کا مقام کہ اسکا وجود ہی عار تصور کیا جاتا اور اسے زندہ درگور کردیا جاتا۔جبکہ اسلام نے گھر میں بیٹی کی پیدائش کو باعث برکت قرار دیا اور اسے زندہ درگور کرنا حرام کردیا۔رسول اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے:’’اﷲ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنا اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا حرام کردیا ہے۔‘‘ البخاری (۲۴۰۸) زمانہ جاہلیت میں لوگ صرف مردوں کو وراثت کا حقدار سمجھتے تھے اور عورتوں اور بچوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا،اور کہا جاتا تھا کہ رواثت کا حقدار صرف وہی ہے جو تلوار چلا سکتاہے ۔اس پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’والدین اور قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑ جا ئیں اس میں مردوں کا حصہ ہوتا ہے اوروالدین اور قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑ جا ئیں اس میں عورتوں کابھی حصہ ہوتا ہے،چاہے مال تھوڑا ہویا زیادہ‘‘ [النساء:۷]
یعنی اسلام نے عورت کو بھی وارثت کا حقدار قرار دیا اور اسے اس سے محروم نہیں کیا ،اور ترکہ میں عورت کو کتنا حصہ دیا گیا ہے اسکی تفصیل سورۃ النساء کے دوسرے رکوع میں موجود ہے۔اولاد میں بیٹا یابیٹی اﷲ تعالیٰ ہی کی عطا میں سے ہے ،اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:’’ (تمام) بادشاہت اﷲ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اورزمین کی بھی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے ا ور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔‘‘ [الشوری: ۴۹۔۵۰]جبکہ عرب جہلاء بیٹی کو اپنے لیے منحوس خیال کرتے تھے اور بہت پریشان ہوتے اگر ان کے گھر بیٹی پیدا ہوجاتی بلکہ وہ اسے زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ۔ ارشاد ہوتا ہے:’’ حالانکہ جب ان میں سے کسی کواس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو انہوں نے اﷲ کے لئے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ ‘‘ [الزخرف: ۱۷] رسول اﷲؐ نے فرمایا:’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک پرورش کی وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اسطرح ہونگے(آپؐؐ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسری کے ساتھ ملایا)۔‘‘ [صحیح، مسلم(۲۶۳۱)]

رسول اﷲؐنے فرمایا:’’ جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کی تکالیف پر صبر کرے، انھیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے تو وہ اس کے لیے روز قیامت پردہ ہوں گی (یعنی جہنم سے بچاؤ کے لیے)۔‘‘ [ ابن ماجہ (۳۷۱۳) ] رسول اﷲؐنے فرمایا:’’کوئی آدمی ایسا نہیں کہ اس کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ دونوں جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے ان کے ساتھ احسان (نیک سلوک) کرتا رہے مگر وہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروا دیں گیں‘‘ [ابن ماجہ (۳۷۱۴) حسن، رسول اﷲؐنے فرمایا:’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی شدت، سختی اور خوشی پر صبر کرے تو اﷲ تعالیٰ ان بیٹیوں پر اس کی شفقت کے سبب سے اسے جنت میں داخل فرما دیں گے۔‘‘ایک آدمی نے کہا: اے اﷲ کے رسول! اگر تین کی بجائے دو ہوں تو؟آپؐنے فرمایا: اگر دو بھی ہوں تب بھی۔ پھر ایک آدمی نے کہا:’’اے اﷲ کے رسول! اگر ایک بھی ہوتو تب بھی؟‘‘توآپ ؐنے فرمایا: ہاں اگر ایک بھی ہو تب بھی (اس کے ساتھ نیکی کی وجہ سے اﷲ اس کو جنت میں داخل فرما دے گا۔) [ مسندأحمد (۱۴۲۵)]

فطرت انسانی ہے کہ بیٹوں سے زیادہ بیٹیاں والدین کا احترام کرتی ہیں جبکہ والدین خصوصا والد اپنی اولاد میں بیٹوں کو ہر بات اور ہر کام میں ترجیح دیتا ہے خواہ وہ معاملات ہوں ، عطیات ہوں یا وراثت کے معاملات ہوں جبکہ رسول اﷲؐکا فرمان اس کے برعکس ہے۔ رسول اﷲؐنے فرمایا:’’بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو پیار کرنے والیاں اور قیمتی ہیں۔‘‘[مجمع الزوائد (۱۵۶/۸) حسن]

نیک اولاد آدمی کے لیے صدقہ جاریہ بنتی ہے خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی ، عموماً معاشرے میں بیٹیوں کے مسائل بیٹوں سے زیادہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان کی تعلیم وتربیت اور پرورش کے بدلے اجر بھی زیادہ رکھا ہے ۔ رسول اﷲؐنے فرمایا ہے:’’ جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اس کے لیے آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘ [البخاری، الأدب (۵۹۹۵)]اولاد بیٹے ہوں یا بیٹیاں ، اسلام نے ان کے درمیان ہر چیز میں برابری کا حکم دیا ہے جیساکہ نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے تحفہ دیا تو عمرہ بنت روحہؓ(ان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اﷲؐ کو اس پر گواہ نہ بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی ۔ چنانچہ انھوں نے رسول اﷲؐکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں نے اپنے بیٹے کو عطیہ دیا ہے تو اﷲ کے رسول! میری بیوی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپؐ کو گواہ بناؤں آپؐنے دریافت کیا:’’کیا تم نے باقی ماندہ اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے۔‘‘انھوں نے کہا: نہیں توآپ ؐنے فرمایا:’’پس تم اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کرو۔‘‘انھوں نے بیان کیا کہ وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔ [البخاری (۲۵۸۷)]
مزیدرسول اﷲؐنے فرمایا: ’’عطیہ (تحفہ) دینے میں اولاد کے درمیان برابری کرو اگر میں کسی کو ترجیح دیتا تو (عطیہ دینے میں) عورتوں کو ترجیح دیتا۔‘‘ [سنن الکبری للبیہقی (۲۹۴/۶) حسن] سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریمؐکے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اس کو پکڑ کر اس کو بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اس کو پکڑ کراپنے پہلو میں بٹھا دیا آپؐنے فرمایا: ’’تم نے دونوں کے درمیان عدل نہیں کیا۔‘‘ [الکامل فی ضعفاء الرجال (۱۵۵۳/۴) حسن] آپ ؐ کی سب سے پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرہ بنت محمدؐ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن اطہر سے پیدا ہوئیں۔آپ ؐ سب سے زیادہ پیار اپنی اسی بیٹی سے کرتے تھے۔رسول اﷲؐنے فرمایا:’’فاطمہ میراجگرگوشہ ہے،جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ [بخاری(۳۷۱۴)]

عائشہ بنت طلحہؓ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓسے روایت کرتی ہیں:’’میں نے فاطمہؓسے بڑھ کر کلام اور گفتگو میں رسول اﷲؐکے مشابہہ کسی کو نہیں دیکھا،جب فاطمہؓرسول اﷲؐکے پاس جاتی تو آپ اس کی جانب کھڑے ہوتے،اسے بوسہ دیتے اور خوش آمدید کہتے اور فاطمہؓبھی ایسے ہی اپنے اباجان کا استقبال کیا کرتی تھی۔‘‘ابوداؤد(۵۲۱۷)

ٓحضرت اسامہ بن زیدؓکہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی کسی ضرورت سے نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ؐ (اپنے گھر کے اندر سے )اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے ساتھ لپٹیے ہوئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی پھر جب میں اپنی ضرورت عرض کر چکا تو پوچھا :یہ کیا چیز آپ ؐنے لپیٹ رکھی ہے آپؐنے اس چیز کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حسن و حسین ہیں ؓجو آپ ؐکی دونوں پہلوؤں میں تھے (یعنی آپ ؐ نے ان دونوں کو گود میں لے کر چادر سے لپیٹ رکھا تھا )اور پھر آپؐ نے فرمایا دونوں میرے بیٹے ہیں اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اﷲ!میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں ، تو بھی ان کو محبوب بنا لے اور ہر اس شخص کو محبوب بنالے جو ان دونوں سے محبت کرے۔ ترمذی (۳۷۶۹)حسن حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ: جب مکہ کے لوگوں نے اپنے قیدی چھڑوانے کے لیے مال بھیجنا شروع کیا تو اﷲ کے رسولؐکی بیٹی حضرت زینبؓ نے اپنے خاوند ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بھی مال بھیجا۔ اس مال میں ان کا ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہار وہ تھا کہ جب حضرت خدیجہؓنے بیٹی کو ابو العاص کی دلہن بنا کر رخصت کیا تھا تو یہ ہار اس کے گلے میں ڈالا تھا۔ اﷲ کے رسولؐ نے جب یہ ہار دیکھا تو آپ موم ہو گئے۔ آنسو چھلک پڑے اور آپؐ صحابہؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’تمہارا کیاخیال ہے کہ اگر تم زینب کا قیدی رہا کر دو اور زینب کا ہار اسے واپس لوٹا دو۔‘‘صحابہؓ نے کہا: ’’ٹھیک ہے، اے اﷲ کے رسولؐ!‘‘ اور پھر صحابہؐ نے ہار واپس لوٹا دیا۔ ابو داؤد میں یہ بھی ہے کہ اﷲ کے رسولؐ نے ابو العاص کو رہا کرتے ہوئے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ جاتے ہی زینبظکو روانہ کر دے گا۔ چنانچہ اﷲ کے رسولؐ نے زید بن حارثہؓ اور انصار کے ایک آدمی کو بھیجا اور حکم دیا:’’تم دونوں ’’یاجج‘‘ مقام کے دامن میں ٹھہر جانا اور جب زینبؓ تمہارے قریب سے گزرے تو تم ساتھ چل پڑنا اور یہاں مدینہ لے آنا۔‘‘ ابوداؤد (۲۶۹۲) حسن، حضرت زینبؓ مدینہ میں آ گئیں، بعد میں ابو العاص مسلمان ہو گئے تو اﷲ کے رسولؐنے پہلے ہی نکاح پر بیٹی کو ابو العاصؓ کے گھر بھیج دیا۔

سیدنا سہل بن سعد ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐ سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو گھرمیں نہ پایا تو آپ نے فرمایا تمہارے چچا کے بیٹے کہا ں ہیں ۔وہ بولیں کہ میرے اور انکے درمیا ن کچھ تنازعہ ہوگیا ہے تو وہ مجھ پر ناراض ہوکر چلے گئے اور میرے ہاں نہیں سوئے ۔ تو رسول اﷲ ؐ نے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو کہ وہ(علی رضی اﷲ عنہ )کہاں ہیں ۔ وہ دیکھ کر آیا اور اس نے کہا وہ مسجد میں سورہے ہیں رسول اﷲ ؐ مسجد میں تشریف لے گئے ۔اور وہ لیٹے ہوئے تھے ۔انکی چادر پہلوسے ہٹی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے جسم پر مٹی لگ چکی تھی تو رسول اﷲ ؐ انکے جسم سے مٹی جھاڑتے جارہے تھے ۔ اور یہ فرماتے جارہے تھے ۔ ’’اے ابو تراب اٹھو․․!‘‘ (پھر انہیں اٹھا کر گھر لے گئے اور دونوں کی ناراضگی کو رفع کیا) [بخاری (۶۲۰۴)] حضرت حسن بن علیؓفرماتے ہیں کہ نبیؐ ایک رات امیر المومنین علی ؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تم تہجد کیوں نہیں پڑھتے۔ حضرت علیؓ نے عرض کی: یا رسول اﷲ ہماری جانیں تو اﷲ کے اختیار میں ہیں۔ جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا، ہمیں اٹھا دے گا۔ جب انہوں نے یہ کہا تو رسول اﷲؐ (کچھ ناراض سے) واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہیں دیا اور آپؐ جاتے ہوئے اپنی ران پر ہاتھ مارتے جا رہے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے: ’’انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘ [بخاری (۱۱۲۷)]بیٹی اﷲ کی رحمت،گھر کی شہزادی،باپ کی عزت اور روز قیامت نجات کا ذریعہ ہے لہذااس کے حقوق کا خیال رکھیئے اور اﷲ تعالی کو خوش کیجئے۔
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 40530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.